اتر پردیش کے بانس ڈیہہ سے بی جے پی ایم ایل اے کیتکی سنگھ نے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ سے نئے بلیا میڈیکل کالج میں مسلمانوں کے لیے ‘علیحدہ ونگ’ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ طبی سہولیات ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
بانس ڈیہہ سے بی جے پی ایم ایل اے کیتکی سنگھ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: یوپی سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ایم ایل اے کیتکی سنگھ نے منگل کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے نئے بلیا میڈیکل کالج میں مسلمانوں کے لیے ‘علیحدہ ونگ’ بنانے کی اپیل کی۔
بی جے پی ایم ایل اے نے خبر رساں ایجنسی
اے این آئی کو بتایا ، ‘سنبھل میں ایک بہادر پولیس والے نے واضح طور پر کہا کہ سال میں 52 جمعہ ہوتے ہیں، لیکن ہولی سال میں صرف ایک بار آتی ہے۔اس لیے میں نے سوچا کہ اگرغلطی سے کچھ رنگ چھڑک دیا گیا تو یہ رونے والا گروہ سڑکوں پر نکل آئے گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ ہمارے لوگوں سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں تو بلیا میں بن رہے میڈیکل کالج میں ان کے لیے الگ ونگ کیوں نہیں بنایا جاتا، جہاں وہ علاج کروا سکیں۔’
بانس ڈیہہ اسمبلی حلقہ کی نمائندگی کرنے والی کیتکی نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ طبی سہولیات ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔
انھوں نے کہا، ‘آپ نے انٹرنیٹ پر پھلوں پر تھوکنے، سبزیوں پر تھوکنے، پیشاب ملانے کے ویڈیو دیکھے ہوں گے۔ میرا وزیراعلیٰ سے مطالبہ ہے کہ ان کے لیے علیحدہ ونگ بنایا جائے تاکہ ان کا ذہنی اور جسمانی علاج ہو سکے۔’
اس سے پہلے دن میں یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک نے کہا تھا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے فیصلہ کیا ہے کہ بلیا میں ایک نیا میڈیکل کالج بنایا جائے گا۔ پاٹھک نے اے این آئی کو بتایا کہ یہ بلیا کے لوگوں اور یہاں کے ایم ایل اے کا دیرینہ مطالبہ تھا۔
پاٹھک نے اے این آئی کو بتایا، ‘ایک طویل عرصے سے بلیا کے لوگ علاقے میں میڈیکل کالج کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلیا کے ایم ایل اے دیاشنکر پانڈے، جو ریاست کے وزیر ٹرانسپورٹ بھی ہیں، نے بھی علاقے میں ایک میڈیکل کالج کی تعمیر کا مطالبہ کیا ہے۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ بلیا میں ایک میڈیکل کالج بنایا جائے گا۔ ہم اس تجویز پر زمین کے حصول کے عمل کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔’
اپوزیشن نے بی جے پی ایم ایل اے کے ریمارکس کی مذمت کی
دریں اثنا، اپوزیشن پارٹی سماج وادی پارٹی (ایس پی) نے ایم ایل اے کیتکی سنگھ کے ریمارکس پر تنقید کی۔ پارٹی کی ترجمان اور ایس پی خواتین ونگ کی لیڈر جوہی سنگھ نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی اس طرح کے تبصروں کی حمایت کرے گی یا خود کو ان سے دور رکھے گی۔
انہوں نے کہا، ‘وہ ایسے غیر ذمہ دارانہ اور بیہودہ بیانات دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں عوامی نمائندہ بننے کی کوئی اہلیت نہیں ہے اور حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے… ایسے لوگوں کو اسمبلی میں آنے کا کوئی حق نہیں ہے۔’
بی جے پی لیڈر نے مسلم مردوں کو ہولی پر ترپال اوڑھنے کا مشورہ دیا
ٹائمز آف انڈیا کی خبر کے مطابق ، علی گڑھ ضلع کے بی جے پی کے رہنما رگھوراج سنگھ نے اپنے تبصرے کے ساتھ ایک تنازعہ کھڑا کر دیا ہے کہ مسلمان مردوں کو اس جمعہ کو ہولی کے موقع پر نماز کے لیے نکلتے وقت رنگوں سے بچنے کے لیے خود کو ترپال سے ڈھانپ لینا چاہیے۔
اس سال یہ تہوار رمضان کے دوسرے جمعہ کے ساتھ پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے تقریبات کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے بارے میں باتیں کی جا رہی ہیں۔
اتر پردیش میں وزیر مملکت کے برابر کا درجہ حاصل بی جے پی رہنما رگھوراج سنگھ نے کہا، ‘ سناتن دھرم کے پیروکاروں کے لیے ہولی کا تہوار سال میں صرف ایک بار آتا ہے اور ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مساجد کے قریب کچھ محدود علاقوں میں ہولی نہ کھیلیں، کوئی عملی حل نہیں ہے۔’
مسلمان مردوں کو نماز جمعہ کے لیے باہر نکلتے وقت ترپالوں سے ڈھانپنے کا مشورہ دیتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’مسلم خواتین بھی اپنے آپ کو حجاب سے ڈھانپتی ہیں اور کئی بار مساجد کو احتیاطی تدابیر کے طور پر ترپالوں سے ڈھانپ لیا جاتا ہے۔‘
بی جے پی لیڈر کا یہ متنازعہ بیان سنبھل کے
ایک سرکل آفیسر کے اس تبصرے کے کچھ دن بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جنہیں ہولی کے رنگوں سے پریشانی ہے انہیں گھر کے اندر ہی رہنا چاہیے کیونکہ یہ تہوار سال میں صرف ایک بار آتا ہے جبکہ جمعہ کی نماز سال میں 52 بار آتی ہے۔
اس تبصرہ نے ایک بحث چھیڑ دی تھی، لیکن اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے سنبھل پولیس افسر کے ریمارکس کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگرچہ افسر نے پہلوان کے طور پر بات کی تھی، لیکن انہوں نے جو کہا وہ درست تھا۔