یہ کتاب اردو کی ایک علاقائی اکائی میتھلی اردو کے امتیازات کو لسانی اور علمی نقطہ نظر سے پیش کرتی ہے اور اردو میں لسانی جغرافیہ مرتب کرنے کی اولین کوششوں میں سے ایک ہے اوراس کی پذیرائی لازم ہے۔
کسی ایک مخصوص جغرافیائی خطہ میں جہاں اردو اور ہندی کے علاوہ دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں، وہاں اردو بطور ترسیلی زبان کس طرح اپنا تشخص قائم کرتی ہے اس کا جدید لسانیاتی تناظر میں مطالعہ شاذ ہی ہوا ہے۔ یہ مقام مسرت ہے کہ ڈاکٹر جہانگیر وارثی نے اس سلسلے میں ایک قابل لحاظ پیش رفت کی ہے اور انہوں نے خطہ متھلا میں آباد مسلمانوں کی ترسیلی زبان کا محاسبہ کیا اور اپنے مطالعے کا ثمرہ ‘میتھلی اردو’کے عنوان سے کتابی صورت میں پیش کیا۔6 ابواب میں منقسم تقریباً200 صفحات پر مشتمل یہ کتاب کریئیٹو اسٹار پبلی کیشن، دہلی نے شائع کی ہے۔
میتھلی اردو کے امتیازی عناصر کیا ہیں اور یہ کن سطحوں پر معیاری اردو سے مطابقت رکھتی ہے یا پھر یہ اردو کی ایک نئیVarietyہے، اگر ایسا ہے تو اس کے وہ کون سے تشکیلی عناصر ہیں جن پر اردو کی گہری چھاپ ہے؟ ان سوالات کو جہانگیر وارثی نے موضوع بحث بنایا ہے تاہم میتھلی اردو میں شعر و ادب بھی لکھا جا رہا ہے، اس سوال کا جواب مصنف نے نفی میں دیا ہے۔ تو پھر اس کا خود مکتفی وجود کس طرح قائم ہوگا، یہ سوال تشنۂ تعبیر ہی رہتا ہے۔لکھنوی اردو ، دہلوی اردو اور دکنی اردو وغیرہ میں شعر، افسانہ ، ناول اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی قابل قدر مثالیں موجود ہیں۔ میتھلی اردو علاقائی ، تہذیبی اور لسانی تشخص سے آباد ایک بولی ہے اور اسے اردو کی ایک خود مکتفیVarietyکے طور پر تسلیم کیاجانا قبل از وقت لگتا ہے۔ اس ضمن میں جہانگیر وارثی رقم طراز ہیں؛
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ متھلا کے مخصوص ثقافت کے قلب میں آباد مسلمانوں نے وہیں اپنی لسانی شناخت بنائی گوکہ وہ وہاں کی مقامی میتھلی زبان کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ضرورتاً بولتے بھی ہیں تاہم انہوں نے اردو زبان کو اپنی روزمرہ کی ترسیلی ضرورت کے لیے اپنایا جو کلیتاً اردو کا پیراہن تو نہیں رکھتی بلکہ اس کے وجود کے بیشتر عناصر پر اردو کی گہری چھاپ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی بازیافت کے لسانی عمل میں اسے متھلانچل اردو سے موسوم کیا ہے۔
مصنف کے مطابق میتھلی اردوتذکیر و تانیث اور تلفظ کی سطح پر معیاری زبان سے خاصی مختلف ہے اور متھلانچل کی اردو میں ادب کا کوئی سرمایہ نہیں ہے تاہم جہانگیر وارثی کا خیال ہے کہ میتھلی اردو کے پاس زبان کا صدیوں پرانا تاریخی سرمایہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلا آرہا ہے۔اس نے اردو اور ہندی زبان کو ثروت مند بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ متھلانچل دربھنگہ، مدھوبنی، سمستی پوراوربیگوسرائے اضلاع پر مشتمل ہے جہاں ہندی ، میتھلی، بنگالی اور اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد اآباد ہے۔مسلمان زیادہ تر اردو بولتے ہیں جس پر علاقائی اثرات بہت نمایاں ہیں گو کہ اس کا خمیر اردو سے اٹھا ہے اور جہانگیر وارثی نے اردو سے اس کے لسانی رشتے کے خد و خال واضح کیے ہیں۔ میتھلی اردو کے اثرات میتھلی، ہندی اوراردو زبان و ادب پر بھی مرتسم ہوئے ہیں لیکن اس پر بقول مصنف تاحال ٹھوس، سنجیدہ اور تفصیلی لسانی تحقیق نہیں ہوئی ہے گو کہ اس کے ذخیرہ الفاظ ، صوتیات اور قواعد پرمختصر اور سرسری اظہار خیال کی مثالیں ملتی ہیں۔
کتاب کا پہلا باب سرزمین متھلا کے اجمالی تعارف پر مشتمل ہے اور یہاں تاریخی پس منظر کے علاوہ شمالی بہار کے میتھلی بولنے والوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز ہے۔ دوسرا باب ‘میتھلی ادب ایک جائزہ’ میں جذباتی تحسین کا بین طور پر احساس ہوتا ہے۔ ودیاپتی کے تخلیقی نابغہ کا اعتراف عام طور پر کیا جاتا ہے اورمصنف نے اس ضمن میں سرجان لیمز کا یہ قول نقل کیا ہے اور اس کی مکمل طور پر تائید کی ہے؛
ہومر کی جائے پیدائش کے اعزاز کے لیے سات شہروں نے دعویٰ کیا ہوگا مگر شاعر ودیاپتی کو چھوڑ کر مجھے کسی شاعر کا نام یاد نہیں آتا کہ دو مختلف زبانیں بولنے والے دو مختلف عوام ان کو اپنا کہنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس بیان میں جزوی صداقت ضرور ہے مگر ہندوستان میں اس نوع کی متعددمثالیں ہیں۔ اس سلسلے میں پریم چند، اقبال اور غالب کا ذکر ضروری ہے کہ اردو اورہندی بولنے والے پریم چند پر اپنا دعویٰ پیش کرتے ہیں اوراقبال اور غالب پر فارسی اور اردو والے یکساں طور پر نازاں ہیں۔
جہانگیر وارثی نے اس باب میں ودیاپتی کی شاعری پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ’ودیاپتی کی عشقیہ شاعری وشنو پرستی پر مبنی نہیں ہے اور ان کے عشقیہ گیت بھجن نہیں ہیں تاہم ان کا یہ قوم محل نظر ہے کہ کرشن میں الٰہیت کوئی وصف نہیں ماسوا اس یاد دہانی کے کہ وہ ایک قادر مطلق ہیں۔ جوکوئی یہ سمجھتا ہے کہ گوپیوں کے ساتھ کرشن لیلا مایا کی بھول بھلیوں اور بے ربطی میں روح کا داخلہ ہے ، جہاں سے وہ رادھا کے عشق کی صورت میں وصالِ مطلق یعنی موکش پاتا ہے، تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔’
اس نقطہ نظر کا اثبات ہندوستانی الٰہیات، مابعد الطبیعیات، جمالیات اور شعریات کے جلیل القدر عالموں نے کیا ہے۔مصنف نے میتھلی ادب کے عہد بہ عہد ارتقا پر بھی روشنی ڈالی ہے۔یہاں مختلف فنون مثلاً موسیقی، ڈرامہ اور رقص وغیرہ کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔تیسرے باب میں میتھلی زبان کو مرکز مطالعہ بنایا گیا ہے اور مصنف کے مطابق متھلا کے مسلمان میتھلی نہیں بولتے ہیں اورمظفرپور اور چمپارن میں لوگ یکسر مختلف بولی بولتے ہیں جو اودھی سے گہری مماثلت رکھتی ہے جسے مقامی طور پر شیخانی یا جولہا بولی کہا جاتا ہے۔
اس علاقے میں مسلمان جلاہوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے اور جولہا بولی وارثی کے مطابق میتھلی کی ایک صورت ہے گوکہ اس کی فرہنگ میں فارسی اور عربی الفاظ کی بہتات ہے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں نحوی یا صرفی پہلوؤں پر صوتیات، شکلیات، نحو اور نمونے کے متون پر مبنی ابواب قائم کیے ہیں، انہوں نے صوتیات سے متعلق باب میں حروف علت ، حروف صحیح اور مرکب حروف علتوں کو موضوع گفتگو بنایا ہے۔ باب دوم میں اعداد وشمار، جنس، اسما، ضمائر، صفات، حروف عطف، سابقہ، لاحقہ اور اشتقاق سے بحث کی گئی ہے۔ مصنف نے قواعد سے متعلق امور مثلاً جملوں کے اقسام، لفظ کی ترتیب و تنظیم، رابطہ ذیلی حروف علت اور فقروں پر باب سوم کو مرکوز کیا ہے۔ باب چہارم مثالوں سے عبارت ہے جس میں آزاد اور چند منتخب عبارتوں کا اردو، میتھلی اردو اور انگریزی ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔
مصنف نے کتابیات کے ضمن میں اپنی ژرف نگاہی کا ثبوت دیا ہے اور اپنے ہر قول کی تائید میں ماہر لسانیات کو پیش کیا ہے۔بحیثیت مجموعی یہ کتاب اردو کی ایک علاقائی اکائی میتھلی اردو کے امتیازات کو لسانی اور علمی نقطہ نظر سے پیش کرتی ہے اور اردو میں لسانی جغرافیہ مرتب کرنے کی اولین کوششوں میں سے ایک ہے اوراس کی پذیرائی لازم ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
The post
ورق در ورق: میتھلی اردو کیا ہے؟ appeared first on
The Wire - Urdu.