ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

غالباً 2018 میں جب جموں و کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی مدت ختم ہو رہی تھی دہلی میں ان کے ممکنہ جانشین کے بطور ریٹائرڈ لیفٹنٹ جنرل سید عطا حسنین کا نام گردش کر رہا تھا۔ جنرل حسنین جو سرینگر میں موجود فوج کی چنار یا 15 ویں کور کے کمانڈر رہ چکے تھے، کے کشمیر میں بطور گورنر کی ممکنہ تعیناتی پر میں چونک سا گیا تھا۔

ان ہی دنوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں سر راہ ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہایت ہی اعلیٰ ذرائع سے ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے تیار رہیں۔

میں نے ان سے کہا، چاہے وہ کتنے ہی سیکولر کیوں نہ ہوں، ان کا نام مسلمانوں جیسا ہے، اس لیے  وہ اس عہدہ کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ اب ان کے چونکنے کی باری تھی۔میں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا گورنر ویشنو دیو ی شرائن بورڈ اور امرناتھ شرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔

ان دونوں تیرتھ استھانوں کے ایکٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ اس کا چیئرمین ایک ہندو ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا کہ چند رو ز بعد ایک ہندو ستیہ پال ملک کو گورنری کی دستار تفویض کی گئی۔ یعنی ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا گورنر یا لیفٹنٹ گورنر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہندو استھانوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیے ابھی حال ہی میں ہندوستانی پارلیامنٹ نے سو سال قدیم مسلم وقف قانون کو رد کرکے ایک نیا قانون پاس کرکے اس میں یہ لازم قرار دیا کہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈذ کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہونے چاہیے۔

سابقہ قانون کے تحت دونوں اداروں کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔اب اس میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت متعین کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہو ں گے اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔چار مسلم اراکین میں دو خواتین کا ہونا لازمی ہے۔

ان اراکین اور چیئرمین کو اب حکومت نامزد کرےگی۔ نیز ریاستی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔وقف جائیدادوں کے تنازعوں کا نپٹارا کرنے کے لیے قائم  وقف ٹربیونل میں مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔

اب ٹربیونل صرف ایک موجودہ یا سابقہ ڈسٹرکٹ جج اور ایک ریاستی افسر پر مشتمل ہوگا۔ مہاراشٹرا میں شری سائی بابا ٹرسٹ کا قانون کہتا ہے کہ جو افسر وہاں کام کرے گا اسے سائی بابا کا عقیدت مند ہونا چاہیے اور اسے ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے۔

اسی طرح دیگر ہندو یا دیگر مذاہب کے مٹھوں یا عبادت گاہوں کے انتظام ا انصرام کےلیے اسی مذہب کا ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ دل و جان اور عقیدہ کے ساتھ اس ادرارے کی خدمت کرسکے۔

یہ نیا قانون کس قدر متعصبانہ حد تک ظالمانہ ہے کہ اس کی ایک اور شق کے مطابق اب صرف ایسا شخص ہی  وقف یا اسلامی مذہبی و فلاحی مقاصد کے لیے زمین یا جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے با عمل مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔

وہ دینداری کا ثبوت کیسے فراہم کرے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ کیا کسی سند کی ضرورت ہوگی یا علماء کی تصدیق درکار ہوگی؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا معیار کیا ہے؟

یعنی یہ قانون غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل ہونے اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کی اجازت دیتا ہے، مگر اگر وہ وقف کے کاموں کے لیے عطیہ دینا چاہیں گے، تو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن کر بنایا گیا یہ قانون تضاد ات کا عجیب مجموعہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی،اس کو اب چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔

پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو  قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے۔اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔

دارالحکومت دہلی کے سینٹرل گورنمٹ آفس کمپلکس کا بیشتر حصہ جس میں خفیہ ایجنسی راء سمیت سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کے صدر دفاتر وقف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اب ہمیشہ کے لیےوقف کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔

ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے  مجھے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔

پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019میں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اورمتعدد تعلیمی اور رفاعی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے، کو بھی اس فہرست میں شامل کردیتے۔

بقول سابق رکن پارلیامنٹ محمد ادیب بابری مسجد تو بس ایک عبادت گاہ تھی، اب تو  اس نئے وقف قانون سے ہندوستان کی سبھی مساجد و درگاہوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔

پچھلی دو دہائیوں سے سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب سے اکثر خبریں آتی تھیں کہ مقامی سکھ خاندان یا کسان اپنے علاقوں میں1947سے غیر آباد مساجد کو دوبارہ آباد کرانے یا نئی مساجد بنانے کے لیے اپنی زمینیں بطور عطیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کم و بیش دو سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

چونکہ اس صوبہ میں مسلم آبادی ہی ایک فیصد سے کم ہے، اس لیے مسلمان ا ن مساجد کو آباد کر ہی نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اکثر دیہی علاقوں میں دور دور تک  ان کی آبادی ہی نہیں ہے ۔ رواں برس کے اوائل میں ہی ضلع مالیرکوٹلہ کے ایک گاؤں عمرپورہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کی تعمیر کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین وقف کر دی۔

ا ن کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں آباد مسلمان گھرانوں کے  پاس عبادت کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر سکھوں تجونت سنگھ اور رویندر سنگھ گریوال نے مسجد کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کی۔

وہ ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 1.9 فیصد ہے اور جہاں 1947 میں خونریز فسادات ہوئے تھے، اب ایک خاموش انقلاب، یعنی فرقہ وارانہ رواداری کی نقیب بنی ہوئی ہے ۔

اسی طرح جٹوال کلاں نامی سکھ اکثریتی گاؤں میں، جہاں مشکل سے درجن بھر مسلم گھرانے آباد ہیں، ایک نئی مسجد تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سب سکھوں کی زمین اور مالی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔

اب نئے وقف قانون کی رو سے پنجاب میں سکھ خاندانوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے عطیہ کی گئی سینکڑوں زمینیں  کاالعدم یا غیر قانونی قرار پائیں گی۔ایک سکھ سرپنچ کے مطابق اگر یہ قانون پہلے سے نافذ ہوتا تو وہ مسجد بنانے میں مدد نہیں کرسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ  یہ معاملہ صرف عطیہ کا نہیں، بلکہ مشترکہ زندگیوں کا ہے  اور حکومت ایسی یکجہتی کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7 فیصد پر قبضہ ہے، 2 فیصد مقدمات میں ہیں اور 50 فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔

اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔ ہندو فرقہ کو لام بند کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ ابہام بھی پھیلایا گیا کہ ہندوستان میں ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے۔

حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ اگر اس میں دیگر ریاستیں، خاص طور پر شمالی ہندوستان کی اترپردیش اور بہار کو شامل کیا جائے تو یہ وقف کے پاس موجود اراضی سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔  اسی طرح مسیحی برادری بھی ہر شہر میں پرائم پراپرٹی کی مالک ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سنجے کے جھا نے دی وائر میں لکھا کہ یہ قانون دراصل فرقہ وارانہ شکوک پیدا کرنے کی بڑی سازش کا حصہ ہے، جسے حکومت عوام کی بھلائی کے نام پر پیش کر رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس نے وقف بل مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے۔

اس جھوٹ کو بیچنے کا جو حوصلہ حکومت نے دکھایا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ان کا مقصد مسلمانوں کو تنہا اور الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس قانون کے اثرات پنجاب سے کہیں آگے تک  ہیں۔ پورے ہندوستان میں اب بین المذاہب خیرات شک کی نگاہ سے دیکھی جاے گی۔

کوئی ہندو یا سکھ اگر کسی مسلم وقف ادارے کو عطیہ دینا چاہے تو پہلے اُسے مذہب تبدیل کرنا ہوگا اور پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یوں خیرات کا جذبہ سرکاری دھندلکوں میں الجھ کر رہ جائےگا۔

ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیامنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔

عمر پورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں سکھ اور مسلمان آج بھی مل کر بستیاں بساتے ہیں۔ مگر قانون کی نظر میں اب ان کی محبت اور بھائی چارہ قابلِ گرفت بھی ہو سکتی ہے۔

اسی طرح اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔

اب اگرسلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300  جائیدادیں تقریباً 32000 کنال (تقریباً 4000 ایکڑ) زمین ہے۔

تاہم ایک بڑا حصہ—خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان—ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔

دیہی کشمیر میں ان مقامات کی بنیاد کئی نسلیں پہلے رکھی گئی تھی، اور انہیں رسمی قانونی طریقہ کار کے بجائے کمیونٹی کے مسلسل استعمال کے ذریعے سند حاصل ہوئی تھی۔ ”استعمال کے ذریعے وقف“  یعنی ”وقف بائی یوز“کی شق کے خاتمے کے بعد، یہ مقامات اب دوبارہ درجہ بندی، تنازعے یا حتیٰ کہ دوبارہ استعمال کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ قانونی تحفظ، جو کبھی تسلسل اور اجتماعی یادداشت سے حاصل ہوتا تھا، اب مکمل طور پر تحریری دستاویزات پر منحصر ہو گیا ہے۔

تاریخی طور پر کشمیر میں —جیسے کہ برصغیر کے بیشتر حصوں میں —مذہبی اور فلاحی زمینیں اکثر باہمی اعتماد اور زبانی معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ جہاں بزرگ کسی درخت تلے نماز پڑھنے بیٹھتے، وہاں مسجد وجود میں آجاتی؛ جہاں کسی گاؤں کے پہلے شہید کو دفنایا جاتا، وہاں قبرستان بن جاتا؛ اور جہاں کوئی صوفی اپنی جائے نماز بچھاتا، وہاں خانقاہ کی بنیاد پڑتی۔

‘استعمال کے ذریعے وقف’ کا اصول ایسے مقامات کو قانونی حیثیت دیتا تھا، چاہے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔نیا قانون محض کوئی سرکاری ضابطے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔

کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بے شمار قبرستان، خانقاہیں اور دینی مدارس مقامی افراد، محلوں یا گاؤں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، جن کے پاس کوئی تحریری دستاویزات نہیں، مگر خدمت کے طویل اور بے داغ ریکارڈ ضرور ہیں

نیا قانون ان جائیدادوں پر ریاستی اداروں یا نجی ترقیاتی منصوبوں کے قبضے کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، خصوصاً جدید کاری یا شہری منصوبہ بندی کے نام پر۔

دفعہ 370 کی منسوخی اورمرکزی انتظام کے بعد، اس اقدام کو کشمیر کے مزید ذہبی، ثقافتی اور سیاسی  زوال کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔کبھی ان جائیدادوں کا محافظ سمجھے جانے والا جموں و کشمیر وقف بورڈ اب بے دست و پا نظر آتا ہے۔

وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98 فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔وقف کی پوری جائیدادوں کا  27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔

نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا، جو زرعی سال 1359ھ (1952ء) کے ریونیو ریکارڈز کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔  ترمیم کا اطلاق ان 57792 سرکاری جائیدادوں پر ہو گا، جو مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر 11712 ایکڑ پر محیط ہیں۔

تیس سے زائد مسلم دانشورو ں، جن میں سابق بیوروکریٹ، یونیورسٹی اساتذہ، قانون دان، سیاستدان وغیرہ شامل ہیں نے ایک مشترکہ بیان میں شکایت کی ہے کہ پارلیامنٹ کی طرف سے وقف ایکٹ کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔

ان کے مطابق آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اس گروپ میں جس میں کئی سابق اعلیٰ فوجی افسران، جیسے لیفٹنٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق پولیس سربراہ محمد وزیر انصاری شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات دل دہلا دینے والے ہیں اوران کے  آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنہوں نے جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی  کے ساتھ رہ سکیں گی۔

احتجاجی مظاہرہ میں اسد الدین اویسی۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

حیدر آباد کے ممبر پارلیامنٹ  اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کے مطابق یہ وقف ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان اور عبادت پر ایک حملہ ہے۔

پارلیامنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور یہ  جنگ آزادی، سماجی و معاشی سرگرمیوں اور شہریت پر ہے تو تھی ہی، اب  مدارس، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی وقف کی گئی جائیدادوں کا تحفظ برقرار رہےگا، کیونکہ ان کے قوانین کو تحفظ حاصل ہے اور ان کا انتظام خود ان کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی بھی غیر مذہب ا ن کے لیے عطیہ دے سکتا ہے اور ان کے انڈومنٹس کا تحفظ ہوگا۔ان پر لاء آف لیمیٹیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔

اویسی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے وقف بائی یوزر چھینا گیا ہے، مگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیےچھوٹ ہے۔  ہندو، بدھ، سکھ مذاہب کو  منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو حاصل کرنے اور اس کے انتظام کا حق حاصل ہے، مگر صرف مسلمانوں سے یہ حق چھینا گیا ہے۔

دہلی میں 271 وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کی پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔

اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔چونکہ تنازعہ کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازعہ حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقف بائی یوزر میں جب کوئی افسر کہہ دے گا کہ یہ وقف کی جائیداد نہیں ہے، تو وقف بورڈ خاموش بیٹھ جائے گا اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا،کیونکہ ان کے چیئرمین حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔

اس قانون کے ذریعے شاید مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے جنگل میں چرواہا بکریوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھیڑیوں کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کو شیر سے بچانے کے نام پر خود نوچ رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ وسط ایشیاء پر روس کے قبضے کے بعد سب سے پہلے اوقاف ضبط کیے گئے تھے، تاکہ مساجد اور مدرسوں کے وسائل ختم کرائے جائیں۔ جب عوام نے چندہ جمع کرکے مسجدیں چلانا شروع کیں، تو چند ہ ٹیکس لگایا گیا۔

لوگوں نے اب گھروں میں نمازیں ادا کرنا شروع کیں، مساجد ویران ہوگئیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کے یونٹ قرار دار پاس کرتے کہ مسجد ویران ہے، اس لیے اسکو رفاعی کاموں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح مسجدکو شہید کروایا جاتا اور کسی اور تصرف میں لایا جاتا۔

 ایک چیز خوش آئند ہے کہ ہندوستانی مسلم زعما کو یہ  بات سمجھ  میں آگئی ہے کہ ان کو کنارے لگایا گیا ہے۔ ورنہ جب ان سے درخواست کی جاتی کہ کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ ہونٹ تو ہلائیں، تو ان کے منہ کا ذائقہ خرا ب ہوجاتا تھا۔

سال 2019 میں جب خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، تو جمعیتہ علماء ہند کے ایک ذمہ دار تو جنیوا مودی حکومت کا دفاع کرنے پہنچ گئے۔  ایک آدھ  ملی رہنماؤں کو چھوڑ کر ان میں اکثر مارٹن نیمولر کی اس نظم کی عملی تفسیر تھے۔

پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔

پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔

پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔

پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

 شاید ہندوستان میں مسلمان ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ ایک ذی ہوش طبقہ ابھی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان کو ساتھ لےکر ہی ان کی داد رسی ہوسکتی ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم ہوسکے گا۔