ڈاسنہ کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کوتشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، پولیس اس کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ جس نے تشدد کیاپولیس اس کو ڈھونڈ کر اس کے ساتھ انصاف کاعمل شروع کر سکتی ہے۔ انسانیت کی بقا کی امیدقانون یا آئین کی فہم کے زندہ رہنے پر ہی منحصر ہے۔
ڈاسنہ کے مندر میں نابالغ مسلم لڑکے کی بے رحمی سےپٹائی کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ (بہ شکریہ: ویڈیوگریب)
نفرت،تشدداور ظلم کتنا بھی عام ہو جائے، روزمرہ کی زندگی میں شامل ہو جائے، اتنی انسانیت بچی ہی رہتی ہے کہ اس کوعام ماننے سے انکار کیاجائے۔
ان میں جن کے نام پر تشدد کیا جاتاہے۔ جنہیں بچانے کے لیے، جن کا دبدبہ قائم کرنے کے لیے غنڈہ گردی کی جاتی ہے، ان کے بیچ سے آوازیں اٹھتی ہیں اور کہتی ہیں یہ تشدد ہمارے نام پر نہیں کیا جا سکتا۔ اور تب امید بندھتی ہے۔یہ امید کہ شاید انسانیت کو واپس حاصل کیا جا سکےگا۔
اتر پردیش کے غازی آبادواقع ڈاسنہ کے مندر میں ایک مسلمان لڑکے پر
منظم تشدد کےواقعہ نے لوگوں کو ہلا دیا ہے۔ جو نظر آرہا ہے اس کومنظم تشدد ، نمائش اور پروڈکشن ہی کہہ سکتے ہیں۔اطمینان کے ساتھ آصف کو کیمرے کے سامنے کیا جاتا ہے، ریکارڈنگ کرنے والے کو ہدایت دی جاتی ہے کہ چہرہ پورا آنا چاہیے۔ جسے مارا جا رہا ہے، صرف وہ نہیں، بلکہ جو مار رہا ہے، وہ بھی پورا دکھنا چاہیے۔
صاف ہے کہ یہ منصوبہ بندتشدد ہے۔ کسی لمحاتی غصے کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ فرق کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیامنصوبہ بند تشدد کے مقابلے غصے کی حالت میں کیا گیاتشددقابل معافی ہے ؟خیال کیا جاتا ہے کہ پہلی قسم کےتشدد میں ایک طرح کی غیر معقولیت ہے۔ جذبات نے سوچنے کی صلاحیت کو منجمد کر دیا ہے اور اگرمنصوبہ کے تحت وہ کام نہیں کیا گیا ہے تو اس کو اس انسان کا سوچا سمجھا عمل نہیں مان سکتے، اس طرح اس فعل سے اس کی ذمہ داری ہٹ جاتی ہے۔
وہ لمحاتی غصےمیں جنونی ہو گیا تھا، وہ اپنی سمجھ کھو بیٹھا جس سے وہ انسان بنتا ہے۔ گویا وہ فاعل نہیں رہ جاتا، اوزارمحض رہ جاتا ہے۔ منصوبہ بندتشدد میں تشدد کا فیصلہ شامل ہے۔ اس لیے وہ زیادہ سنگین ہے۔ڈاسنہ کے مندر میں کیےگئےتشدد کا ٹھنڈاپن آپ کو 6 دسمبر 2017 کو راجسمند میں کیمرے کے سامنے اطمینان سے کیے گئے
ایک تشدد کی یاد دلاتا ہے۔ اس تشدد کی نمائش میں شمبھولال ریگر نے ایک مسلمان مزدور افرازل کو کاٹ کاٹ کر ہلاک کر دیا تھا۔
کیمرا15 سال کا ایک لڑکاچلا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہو رہے اس قتل سے ذرا بھی نہیں کانپے۔قتل کا اہتما م جتنا سدھا ہوا تھا، اسے بڑے پیمانے پر پھیلانے کے لیے ریکارڈ کرنے میں بھی اتنے ہی مہارت کا تعارف دیا گیا تھا۔
کسی نے اس کیمرا مین سے بعد میں بات نہیں کی، جاننا نہیں چاہا کہ جو وہ ریکارڈ کر رہا تھا، وہ کیا اس کے لیےمحض ایک ڈراما تھا یا وہ سمجھ پا رہا تھا کہ کیا کیا جا رہا ہے! کسی نے اسے شاید نہیں بتلایا کہ وہ ایک جرم میں شامل تھا۔ یاوہ بھی اس انعقاد کا ایک کردارتھا، دلچسپی رکھنے والا کردار؟
اس طرح کے ہر تشدد کو جی کڑا کرکے دیکھنا چاہیے۔ افرازل کی ہلاکت میں مکالمہ نہیں ہے۔ آصف پر کیا گیاتشدد بتدریج ہے۔ ایک اسٹوری ہے جس کو اسٹیج کیا جا رہا ہے۔جس کو پیٹا جانا ہے، اس کو احساس تک نہیں ہے۔ جب اس کا ہاتھ پکڑکر نام پوچھا جاتا ہے تو اس کے معصوم لبوں پر ہلکی سی مسکان ہے۔ پھر اس کے والدکا نام پوچھا جاتا ہے۔
اس طرح اس کی پہچان یقینی بنائی جاتی ہے۔ وہ مسلمان ہے۔ گویا اس حقیقت کو قائم کر دینے محض سے آگے جو تشدد کیا جانے والا ہے، اس کو دلیل مل جاتی ہے یا وہ جائز ہو جاتی ہے۔جس کو مارا جائےگا صرف اسے ٹھیک سے نہیں دکھنا ہے بلکہ جو مار رہا ہے اس کا چہرہ بھی پورا آنا چاہیے، اس ہدایت کے ساتھ تشدد شروع ہوتا ہے۔ آصف بالکل دنگ ہے۔
وہ گر جاتا ہے کہنے سے زیادہ صحیح یہ کہنا ہے کہ وہ گرا دیا جاتا ہے، اس کے ہاتھ مروڑ دیےجاتے ہیں۔ اس کے چہرے کو پیروں سے کچلا جاتا ہے ، اس کی رانوں کو کچلا جاتا ہے۔ اس کے خصیہ کو کچلا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ منصوبہ بند ہے۔
اس تشدد کے ویڈیو کو مشتہرکرتے ہوئے ایک خوش کن اعلان ہے کہ ایک مسلمان کو نامردبنا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خصوصی اعلان اس لیے کیا جا رہا ہے کہ بتایا جا سکے کہ مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے‘مقبول’مطالبے یا خواہش کو مکمل کرنےکی سمت میں اٹھائے گئے قدم کا ہی ثبوت یہ ویڈیو ہے۔
مسلمان مرد کی مردانگی کو لےکر بنی ہوئی مایوسی کو دور کرنے کا کام یہ ویڈیو کر رہا ہے۔
تشدد کا یہ انعقاد کس امیدمیں کیا جا رہا ہے؟ اور اتنے یقین کے ساتھ کیوں کیا جا رہا ہے؟ ایساتشدد غیرقانونی ہے۔ یہ اس شخص کے خلاف تو ہے ہی جس پر کیا گیا، یہ رریاست کو بھی چیلنج ہے، اس کے قانون کو چیلنج ہے جو کسی بھی شخص کو تشدد کا حق نہیں دیتا۔
پھر وہ شخص جو آصف کو پیٹ رہا ہے اور وہ جو اسے کیمرے پر ریکارڈ کر رہا ہے، وہ دونوں کیوں اتنے مطمئن ہیں کہ نہ صرف وہ دونوں اس منظم تشددکی نمائش کرتے ہیں بلکہ اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں؟کیا اس لیے کہ انہیں یقین ہے کہ یہ جو تشدد وہ پیش کر رہے ہیں اس کے صارفین کی تعداد اور ان کی سیاسی طاقت ہی ان کی حفاظت کرےگی؟
جیسا کہ
دی وائر کے نامہ نگاروں نے اطلاع دی ہےکہ جس اکاؤنٹ سے تشدد کا یہ زندہ ڈرامہ نشر کیا گیا، وہ اب ڈی ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ قانون کی نظر میں ثبوت مٹا دینے کی کوشش ہے۔ حالاں کہ لوگوں نے اس کو بچا رکھا ہے۔
جس ویڈیو سے اس تشدد کےپیروکار تیار کیے جانے کامنصوبہ تھا، وہ ایک قانون کے پابند پولیس افسر کے ہاتھوں میں پڑ کر جرم کا ثبوت بن گیا۔تشدد کرنے والے شرنگی نارائن یادو کو اس ویڈیوکی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا اور ویڈیو ریکارڈ کرنے والے کو بھی۔ اکاۂنٹ کو ختم کر دینے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو خود کو شیر کہہ رہے ہیں وہ دراصل کتنے بزدل ہیں۔
یہ آج کے ماحول میں انہونی ہے۔ اس کا اندازہ شرنگی نے نہیں کیا ہوگا۔ تو ایک گرو نرسنہانند سرسوتی کاشاگرد ہے اور وہ گرو اس طرح کے تشدد کی تعلیم دیتا رہا ہے اور محترم بنا ہوا ہے۔وہ جس تشدد کا پروپیگنڈہ سرعام عام کرتا رہا ہے، وہی تو شرنگی نے کیا۔ پھر اسے سزا کیوں؟ گرو نے عوامی طور پر اپنےشاگردوں کے گرفتار ہونے پر دکھ کا اظہارکیا ہے؛میرے شیر جیل میں ہیں اور میں سو رہا ہوں ،یہ کتنے شرم کی بات ہے!
دی وائر کی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تشدد کے ملزم شرنگی کا گرو مسلمانوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر تشددکو فروغ دیتا رہا ہے۔غازی آباد کے دیہی علاقوں کے پولیس چیف ایرج راجہ نے
دی ہندو اخبار کو کہا کہ نرسنہانند کی عادت اقلیتوں کے خلاف تبصرہ کرنے کی رہی ہے۔
یہ کہنا زیادہ حق بہ جانب یہ ہوتا کہ نرسنہانند کی فطرت مسلمانوں کے خلاف تشددکوہو ا دینے کی رہی ہے۔ لیکن افسر نے اپنےعہدے کے لحاظ سے مہذب زبان کااستعمال کیا ہے۔اسی طرح شرنگی کے بارے میں یہ کہا کہ وہ گریجویٹ ہے اور لگتا ہے کہ ‘
ریڈکلائز’ ہو گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مندر کے پجاری نرسنہانند کے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں پایا گیا کہ آصف نے مندر میں تھوکا تھا یا پیشاب کیا تھا۔ لیکن جو آج کوئی پولیس افسر نہیں کہتا، وہ اجہ نے کہا کہ اگر یہ الزام سچ ہوتا تو بھی اس لڑکے کو پیٹنے کا کوئی حق کسی کو نہیں تھا۔
راجہ جیسے افسرکی قیادت ہو توابتدائی سطح کے پولیس افسر بھی قانون کی پیروی کرتے ہیں اور اس طرح انسانیت کی بھی۔‘ٹیلی گراف’ کی رپورٹ کے مطابق آصف کے والد نے بتایا کہ جب زخمی آصف کو دو پولیس والوں نے دیکھا تو اس کی مرہم پٹی کروائی اور اس کے زخم کاعلاج کیا۔ پھر اگلی صبح آصف کے گھر پولیس آئی۔
پولیس افسروں کے پاس تشدد کا وہ ویڈیو تھا۔ لڑکے کے والدکا نام اور نمبر لےکر وہ چلے گئے اور پھر رات لوٹے۔ لڑکے اوروالد کو تھانے لے گئے، لڑکے کا بیان لیا، اس کی ڈاکٹری جانچ کروائی، انہیں دوا دی اور واپس گھر پہنچایا۔
تشدد میں شامل دونوں شخص اس کے بعد گرفتار کیے گئے۔ یہی فطری ہے۔ یہی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن آج کے ہندوستان اوربالخصوص اتر پردیش میں یہ غیرفطری ہے۔لیکن اس واقعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا جا سکتا ہے۔ پولیس قانون کے مطابق کام کر سکتی ہے۔ جو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، پولیس اس کے ساتھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ جس نے تشدد کیااس کوڈھونڈکر اس کے ساتھ انصاف کاعمل شروع کر سکتی ہے۔
ایرج راجہ نے کہا کہ اس تشدد میں نرسنہانند کی براہ راست شمولیت کا ثبوت نہیں ملا ہے۔ اگر لڑکے کی فیملی شکایت کرے تو ملزمین میں اس کا نام بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ لڑکے کے مکان پر اس کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کی گئی ہے۔
یہ سب کچھ، جیسا کہ ہم نے کہا، انہونی لگتی ہے حالانکہ یہ ٹھیک ایسے ہی ہونا چاہیے۔ شروع میں ہم نے انسانیت کے بچے رہنے پر امیدکا اظہارکیا تھا۔ وہ انسانیت قانون یاآئین کی سمجھ کے زندہ اورفعال رہنے پر ہی منحصر ہے۔
جو غازی آباد دیہی حلقہ کے پولیس حکام نے کیا، اگر وہ پچھلےسال دہلی پولیس کرتی تو شاید ڈاسنہ کے مندر میں شرنگی کو یہ تشدد کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ کیونکہ اس کا گرو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اور نفرت کاپروپیگنڈہ کرنے کی وجہ سے قانون کا قہرجھیل رہا ہوتا۔
پچھلےسال جو دہلی میں تشدد ہوا، اس کے پیچھے کے تشددکو ہوا دینے والوں پر اگر دہلی پولیس قانون کا اطلاق کرتی تو آصف پر یہ تشدد کرنے کی ہمت شرنگی کو نہ ہوتی۔ لیکن دہلی پولیس نے تشدد کے پروپیگنڈہ کو جی بہلانے،بات کرنے کا ایک انداز وغیرہ کہہ کر ٹال دیا اور جو آصف کی طرح تشدد کے شکار ہوئے ان پر ہی تشدد کاالزام لگا دیا۔
شرنگی نے سوچ سمجھ کر تشدد کیا کیونکہ اس تشدد کو پچھلے کئی سالوں سے نرسنہانند جیسے جانے کتنےرہنمالازمی ٹھہرا رہے ہیں۔ اور اسے پولیس غیرقانونی نہیں مان رہی۔شرنگی جیسے نوجوانوں کا ریڈکلائزیشن روکا جا سکتا ہے اگر اس کے ذرائع کو بند کیا جائے۔ وہ ذرائع صرف نرسنہانند نہیں ہیں۔
کیا اس تشدد کے بعد شروع ہوئے انصاف کاعمل جاری رہ پائےگا اورہندوستان میں انصاف کے عمل کے مالکوں اور انسانیت میں جو تضاد پیدا ہو گیا ہے، وہ دور ہو پائےگا؟اس سوال کا جواب اس پر منحصر ہے کہ ہم میں سے کتنے ایرج راجہ اور ان کےساتھی کارکنوں کی طرح واضح وژن رکھتے ہیں ۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)