سنبھل کی ایک مقامی عدالت میں دائر درخواست میں ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین سمیت کئی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شاہی جامع مسجد وشنو کے اوتار کالکی کا مندر ہے۔ عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا، جس کے چند گھنٹوں کے اندر یہ کارروائی مکمل کر لی گئی۔
اتر پردیش کے سنبھل میں مسجد (1789)۔ (تصویر بہ شکریہ: تھامس ڈینیئلز/ وکی میڈیا کامنز)
نئی دہلی: اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں ایک مقامی سول کورٹ کی ہدایت پر منگل (19 نومبر) کو مغل دور کی مسجد کا ایک ایڈوکیٹ کمشنر نے سروے کیا۔ عدالت میں ہندو کارکنوں کی جانب سےایک درخواست دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اسلامی مذہبی مقام دراصل بھگوان وشنو کے اوتار کو وقف ایک قدیم ہندو مندر ہے۔
تاہم، شاہی جامع مسجد کی انتظامی کمیٹی کے ساتھ ہی مقامی مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے بھی عجلت میں مسجد کے سروے پر حیرت کا اظہار کیا۔ عدالت کے سروے کی ہدایت کے چند گھنٹوں کے اندر ہی ایڈوکیٹ کمشنر رمیش راگھو نے سروے کی کارروائی شروع کر دی تھی۔
مختلف ذرائع کے مطابق، سروے کی کارروائی ضلع مجسٹریٹ اور ضلع پولیس سربراہ کی موجودگی میں کی گئی۔ ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک جاری رہنے والے سروے کے دوران مسجد کے احاطے کی فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کی گئی۔
معلوم ہو کہ سول جج سینئر ڈیویژن آدتیہ سنگھ نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعویٰ کرنے والے ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کی قیادت میں آٹھ لوگوں کی طرف سے دائر درخواست کے بعد مسجد کے سروے کی ہدایت دی ہے۔
مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایت پر بنایا گیا تھا، جسے سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک ‘تاریخی یادگار’کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ تاہم، ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر ہے ۔
اس معاملے میں وکیل اور کلیدی مدعی ہری شنکر جین کے بیٹے وشنو شنکر جین کا کہنا ہے کہ 1529 میں بابر نے ہری ہری مندر کو جزوی طور پر گرا کر مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
اس حوالے سے عدالت نے مسجد کا سروے کرانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ جگہ کی رپورٹ پیش کرنے سے عدالت کو کیس کا فیصلہ کرنے میں سہولت مل سکتی ہے۔
مسجد کی نمائندگی کرنے والے وکیل ظفر علی نے بتایا کہ سروے دو گھنٹے تک جاری رہا۔ ‘سروے کے دوران کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی۔ ایسی کوئی کوئی بات نہیں تھی جو شکوک و شبہات کو جنم دیتی۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ شاہی جامع مسجد دراصل ایک مسجد ہے۔’
وکیل نے مزید کہا کہ عدالتی حکم آنے کے فوراً بعد سروے کرایا گیا تھا،کیونکہ ایڈوکیٹ کمشنر آنے والے دنوں میں اپنی بیٹی کی شادی میں مصروف ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق، عدالت نے اپنا حکم تقریباً 3:30 بجے سنایا اور ایڈوکیٹ کمشنر کا سروے شام 7 بجے شروع ہوا۔ مسجد سے وابستہ ایک وکیل نے کہا کہ انہیں اپنا اعتراض درج کرانے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ ہی علاقے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ضروری امن اجلاس منعقد کیے گئے۔
ظفر علی نے بتایا کہ سروے کے دوران مسجد کی حدود اور بندا سٹور روم کا بھی معائنہ کیا گیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسجد کے نگرانوں نے عدالت کے مقرر کردہ کمشنر کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
سول جج سینئر ڈویژن سنبھل کے فیصلے کی ایک نقل جس میں ایک ایڈوکیٹ کمشنر کے ذریعہ شاہی جامع مسجد کے سروے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ہندو مدعیان کے وکیل وشنو شنکر جین نے کہا کہ آگے بھی سروے جاری رہے گا کیونکہ مسجد کی بہت سی خصوصیات کا مطالعہ کرنا باقی ہے۔ جین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ‘غیر جارحانہ سروے’ تھا۔ جین نے کہا، ‘یہ مانا جاتا ہے کہ کالکی کا اوتار سنبھل میں ہوگا۔’انہوں نے دعویٰ کیا کہ مسجد کے اندر ہری ہری مندر کی بہت سی شبیہیں اور علامتیں موجود تھیں۔
مدعی نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ جگہ کالکی کو وقف صدیوں پرانا ہری ہری مندر تھا اور جامع مسجد کیئر کمیٹی کے ذریعہ ‘زبردستی اور غیر قانونی طور پر اس کااستعمال ‘کیا جارہا ہے۔
سنبھل سے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے رکن پارلیامنٹ ضیاء الرحمان برق نے ایڈوکیٹ کمشنر کے سروے کو جلد بازی میں شروع کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے مسجد کے باہر صحافیوں کو بتایا،’ہمیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ ہمارا جواب نہیں مانگا گیا۔ انہوں نے جلدی جلدی اس کا سروے کیا۔ لیکن اس میں کوئی عجلت یا فوری ضرورت جیسی کوئی بات نہیں تھی۔’
برق نے کہا کہ مسجد کو عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اس کے باوجود کچھ لوگ ریاست اور ملک کا ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں۔’
ایس پی لیڈر نے کہا کہ جامع مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ تھی۔ انہیں کچھ بھی نہیں ملے گا، حتیٰ کہ سوئی کے سائز کا بھی، جسے قابل اعتراض کہا جا سکتا ہے۔ مسجد تھی، مسجد ہے اور مسجد رہے گی۔
سنبھل کے ڈی ایم راجندر پنسیا نے کہا کہ سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے سروے کی کارروائی کے دوران انتظامیہ اور پولیس موجود تھی۔
معلوم ہو کہ 1891 میں شائع برطانوی دور کے گزٹیئر، ‘شمالی مغربی صوبوں اور اودھ میں یادگار نوادرات اور نوشتہ جات’میں بھی مسجد پر ہندوؤں کے دعوے کا ذکر ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں نے عمارت کی تعمیر کوبابر کے زمانےکا بتاتے ہوئے مسجد کے اندر ایک نوشتہ کی طرف اشارہ کیا ہے، جو اسلامی کیلنڈر کے مطابق 933 میں میر ہندو بیگ کے ذریعے اس سائٹ کی تعمیر کو درج کرتا ہے، جو کہ سال 1526 کے مساوی ہے۔
تاہم، ہندوؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ نوشتہ بعد کی تاریخ کی جعلسازی تھی، جیسا کہ گزٹیئر میں بتایا گیا ہے۔ گزٹیئر کے مطابق، ‘اس سلیب پر، یا اس کے پیچھے، ہندو کہتے ہیں کہ و مندر سے متعلق اصل سنسکرت نوشتہ ہے۔’
اس کا جواب دیتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے نے ہندوتوا گروپوں کو ہندوستان بھر میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
سنبھل سروے کا حوالہ دیتے ہوئے اویسی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ درخواست داخل ہونے کے تین گھنٹے کے اندر سول جج نے مسجد کی جگہ پر ابتدائی سروے کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کیا مسجد کی تعمیر کے لیے مندر کو توڑا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ درخواست ایک وکیل نے دائر کی تھی، جو سپریم کورٹ میں یوپی حکومت کے مستقل وکیل ہیں۔ دوسرے فریق کی بات سنے بغیر اسی دن سروے کیا گیا۔ اسی طرح بابری کا تالا بھی عدالتی حکم کے ایک گھنٹے کے اندر کھولا گیا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )