ٹیبلائڈ ‘ڈیلی میل’ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اگست 2022 میں لیسٹر شہر میں بھڑکے دنگوں میں برطانوی ہندوؤں کو مسلم نوجوانوں سے الجھنے کے لیے اکسانے کا شبہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے قریبی عناصر پر ہے۔ اس وقت مسلمانوں اور ان کے گھروں پر حملوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے مندروں اور گھروں پر حملے اور توڑ پھوڑ کی خبریں آئی تھیں ۔
برطانیہ کےلیسٹر میں تشدد کو ظاہر کرنے والےٹوئٹر پر اپ لوڈ کیے گئے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔
لندن: ایک نئی رپورٹ میں برطانوی ٹیبلائڈ
ڈیلی میل نے اطلاع دی ہے کہ گزشتہ سال برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہونے والی پرتشدد نسلی جھڑپوں کو مبینہ طور پر ‘ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو نیشنلسٹ پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اکسایا گیا تھا۔’
ہفتے کے آخر میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ بی جے پی کے ہندو راشٹرواد کے نظریے کی طرف اشارہ کرتی ہے، جو ہندو اکثریت کے مفادات کو ترجیح دیتی ہے اور مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو حاشیے پررکھنے کے لیے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قریبی عناصر پر گزشتہ موسم گرما میں لیسٹر میں بھڑکے دنگوں میں برطانوی ہندوؤں کومسلم نوجوانوں سےالجھنے کے لیے اکسانے کا شبہ ہے۔’
اخبار سے بات کرتے ہوئے برطانیہ کی سکیورٹی فورس کے ایک رکن نے کہا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ بی جے پی سے وابستہ کارکنوں نے کلوزڈ وہاٹس ایپ گروپس کا استعمال کرتے ہوئے ہندو مظاہرین کو سڑکوں پر اترنے کی حوصلہ افزائی کی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا،لیکن ذرائع نے خبردار کیا کہ یہ ہندوستانی ہندو قوم پرستوں کی برطانیہ میں مداخلت کے لیے نجی سوشل میڈیا پوسٹس کو استعمال کرنے کی ‘بدترین’ مثال تھی۔ انہوں نے متنبہ کیا: اب تک یہ بنیادی طور پر مقامی سیاست ہے – مودی اور ان کی بی جے پی وہ کر رہی ہے جو وہ گجرات (مودی کی آبائی ریاست) میں کسی بھی طرح مقامی نمائندوں کو منتخب کروانے کے لیے کرتے۔’
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا،برطانیہ کے ایک سیکورٹی ذرائع نے کہا کہ ہندو مظاہرین کو سڑکوں پر آنے کی ترغیب دینےکے لیے بی جے پی سے وابستہ کارکنوں کے ذریعےکلوزڈ وہاٹس ایپ گروپس کا استعمال کرنے کے شواہد ملے ہیں۔
یہ دعوے لندن اور نئی دہلی کے درمیان ایک ایسے وقت میں سفارتی طوفان برپا کر سکتے ہیں جب وزیر اعظم رشی سنک، جو خود ایک ہندو ہیں، ہندوستان کے ساتھ بریگزٹ کے بعد ایک منافع بخش تجارتی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیسٹر میں گزشتہ موسم گرما میں نسلی بدامنی مہینوں تک نئے نئے آنے والے ہندو تارکین وطن اور شہر میں پہلے سے ہی آباد مسلمان باشندوں کے درمیان تناؤ کا باعث بنی رہی تھی اور برطانیہ کی نسلی ہم آہنگی کی علامت کے طور پر بنی ساکھ کو داغدار کر دیا تھا۔
بتادیں کہ اگست 2022 کے اواخر میں
ہندوستان اور پاکستان کرکٹ میچ کے بعد ہندو اور مسلم نوجوانوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں، جس نے بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی، خاص طور پر ہندوستان میں جہاں اسے ہندو باشندوں پر مسلمانوں کے حملوں کے طور پر مشتہر کیا گیا تھا۔
ڈیلی میل کو بتایا گیا تھا کہ ہندوستان کے بی جے پی کے کارکنوں نے اس وقت میسیج اور میم جاری کرنا شروع کر دیا تھا، جو لیسٹر میں ہندوؤں کے درمیان وہاٹس ایپ گروپس میں بڑے پیمانے پر بھیجے گئے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ 28 اگست 2022 کو ہندوستان پاکستان کرکٹ میچ کے بعد سے لیسٹر میں22 ستمبر 2022 تک کئی راتوں تک احتجاجی مظاہرے ہوئے، جس میں نوجوانوں نے ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر مارچ کیا تھا۔ ‘جئے شری رام’ ہندوستان میں ہندو دائیں بازو کی ریلیوں کا نعرہ بن چکا ہے۔
مسلمانوں اور ان کے گھروں پرحملوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے مندروں اور گھروں پر حملے اور توڑ پھوڑ کی خبریں آئی تھیں۔
سیکورٹی ذرائع نے ڈیلی میل کو بتایا کہ مبینہ مداخلت دنیا بھر میں ہندوؤں کے رہنما کے طور پر خود کوقائم کرنے کی مودی کی خواہش کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ پچھلے سال کے فسادات کے بعد لیسٹر میں بدامنی کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا کے کردار کا جائزہ لینے کے لیے متعدد مطالعات کیے گئے تھے۔
اس سے قبل بھی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 28 اگست 2022 کو ایشیا کپ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مقابلےکے بعد برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہندو اور مسلم کمیونٹی کے درمیان
کشیدگی کو ہندوستان سے چلائے جانے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس کے ذریعے ہوا دی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق، روٹگرز یونیورسٹی کے نیٹ ورک کنٹیجین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، اگست کے آخر اور ستمبر 2022 کے اوائل میں لیسٹر فسادات کے دوران ٹوئٹر پر تقریباً 500 غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹ بنائے گئے تھے، جن سے تشدد کی اپیل کی گئی ، اس کے علاوہ میم اور اشتعال انگیز ویڈیوز پھیلائے گئے۔
غورطلب ہے کہ 28 اگست 2022 کو ایشیا کپ میں ہندوستان اور پاکستان کرکٹ میچ کے بعدسینکڑوں لوگ لیسٹر میں سڑکوں پر نکل آئے تھے، کچھ فسادی لاٹھی اور ڈنڈے لیے ہوئے تھے اور کانچ کی بوتلیں پھینک رہے تھے۔ عوام کو پرسکون کرنے کے لیے پولیس کو تعینات کیا گیا تھا۔
مساجد میں آگ لگانے اور اغوا کے دعووں کے ویڈیوز سے سوشل میڈیابھر ا ہوا تھا، جس نے پولیس کو یہ وارننگ جاری کرنے کے لیے مجبور کیا کہ لوگ آن لائن نشر ہونے والی گمراہ کن خبروں پر یقین نہ کریں۔ محققین کا کہنا ہے کہ بدامنی پھیلانے والے کئی ٹوئٹر اکاؤنٹ ہندوستان میں بنائے گئے تھے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)