یوپی: گئو کشی کے معاملے میں عدالت نے صحافی کو 3 ماہ کے لیے ضلع بدر کیا

06:18 PM Dec 17, 2022 | دی وائر اسٹاف

میرٹھ ضلع کے صحافی ذاکر علی تیاگی کے خلاف  2020 میں درج کیے گئے مبینہ گئو کشی کے ایک معاملے میں مقامی عدالت نےفیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ  علاقے میں صحافی کی موجودگی امن و امان کو بگاڑ سکتی ہے۔

ذاکر علی تیاگی۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: میرٹھ کی ایک عدالت نے گئو کشی کے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے  12 دسمبر کو مقامی صحافی ذاکر علی تیاگی کے نام ضلع بدرہونے  کا حکم جاری کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس میں کہا گیا ہے کہ ان کے آبائی ضلع میرٹھ میں ان کی موجودگی ‘علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو بگاڑ سکتی ہے’۔

دی وائر نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امت کمار کے جاری کردہ حکم کو دیکھا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے  2020 میں صحافی کے خلاف درج مبینہ گئو کشی کے معاملے  میں انہیں تین ماہ  کے لیے ضلع میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔

تیاگی کے خلاف 23 اگست 2020 کو گئو کشی کی روک تھام سے متعلق  ایکٹ  کی دفعہ 5 اور 8 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تیاگی نے اس الزام میں 2020 میں 16 دن جیل میں گزارے تھے۔

کسان ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص، جس نے اپنے کھیت میں گئو کشی کا الزام لگایا تھا، کی جانب سے امین آباد میں شکایت  کرنے کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے تیاگی نے کہا کہ انہیں اپنا کام کرنے کے لیے  بار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گئو کشی  سے  ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ اقتدار کے سامنے  سچ بولنے اور صحافی ہونے کی وجہ سے مجھے ریاستی حکومت کی طرف سےبار بار نشانہ بنایا جا رہا ہے، آج تک انہیں میرے خلاف کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جو کسی  بھی دعوے کی حمایت کرتا ہو۔ مجھے اپنے ہی ضلع میں جانے سے روکنا میری صحافت پر حملہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اقتدار کی ہمنوائی نہ کرنے والے صحافیوں کے خلاف حکومت کی جانب سے طویل عرصے سے اپنائے گئےکڑے رخ  کا نتیجہ ہے ۔

بتادیں کہ 2017 میں انہیں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سلسلے میں فیس بک پر دو پوسٹ کرنے کی وجہ سے آئی ٹی ایکٹ کے تحت ان کے خلاف درج ایک کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 42 دن جیل میں گزارے تھے۔

صحافی نے تب اتر پردیش پولیس پر جسمانی طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کے کئی الزامات لگائے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی تھی۔

جیسا کہ اس وقت دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتاتا تھا کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی جانب سے گنگا اور یمنا ندیوں کو ‘زندہ اکائی ‘ قرار دینے اور انہیں قانونی حقوق دینے کے بعد تیاگی نے فیس بک پرلکھا تھا، ‘گنگا کو ایک زندہ اکائی  قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی اس میں ڈوبتا ہے  تو کیا مجرمانہ الزامات عائد کیے جائیں گے؟’

تیاگی  کا کہنا ہے کہ دوسری پوسٹ ‘یوگی’ لفظ کو لے کر کیا گیا ایک ورڈ پلے (کسی لفظ کو مزاحیہ انداز میں پیش کرنا) تھا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ اپنے نام کے پہلے یوگی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔

غورطلب  ہے کہ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی جانب سے اس سال جاری کردہ انڈیکس میں ہندوستان میں صحافیوں کی حالت پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے 20 ویں ایڈیشن میں ہندوستان  کو 2022 میں 180 میں سے 150مقام پر رکھا گیا ہے،  ساتھ ہی ہندوستان  کو ‘میڈیا کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک’ قرار دیا گیا ہے۔

اس سے پہلے،کمیٹی اگینسٹ اسالٹ ا ن جرنلسٹس کی ایک اور رپورٹ میں اتر پردیش میں صحافیوں پر حملوں کے مخصوص اعداد و شمار سامنے آئے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2017 سے یوپی کے 75 اضلاع میں سے ہر ایک میں پولیس نے صحافیوں کے خلاف کیس درج کیے ہیں۔