معاشیات کا نوبل جیتنے والے تینوں ماہر اقتصادیات –ابھیجیت بنرجی ، ایستھر ڈفلو اور مائیکل کریمر کا خیال ہے کہ رینڈمائزڈ کنٹرول ٹرائل (آر سی ٹی) غریبی کم کرنے کی بہترین راہیں کھول سکتی ہیں ۔ آر سی ٹی کا استعمال خصوصی طو رپر طب کے شعبے میں دوائیوں کے اثر کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔
نئی دہلی:2019 کے اقتصادیات کے لیے تین ماہرین اقتصادیات کومشترکہ طور نوبل پرائز پر دیاگیا ہے، جن کا کام خصوصی طور پر زیر ہدف آبادی میں سے رینڈم طریقے سےچنے گئے نمونوں پر اختیاری مداخلت کے اثرات کے تجزیہ کے ذریعے پالیسی میکنگ کےشعبے میں رہا ہے۔ ابھجیت بنرجی،ایستھر ڈفلو اور مائیکل کریمر، ان تینوں نے اس طریقہ کار کے استعمال پر کام کیا ہےاور ان کا خیال ہے کہ بےترتیب منضبط جائزہ یا رینڈمائزڈکنٹرول ٹرائل(آر سی ٹی)غریبی کم کرنے کے لئے بہترین راہیں کھول سکتی ہیں۔
رینڈمائزڈکنٹرول ٹرائل کا ڈیولپمنٹ اکانومکس میں استعمال
اس سال کےاقتصادیات کے نوبل-جس کو’الفریڈ نوبل کی یاد میں دیا جانے والاسویریاس رکس بینک پرائز ‘کہا جاتا ہے-نوبل پانے والوں کے ذریعے پبلک پالیسی ریسرچ کےاوزار کے طور پر مقبول عام بنائے جانے سے پہلے رینڈمائزڈکنٹرول ٹرائل(آر سی ٹی)کا استعمال خاص طور پر ادویات کے شعبے میں دوائیوں کے اثرکا جائزہ لینے کے لیے کیاجاتا تھا۔ جیسا کہ بنرجی، ڈفلو اور کریمر نے خود اپنے2018 کے ایک مضمون میں نشان زد کیا ہے، کہ پالیسی کے تجزیے کے لئے اس اوزار کااستعمال کرنے کا خیال ان کی بنیادی سوچ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟
اس میں ایک منتخب نمونے (سیمپل)کوبےترتیب طریقے سے دو یازیادہ گروپوں میں منقسم کیا جاتا ہے-ایک یا زیادہ’علاج ‘گروپ (ٹریٹمنٹ گروپس)اور ایک ‘ تجرباتی دوا ‘ گروپ (پلےسیبو گروپ)۔پورے نمونے کواس گروپ سے لیا جاتاہے، جو جائزہ لیے جا رہے مدبرانہ مداخلت کا ہدف ہوگا۔ ان دونوں گروپس کا مطالعہ مداخلت کے دوران اور اس کے بعد بھی کیا جاتا ہے اور نتائج کا استعمال یہ طے کرنےکے لئے کیا جاتا ہے کہ مدبرانہ تدبیر کتنے متاثر کن ہیں اوران کو بہترین طریقے سےکس طرح سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
2011 میں بنرجی اورڈفلو کی مقبول عام کتاب پوور اکانومکس کی اشاعت کے بعد سے دنیا بھر میں آر سی ٹی ڈیولپمنٹ کے شعبے میں ایک مروجہ اوزار بن گیا ہے۔ حالانکہ رائل سویڈش اکیڈمی کاصاف طور پر یہ ماننا ہے کہ آر سی ٹی عالمی غریبی کو مٹانے کے لئےتدبیروں کا خاکہ تیارکرنے کا بہترین طریقہ ہے ‘، لیکن تمام ماہر اقتصادیات اس سےاتفاق نہیں کرتے ہیں۔پچھلی دہائی کے دوران آر سی ٹی سے وابستہ بہتر فنڈ پانے والے اورکافی مقبول عام کاموں کےبرعکس ماہر اقتصادیات کا ایک دوسرا طبقہ ہے، جنہوں نے اس کے طریقہ کار (Methodology)پر سوال اٹھائے ہیں۔ ان ماہر اقتصادیات میں اینگس ڈیٹن، نینسی کارٹرائٹ، مارٹن ریولن،جیاں دریج اور سنجئے ریڈی وغیرہ شامل ہیں۔
مثال کے طور پرڈیٹن اور کارٹرائٹ نے کہا ہے،’ عام لوگ، اور کبھی کبھی محقق بھی تفتیش کی دوسری تکنیک کے اوپر آر سی ٹی پر کچھ زیادہ ہی بھروسہ کرتے ہیں۔اپلائیڈلٹریچر میں بار بار کئے جانے والے دعووں کے برعکس، رینڈمائزیشن، ٹریٹمنٹ اورکنٹرول گروپس میں علاج کے علاوہ کسی کے بھی برابر نہیں ہوتا ہے۔ یہ Average treatment effectکا خودبخود درست اندازہ پیش نہیں کرتا ہے اور اس کے علاوہ یہ ہمیں براہ راست یا بلاواسطہ کو-ویرئیٹس کے بارے میں غور کرنے کی جوابدہی سے راحت نہیں دیتا ہے۔ ‘بنرجی اورڈفلو نے ان تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے یہ کہا کہ بھلےہی وہ تمام دلیلوں سے اتفاق نہ رکھتے ہوں، لیکن یہ تنقیدیں ان کے طریقے کو زیادہ اچھی طرح سے واضح کرنے میں معاون ہیں۔
ویڈیو : ابھیجیت بنرجی کے ساتھ کرن تھاپر کی بات چیت
ان کی دلیل ہے، ‘تنقیدکا کافی بڑا حصہ ہمارے لئے مفید ہے،بھلےہی ہم پوری طرح سے ان سے متفق نہ ہوں۔ یہ ہمیں [اس شعبے میں کئے گئے] کاموں کی طاقت اور اور اس کی حدود کے بارے میں سوچنے اور اس کے آگے کے راستے کے دھندلے پن کودورکرنے میں معاون ہیں۔ لیکن ہم یہ کہنا چاہیںگے کہ اس تنقید کا ایک بڑا حصہ یہ سمجھ پانے میں ناکام رہا ہے (یا کم سے کم کافی توجہ نہیں دیتا ہے) کہ آخر ڈیولپمنٹ میں تجرباتی تحقیق کو لےکر اتنی دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ ‘
نوبل جیتنے والے تینوں ماہرین اقتصادیات نے کئی بار ملکر کام کیا ہے اور اگر ان کے کاموں کو ملاکر دیکھا جائے توانہوں نے تعلیم، صحت خدمات، مائکرو فائننس، کیمیاوی فرٹیلائزر سبسیڈی اور دیگر مختلف موضوعات پر کام کیا ہے۔
تعلیمی شعبےمیں کام
مائیکل کریمرنے 1990 کی دہائی کےوسط میں لرننگ آؤٹ کمس کے شعبے میں مداخلت کے اثر کو سمجھنےکے لئے تجرباتی فیلڈجائزوں کے طور پر آر سی ٹی کا تجربہ دیہی مغربی کینیا میں کرنا شروع کیا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مفت کھانا، مفت درسی کتابوں، بچوں کی ڈی ورمنگ یااساتذہ کی مالی حوصلہ افزائی، جیسی مداخلت میں سے کون سی مداخلت زیادہ مؤثر ہوتےہیں۔ کافی بڑی تعداد میں اسکولوں کا انتخاب بے ترتیب طریقے سے کیا گیا۔ ان کو مختلف گروپس میں بانٹکر ان کو الگ الگ وسائل مہیا کرائے گئے۔ مثال کے طور پر ایک گروپ کےاسکولوں کومفت کتابیں دی گئیں، جبکہ دوسرے کو مفت کھانا وغیرہ۔ اس طرح سےآؤٹ کم یعنی نتائج کا موازنہ کیا جا سکتا تھا۔
الگ الگ اوسط خصوصیات والےاسکولوں کاموازنہ کرنے کے مسئلہ کا حل بڑی تعداد میں اسکولوں کا انتخاب کرکے کیاگیا اور اس طرح سے بڑی تعداد کے اصول کا استعمال کرکے یہ یقینی بنایا گیا کہ اوسطاً اسکولوں کی خصوصیت ایک جیسی رہےگی۔ کریمر نے پایاکہ مفت کھانا یا مفت کتابوں کالرننگ آؤٹ کم پر کوئی بہت زیادہ اثر نہیں پڑا تھا۔نصابی کتابوں کا تھوڑی ‘ بہت مقدار میں مثبت اثر پڑا تھا، مگر وہ سب سے اچھے یاذہین بچوں تک ہی محدود تھا۔انہوں نےنتیجہ نکالا کہ کینیا کے تعلیمی نظام کو الگ الگ اسکولوں کی سطح پر ان پٹ مداخلتوں کی جگہ بڑے پیمانے کی اصلاحات کی ضرورت تھی۔ کریمر کے مطابق ایسا اس لئےتھاکیونکہ وہاں کا نصاب ضرورت سے زیادہ اور سب سے ہونہار طالب علموں پر مرکوز تھا۔
ابھجیت بنرجی اور ایستھر ڈفلو نے جب کریمر کے تجربات کو ہندوستان میں اپنایا، تب ان کو بھی ہندوستانی تعلیمی نظام میں ویسی ہی دقتیں دکھائی دیں۔ جن سرکاری اسکولوں میں انہوں نے اپنا تجربہ کیا، ان میں انہوں نے پایا کہ اساتذہ کا دھیان سب سے ذہین طالبعلموں کی طرف تھا اور معمولی طالب علموں کی تعلیمی کارکردگی کی لرننگ آؤٹ کم میں اصلاحات لانے کی خواہش بہت کم تھی۔ بنرجی اورڈفلوکے مطابق اسکولوں کا سارا دھیان نصاب کو ‘ختم ‘ کرنے پر تھا اور اس توجہ کی وجہ سے استادان تکنیک کا استعمال کرنے سےکتراتے تھے، جو معمولی طالب علموں کےلرننگ آؤٹ کم میں اصلاح کر سکتے تھے، کیونکہ ایساکرنے سے نصاب ختم کرنے میں دقت ہوتی۔
انہوں نے ‘مشکل ‘امتحانوں میں کامیاب ہونےاور طالب علموں کو نوکری کے لئے تیار کرنے پرپورا زور دینے کے لئے بھی ہندوستانی تعلیمی نظام کی تنقید کی، جو فاتحین اور ہارنےوالوں کی دو زمرے بناتا ہے-وہ جو ان امتحانوں میں اچھا کرتے ہیں اور دوسرے وہ جوان امتحانوں میں اچھا نہیں کرتے ہیں۔بنرجی، ڈفلو اور کریمر کے مطابق یہ رویہ اس حقیقت کو نظرانداز کر دیتا ہے کہ ہرکسی کے لئے لرننگ آؤٹ کم میں تھوڑی سی بھی اصلاح دنیا کا سامنا کرنے کی ان کی صلاحیت پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔
صحت کے شعبےمیں کام
ٹیکہ کاری اورڈی ورمنگ پر کریمر کے کام کافی مشہور رہے ہیں۔ کینیا میں ڈی ورمنگ پر ایک مطالعے میں،ہارورڈ کے اس پروفیسراور ان کے معاون قلمکاوں نے یہ پایا کہ قیمت میں تھوڑا سا بھی فرق کیڑے کی دوائی کی مانگ پر کافی بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔ کیڑے کی دوائی مفت دیےجانے پر 75 فیصدی گارجین نے اپنے بچوں کو وہ دوائی کھلائی جبکہ ایک چھوٹی سی رقم (ایک ڈالر سے کم)قیمت چکاکردوائی کھلانے والے گارجین کی تعداد گرکر 18فیصدی رہ گئی۔
ان کے اوردیگرکے ذریعے دوسرے تجربات کا نتیجہ بھی یہی رہا ہے۔ سویڈش اکیڈمی نے لکھا ہے : ‘صحت خدمات کے معاملے میں غریب لوگ قیمت کو لےکر بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ‘ یہی وجہ ہے کہ اپنے نتائج کے بارے میں بتانے والے ایک مصنف نے کریمر اور دیگر نے یہ دلیل دی ہےکہ حکومت کے ذریعے صحت سہولیات پر بڑی سطح پر سبسیڈی دینا فائدےمند ہے۔بڑے پیمانےپرڈی ورمنگ نے بچوں کی اسکول حاضری میں اصلاح لانے کا کام کیا، ساتھ ہی ساتھ پہلےامتحانوں اور نوکری میں ان کے مظاہرے میں اصلاح اور آگے چلکر ان کی آمدنی کی سطح میں اصلاح لانے کا کام کیا۔
کریمر اوردیگر نے ماس ڈیورمنگ پروگراموں سے ہاتھ کھینچ لینے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا فائدہ صرف صحت کےشعبے تک ہی محدود نہیں ہے۔ڈبلیو ایچ او نے ان کے نتائج کو سنجیدگی سے لیا۔ جیساکہ سویڈش اکیڈمی نے کہاہے، ‘اب وہ ایسے علاقوں کے 80 لاکھ اسکولی طالب علموں کے لئےمفت میں دوائی کی تقسیم کی سفارش کرتی ہے، جہاں 20 فیصد سے زیادہ اسکولی طالب علموں کو کسی قسم کاپیراسائٹک ورم انفیکشن ہے۔
بنرجی اورڈفلو نے ہندوستان میں بھی ٹیکہ کاری پر کام کیا ہے، خاص طور پر اس مسئلہ پر کہ مختلف پرائمری ہیلتھ سینٹر پرملازمین کی غیرحاضری کے مسئلہ سے کیسے نپٹا جائے۔انہوں نےاس تعلق سے دیہی راجستھان میں اپناتجربہ کیا، جس میں انہوں نے پایا کہ موبائل ٹیکہ کاری کلینک اورپرائمری ہیلتھ سینٹر جیسی خدمات کے زیادہ بھروسہ مند ہونے کی حالت میں گارجین کے ذریعے اپنے بچوں کی ٹیکہ کاری کروانے کا امکان تھوڑاسا زیادہ تھا۔
اگراس بھروسہ کے ساتھ تھوڑی حوصلہ افزائی بھی کی جائے-مثلاً ایک وقت کا مفت کھانا-توگارجین کے ذریعے اپنےبچوں کی ٹیکہ کاری کو یقینی بنانے کا امکان اور بڑھ جاتا تھا۔