کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدورپا نے کہا ہے کہ ریاست میں شہریت ترمیم قانون نافذ کیا جائے گا۔وہیں اترپردیش کے ڈی جی پی کا کہنا ہے کہ لکھنؤ میں ہوئی اس موت کا مظاہرہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
نئی دہلی:شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کی مخالفت میں ہو رہے مظاہروں کے پر تشددہونے کے بعد مبینہ طور پر پولیس فائرنگ میں تین لوگوں کی موت ہو گئی۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ان میں سے دو کی کرناٹک کے منگلور میں جبکہ ایک کی اتر پردیش کے لکھنؤ میں موت ہوئی۔تشدد کے واقعات اور افواہ پھیلنے کے خدشے کو دیکھتے ہوئے اتر پردیش اور کرناٹک کے کئی ضلعوں میں انٹرنیٹ خدمات بند کر دی گئی ہیں۔
منگلور سٹی کارپوریشن کے کاؤنسلر عبدل الطیف نے بتایا، ‘پولیس فائرنگ میں مارے گئے دو لوگوں کی لاش ہائی لینڈ اسپتال میں ہے۔ ان میں سے ایک عبدل جلیل (49) اور دوسرے نوشین (26) ہیں۔’لکھنؤ میں مرنے والے کی پہچان دولت گنج علاقے کے رہنے والے محمد وکیل (25) کے طور پر ہوئی ہے۔ کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا، ان کے پیٹ میں گولی لگی تھی۔
ٹراما سینٹر کے انچارج کا کہنا ہے کہ وکیل ان پانچ لوگوں میں سے ایک تھے، جن کو گولی لگنے کی وجہ سے جمعرات کی شام چار سے 4.55 بجے کے بیچ میں اسپتال لایا گیا۔وہیں، اتر پردیش کے ڈی جی پی او پی سنگھ کا کہنا ہے کہ وکیل کی موت کا اس تحریک سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔کرناٹک میں سینئر پولیس افسر اموات پر خاموش ہیں، جبکہ منگلور پولیس کمشنر پی ایس ہرش نے مسلم رہنماؤں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں حصہ لیا اور کہا کہ شہر میں تشدد کے دوران دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
اسپتال کے سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار جمعرات کی شام کو کیمپس میں آتے ہیں اور وہاں اکٹھا بھیڑ کو ہٹانے کے لیے لاٹھی چارج کرتے ہیں۔کرناٹک کے وزیراعلیٰ بی ایس یدورپا نے اے ڈی جی پی (لاء اینڈ آرڈر) امر کمار پانڈے سے حالات پر قابو رکھنے کو کہا ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں نے پولیس کو ہدایت دی ہیں کہ علاقے میں اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔’ راجیہ کے ہوم ڈپارٹمنٹ نے 48 گھنٹوں کے لیے منگلور میں انٹرنیٹ خدمات پر روک لگا دی ہے۔
یدورپا نے بدھ کو کہا تھا کہ شہریت قانون کو ریاست میں نافذ کیا جائے گا۔ انہوں نے جمعرات کو مسلم کمیونٹی کو بھروسہ دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست میں ان کے مفادات کو بی جے پی حکومت تحفظ دے گی۔اس بیچ لکھنؤ میں پولیس نے کہا کہ وکیل کو اس وقت اس کے پیٹ میں گولی لگی تھی، جب وہ مظاہرہ میں سے حصہ لےکر گھر لوٹ رہے تھے۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، جہاں علاج کے دوران انہوں نے دم توڑ دیا۔
اتر پردیش کے ڈی جی پی او پی سنگھ نے اس بیچ کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ اس موت کا آج کے مظاہرے یا پولیس کی کارروائی سے کچھ تعلق ہے۔ ہم اس پر چرچہ نہیں کریں گے کہ کیا ہوا یا کیا نہیں ہوا۔ ہماری ترجیح لاء اینڈ آرڈر کو بنائے رکھنا ہے۔ جو ہوا ہے، ہم اس کا تجزیہ کریں گے۔’ٹراما سینٹر کے انچارج سندیپ تیواری نے کہا، ‘جیلانی (15), رنجیت (47), محمد وکیل (25) اور وسیم خان(22) نام کے چار لوگوں کو داخل کیا گیا تھا۔ رنجیت کو چھوڑکر سبھی کو گولی لگی تھی۔ وکیل کی بعد میں موت ہو گئی۔’
وہیں، گزشتہ جمعرات کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے، جس میں ایک شخص وکیل کا بھائی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ حسین آباد پولیس تھانے کے سب انسپکٹر نے ان کے بھائی کو گولی ماری۔اس شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ اور اس کے بھائی آٹو ڈرائیور تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی کی تقریباً 18 مہینے پہلے شادی ہوئی تھی اور ان کی بیوی حاملہ ہے۔