1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد سنگھ پر پابندی لگی تھی جس کو سال بھر بعد ہٹایا گیا تھا۔ اس سے متعلق دستاویز عوامی طور پر دستیاب ہونے چاہیے، لیکن نہ تو یہ نیشنل آرکائیوز کے پاس ہیں اور نہ ہی وزارت داخلہ کے پاس۔
ناگپور میں سنگھ ہیڈکوارٹر میں سنگھ کارکن (فوٹو : پی ٹی آئی
نئی دہلی: آر ایس ایس پر 1948 میں پابندی لگنے اور 1949 میں پابندی ہٹانے سے متعلق اہم فائلوں کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ واضح ہو کہ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 1948 میں آر ایس ایس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔دہلی کے ایک آر ٹی آئی کارکن وینکٹیش نایک کو 1949 میں آر ایس ایس پر پابندی ہٹائے جانے سے متعلق فائل کے بارے میں پتہ چلا۔ وہ اس وقت انڈین نیشنل آرکائیوز میں ریسرچ کر رہے تھے۔
فائل میں موجود موضوع اور مواد کے بارے میں انہوں نے پرجوش ہو کر اس کو دستیاب کرانے کے لئے عرضی دی، لیکن اسٹاف نے ان کو بتایا کہ ان کو ابھی یہ فائل وزارت داخلہ نے سونپی نہیں ہے۔ ان کو ایک پرچی دی گئی، جس پر لکھا تھا، این ٹی [NT-Not Transferred] یعنی سونپی نہیں گئی ہے۔نایک نے اس کے بعد جولائی 2018 میں ایک آر ٹی آئی عرضی داخل کرتے ہوئے دو فائلوں کی کاپی مانگی، جس میں سے ایک 1948 میں آر ایس ایس پر پابندی لگانے سے متعلق اور دوسری 1949 میں آر ایس ایس سے پابندی ہٹانے سے متعلق فائل ہے۔
نایک نے اپنی عرضی میں’ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ لفٹنگ آف بین آن ایکٹوٹیز’ کے موضوع پر فائل نمبر 1949 ایف نمبر1 (40)-ڈی سے جڑے تمام ریکارڈوں، دستاویزوں اور کاغذات کی تفتیش کی مانگ کی۔انہوں نے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 1948 میں آر ایس ایس پر پابندی سے متعلق نوٹس سمیت تمام رکارڈوں، دستاویزوں اور کاغذات کی بھی تفتیش کی مانگ کی۔
وزارت داخلہ نے کہا کوئی جانکاری دستیاب نہیں
وزارت داخلہ کے مرکزی عوامی اطلاعاتی افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ فائل ان کے پاس نہیں ہے۔وزارت داخلہ کے ڈپٹی سکریٹری اور سی پی آئی او وی ایس رانا نے 6 جولائی 2018 کو کہا تھا، اس کا یہاں ذکر ہے کہ آپ کے ذریعے مانگی گئی جانکاری سی آئی پی او کے پاس دستیاب نہیں ہے۔ آر ایس ایس پر پابندی سے متعلق ایسی کوئی فائل، ریکارڈ یا دستاویز دستیاب نہیں ہے۔ ‘
نایک نے 28 ستمبر 2018 کو ایک دوسری آر ٹی آئی دائر کی۔ اس بار انہوں نے آن لائن درخواست دائر کی۔ انہوں نے پہلی آر ٹی آئی عرضی اور پی آئی او کا جواب اس کے ساتھ منسلک کیا اور رجسٹر سے جانکاری مانگی کی کس کے دائرہ اختیار میں اور کب ان فائلوں کو ضائع کیا گیا۔ یہ فائلیں مستقل طور پر رکھنے کے لئے ہوتی ہیں۔
نایک نے سرکاری ریکارڈ سے متعلق پیج یا مناسب حصہ یا کسی بھی نام سے رکھے گئے رجسٹر کی کاپی مانگی، جو آر ایس ایس پر 1949 کی فائل کو ضائع کرنے کے بارے میں ہو۔ انہوں نے فائل کو ضائع کرنے کا حکم دینے والے افسر کے نام اور اس کا عہدہ جاننے کی بھی مانگ کی۔وزارت داخلہ نے اکتوبر 2018 کو ایک بار پھر کہا کہ یہ جانکاری پی آئی او کے پاس نہیں ہے۔ وزارت نے کہا، اس سیکشن کے پاس آر ایس ایس پر پابندی لگانے سے متعلق فائلوں، ریکارڈوں اور دستاویزوں کی فراہمی کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔
نایک اب ان گم ہوئی فائلوں کی جانچ کا حکم دینے کے لئے چیف انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) کے پاس شکایت درج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا، مجھے اب دوبارہ عرضی دائر کرنی ہوگی کیوں کہ یہ معاملے چار مہینے سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ یہ عام طور پر پرانی آر ٹی آئی کی بنیاد پر شکایتوں پر عمل نہیں کرتے۔ ‘
عوامی طور پر دستیاب ہونے چاہیے یہ کاغذات
آر ٹی آئی کارکن کا کہنا ہے کہ انہوں نے آرکائیول ویلیو کی وجہ سے اپنے دستاویزوں کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔نایک نے کہا، آر ایس ایس پر پابندی لگانے اور ہٹانے کی جو بھی وجہ رہی ہو، یہ آرکائیول ویلیو کے ریکارڈ ہیں۔ اس وقت حکومت نے اہم مدبرانہ فیصلے لئے۔ اقتدار میں آنے والی کسی بھی پارٹی یا اتحاد نے ان دستاویزوں کو عوامی کرنے پر دھیان نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ ریسرچ کرنے والوں کی ان دستاویزوں تک رسائی تھی اور انہوں نے فیصلہ لینے والی اس کارروائی کے کچھ حصوں پر تبصرہ بھی کیا تھا لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ 70 سال گزر جانے کے بعد کم سے کم اب تو ان تمام کاغذات کو عوامی کیا جانا چاہیے۔