امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان پر ہندوستان نے سرکاری طور پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔
سرینگر کی ایک تصویر (فوٹو : رائٹرس)
نئی دہلی: جموں و کشمیر میں سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لینے اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگائے جانے کے ایک مہینے بعد، امریکہ نے جمعہ کو بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان سے انسانی حقوق کا احترام کرنے کی گزارش کی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، امریکہ نے ہندوستانی افسروں سے ریاست کے مقامی رہنماؤں سے سیاسی بات چیت شروع کرنے اور جلد سے جلد انتخاب کرانے کو بھی کہا۔
مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کئے جانے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ اب تک کا سب سے سخت بیان ہے۔ امریکہ کا یہ تبصرہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 26 اگست کے اس بیان کے بعد آیا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ انہوں نے 25 اگست کو وزیر اعظم مودی کے ساتھ رات کے کھانے پر اس مدعے پر بات چیت کی تھی اور کہا تھا کہ وزیر اعظم مودی کو اصل میں لگتا ہے کہ حالات ان کے قابو میں ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان پر ہندوستان نے سرکاری طور پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مارگن آرٹیگس نے کہا، ‘ مقامی سیاسی اور کاروباری رہنماؤں سمیت جموں و کشمیر میں بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لئے جانے اور خطے کے باشندوں پر لگی پابندیوں پر ہم بہت فکرمند ہیں۔ ہم ان رپورٹس کو لےکر بھی فکرمند ہیں جو کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل فون پر پابندی کے بارے میں بتاتی ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ ہم افسروں سے انسانی حقوق کا احترام کرنے اور انٹرنیٹ اور موبائل نیٹورک جیسی خدمتوں تک پہنچ بحال کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ ہم مقامی رہنماؤں کے ساتھ حکومت ہند کے سیاسی رابطہ کو پھر سے شروع کرنے اور وعدہ کئے گئے انتخابات کو جلد سے جلد کرانے کے حق میں ہیں۔ ‘ دہلی میں امریکی سفارت خانہ کے ذریعے جاری کیا گیا یہ تبصرہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ان کا یہ نظریہ 6 اگست کو امریکہ کی حالت سے بہت الگ ہے، جب اس نے ہندوستان سے کشمیر کے حالات پر دھیان دینے کو کہا تھا کہ جبکہ حکومت ہند نے اس کو سختی سے اندرونی معاملہ بتایا تھا۔
پچھلے مہینے، فرانس میں جی-7 کی میٹنگ کے موقع پر وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تمام مدعے دو طرفہ ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان 1947 سے پہلے ایک ساتھ تھے اور مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اپنے مسائل پر گفتگو کر سکتے ہیں اور ان کو حلکر سکتے ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے کہا تھا، ‘ ہم نے کل رات کشمیر کے بارے میں بات کی تھی، وزیر اعظم کو اصل میں لگتا ہے کہ حالات ان کے قابو میں ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ بات کرتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ کچھ ایسا کر پائیںگے جو بہت اچھا ہوگا…دونوں شرفاء (مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان) کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات ہیں اور میں یہاں ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ اس کو (مسئلہ کا حل) خود کر سکتے ہیں۔ ‘
وہیں، خارجہ سکریٹری وجئے گوکھلے نے کہا تھا کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان اجلاس میں جموں و کشمیر پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ بتا دیں کہ 5 اگست کو مرکزی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو حصوں میں بانٹنے کے بعد امریکی انتظامیہ نے بہت ہی احتیاط سے اپنا بیان دیا ہے۔
5 اگست کو آرٹیگس نے کہا تھا، ‘ ہم لوگوں کو حراست میں لئے جانے پر فکرمند ہیں اور لوگوں کی ذاتی آزادی کا احترام کرنے کے ساتھ متاثر ہ کمیونٹی سے بات چیت کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے تمام فریقین سے ایل او سی پر امن قائم رکھنے کی اپیل کی تھی۔ ‘
8 اگست کو امریکہ نے کہا تھا کہ وہ حالات کو کافی قریب سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ان واقعات کے وسیع اثرات کا ذکر کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا تھا کہ اس سے خطے میں بے چینی بڑھ سکتی ہے۔ اس نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیدھی بات چیت کی حمایت کرتے ہوئے امن اور صبروتحمل برتنے کے لئے کہا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر رسمی صلاح مشورہ کے تین دن بعد 19 اگست کو ٹرمپ نے مودی سے بات کرتے ہوئے خطے میں کشیدگی کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ 20 اگست کو امریکی وزیر دفاع مارک ٹی ایسپر نے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہونے کی ہندوستان کی پوزیشن کو قبول کیا تھا۔