ملک بھر کے ادیبوں نے سال 2023 کے لیے دیے گئے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے حوالے سے ‘نااہل جیوری’ کے ذریعےاس سال نامزد سینئر ادیبوں کی اہم تخلیقات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے اکیڈمی میں اردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر چندر بھان خیال کو فوراً برطرف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وزارت ثقافت سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
نئی دہلی: سال 2023 کے لیے اُردو میں دیے جانے والے سالانہ ساہتیہ اکیڈمی انعام کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اُردو کے متعدد نامور ادیبوں نے مبینہ طور پر تعلقات کی بنیاد پر جیوری کی تشکیل اور ‘نااہل جیوری ممبران’ کے ذریعے اس سال نامزد سینئر ادیبوں کی اہم تخلیقات کونظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اکیڈمی میں اُردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر چندر بھان خیال کو فوراً برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بتادیں کہ اُردو میں 20 دسمبر کو صادقہ نواب سحر کے ناول ‘راجدیو کی امرائی‘ سمیت 24 ہندوستانی زبانوں کے مصنفین کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ یہ ایوارڈ 12 مارچ کو دیا جائے گا۔
اکیڈمی کے حالیہ فیصلے اور ‘نااہل جیوری ممبران’ کی تقرری پر اپنے عدم اطمینان اور شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ملک بھر سے 250 سے زیادہ لوگوں نے ایک آن لائن پٹیشن پر دستخط کیے ہیں اور مرکزی وزارت ثقافت اور ساہتیہ اکیڈمی کے سامنے اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔
جے سی بی ایوارڈ یافتہ ممتاز فکشن نویس خالد جاوید، ‘آجکل’ اُردو کے سابق مدیر خورشید اکرم، فکشن نگار اور اُردو جرنل ‘اثبات’ کے مدیر اشعر نجمی، ابرار مجیب (جھارکھنڈ)، ظہیر انور (کولکاتہ)، قمر صدیقی (ممبئی)، نجمہ رحمانی (صدر شعبہ اردو ، دہلی یونیورسٹی)، نگار عظیم (دہلی)، جمال اویسی (بہار)، اکرم نقاش (گلبرگہ)، اسرار گاندھی (اتر پردیش)، شفق سوپوری (سری نگر)، اسلم پرویز اور اکرام الحق (ممبئی) جیسے ادبا اور اُردو معاشرہ کے دیگر شائقین ادب نے ایوارڈ دینے کےعمل میں بدعنوانی اور دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے اردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر کے ‘غیر متعدل رویے’ کی بھی نشاندہی کی ہے۔
اس سلسلے میں جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ساہتیہ اکیڈمی ایک باوقار قومی ادارہ ہے، جس کا مقصد دیگر ہندوستانی زبانوں اور اُردو میں اعلیٰ ادبی معیار قائم کرنا ہے۔ لیکن 2023 کے سالانہ انعام کے سلسلے میں اس کی پاسداری نہیں کی گئی۔’
بیان میں جیوری کے تین میں سے دو ارکان کو براہ راست نااہل قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ جیوری میں شامل تین افراد میں سے کرشن کمار طور کی حیثیت اردو معاشرے میں بطور شاعر مسلم ہے ۔ باقی دو ارکان جناب مہتاب عالم اور جناب محمد طیب علی صاحبان کی ادبی حیثیت سے اردو معاشرہ نا واقف ہے۔
دستخط کنندگان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سال ایوارڈ کے لیے نامزد تمام کتابیں فکشن یا نثر سے متعلق تھیں۔ یہاں اشارہ یہ ہے کہ ایک شاعر کی حیثیت سے پہچانے جانے والے جیوری ممبر کا بھی اس کمیٹی میں کیا جواز ہے؟
واضح ہو کہ فہرست میں شامل 11 کتابوں میں فکشن کے تعلق سے اللہ میاں کا کارخانہ، بُلہا کیہہ جاناں میں کون، چمراسر، ایک خنجر پانی میں اور ہجورآماچند اہم کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا، ‘جب اردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر چندر بھان خیال سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ‘غیر معتدل رویہ’اختیار کرتے ہوئے جواب دیا،’اُردو اس ملک کی بڑی زبان ہے۔ یہاں ادبی حیثیت والے صرف دس بیس لوگ ہی نہیں ہزاروں ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ جنھیں آپ جانتے ہیں وہی ادبی حیثیت کے مالک ہیں۔‘
اس پر سوال اٹھاتے ہوئے بیان میں کہا گیا کہ ‘جو شخص صاف شفاف اور جمہوری اصول پر کیے گئے سوال کا جواب نہیں دے سکتا ،وہ اردو کی نمائندگی کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے؟ ایک جمہوری اصولوں پر قائم ادارے میں اس زبان و ادب کی نمائندگی کی ذمہ داری ایک ایسے شخص کو کیسے دی جا سکتی ہے جو اپنے ہی ادارے کے جمہوری اصولوں کی قدر نہیں کر سکتا؟
وزارت ثقافت اور ساہتیہ اکیڈمی سے کنوینر کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘اس منصب پر کسی غیر جانبدار اور ذمہ دار شخص کی تقرری کی جائے، تاکہ مستقبل میں جیوری میں ایسے لوگوں کا انتخاب یقینی بنایا جاسکےجو کتابوں پر اپنی رائے اور فیصلہ دینے کے اہل ہوں۔’
بیان میں پہلے ہی ناقدین اور قارئین کے نزدیک اعتبار حاصل کر چکی کئی اہم کتابوں کو نظر انداز کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘جیوری کے اہل اور غیر جانبدار اراکین جس کتاب کو بھی ایوارڈ کے لیے منتخب کریں، ان کے پاس یہ ادبی جواز ہونا لازمی ہےکہ انہوں نے کن بنیادوں پر کسی خاص کتاب کا انتخاب کیا ہے۔’
بتادیں کہ ایوارڈ یافتہ ناول کے علاوہ ذکیہ مشہدی، خالد جاوید، عتیق اللہ، شموئل احمد، غضنفر، شارب رودولوی، محسن خان، جاوید صدیقی، مرحوم نصیر احمد خان اور شبیر احمد کی کتابیں فہرست میں شامل تھیں۔
بہرحال، اس سلسلے میں کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے اس پورے پروسیس کو شفاف اور جمہوری بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ قرۃ العین حیدر کے بعد صادقہ اردو کی دوسری ادیبہ ہیں جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ حیدر کو یہ ایوارڈ 1967 میں ‘پت جھڑ کی آواز’ کے لیے ملا تھا۔