اتر پردیش کے اعظم گڑھ میں سرکاری اسکول کے اندر بچوں کے جھاڑو لگانے کا ویڈیو بنانے والے ایک صحافی کو پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کر لیا ہے۔ وہیں بجنور میں سرکاری نل سے ایک دلت فیملی کو پانی بھرنے سے دبنگوں کے ذریعے مبینہ طور پر روکے جانے کی وجہ سے ان کے نقل مکانی کی خبر چھاپنے کے بعد پانچ صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش کے مرزاپور میں مڈڈے میل کے تحت بچوں کو نمک-روٹی دیے جانے کی خبر شائع کرنے کی وجہ سے انتظامیہ کے ذریعے ایک صحافی کے خلاف شکایت درج کرائے جانے کے بعد تین دیگر صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے۔ اس میں سے ایک صحافی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔اعظم گڑھ ضلع میں سرکاری اسکول کے اندر بچوں کے جھاڑو لگانے کا ویڈیو بنانے والے ایک صحافی کو پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کر لیا ہے، وہیں سرکاری نل سے ایک دلت فیملی کو پانی بھرنے سے دبنگوں کے ذریعے مبینہ طور پر روکی وجہ سے ان کی نقل مکانی کی خبر چھاپنے کے بعد پانچ صحافیوں کے خلاف معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔بچوں کے ذریعے جھاڑو لگانے کی فوٹو کھینچنے والے صحافی کے صحافی دوست سدھیر سنگھ نے الزام لگایا ہے کہ صحافی کو سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے اور رنگداری مانگنے کے جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سدھیر سنگھ نے دیگر صحافیوں کے ساتھ کلکٹر این پی سنگھ سے ملاقات کی اور ان کو غیر قانونی گرفتاری کے بارے میں جانکاری دی۔
کلکٹر نے کہا،’صحافیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جائےگی۔ ہم معاملے کو دیکھیںگے۔ ‘ انہوں نے معاملے کی جانچکے حکم دئے ہیں۔سدھیر سنگھ نے بتایا کہ مقامی صحافی سنتوش جیسوال کو پچھلے جمعہ کو گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے اسکول میں بچوں کے جھاڑو لگانے کی فوٹو کھینچ لی تھی اور اسکول انتظامیہ کے’غیر قانونی کارنامہ ‘کی جانکاری دینے کے لئے پولیس کو فون کیا تھا۔سدھیر سنگھ نے بتایا کہ جیسوال کی کال پر پولیس اسکول پہنچ گئی اور جیسوال اور ادئے پور پرائمری اسکول کے پرنسپل رادھے شیام یادو کو تھانے لے گئی۔ سدھیر سنگھ نے بتایا کہ پھول پور تھانے میں پرنسپل نے جیسوال کے خلاف تحریر دی جس کی بنیاد پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور ان کو گرفتار کر لیا گیا۔
صحافی کے خلاف چھ ستمبر کو ایف آئی آر نمبر 237 درج کی گئی، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ جیسوال اکثر اسکول آتے تھے اور مرد اور خاتون اساتذہ سے اور طالب علموں سے بدسلوکیا کرتے تھے اور اپنا اخبار سبسکرائب کرنے کو کہتے تھے۔یادو نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ واقعہ کے دن جیسوال اسکول آئے اور بچوں کو جھاڑو لگانے کو کہا تاکہ اس کی فوٹو کھینچی جا سکے۔ یادو نے الزام لگایا کہ انہوں نے اس کارنامے کی مخالفت کی تو جیسوال اسکول احاطے سے چلے گئے، لیکن ان کی گاڑی وہیں تھی اور بعد میں انہوں نے ان سے رقم مانگی۔
دہلی کی قومی خبر رساں ایجنسی کے لئے اسٹرنگر کے طور پر کام کرنے والے سدھیر سنگھ نے صحافی کے خلاف الزامات کی تردید کی اور کہا کہ مقامی پولیس ان کے پیچھے پڑی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جیسوال نے گزشتہ 19 مئی کو اتر پردیش پولیس کے ٹوئٹر ہینڈل پر پھول پور کے کوتوال شیوشنکر سنگھ کی بنا نمبر کی اور کالی فلم لگی کار کی فوٹو پوسٹ کی تھی۔ اس کے بعد پولیس نے ٹویٹ کیا کہ یہ فوٹو دو مہینہ پہلے کی ہے جب گاڑی خریدی گئی تھی۔ اب نمبر پلیٹ بھی لگ گئی ہے۔حالانکہ، کچھ ہی دیر بعد ایک دوسرے نوجوان نے ٹوئٹ کرکے دعویٰ کیا کہ کوتوال نے جو رجسٹریشن نمبر دیا ہے وہ کار کا نہیں بلکہ موٹرسائیکل کا ہے۔ اس کے بعد جیسوال نے پھول پور کوتوال کے اس کارنامے کی خبر چھاپ دی۔ تبھی سے ہی کوتوال ان کے پیچھے پڑے تھے اور سازش کے تحت مقدمہ درج کرا دیا گیا۔
پون جیسوال کے سنتوش جیسوال کے خلاف پولیس کی کارروائی پر ریاست کی صحافی تنظیموں نے سوال اٹھایا۔لکھنؤ تسلیم شدہ نامہ نگار کمیٹی کے صدر ہیمنت تیواری نے ٹوئٹ کرکےلکھا،’یوپی پولیس صحافیوں کے خلاف داداگیری پر اتر گئی ہے۔ معاملے کو اتر پردیش کے وزارت داخلہ اور یوپی ڈی جی پی کے علم میں لاتے ہوئے انہوں نے کہا، پون کے بعد اب اعظم گڑھ پولیس نے خبر چھاپنے سے ناراض ہوکر صحافی سنتوش جیسوال کو جیل بھیج دیا۔ انہوں نے انسپکٹر پھول پور کے غیر قانونی اسکارپیو گاڑی رکھنے کی خبر چھاپی تھی۔ ‘
اس پر رد عمل دیتے ہوئے اعظم گڑھ پولیس نے ٹوئٹ کیا،’مذکورہ معاملے میں ملزم سنتوش کمار جیسوال کے ذریعے اساتذہ اور بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے، گالی گلوچ کرنے اور دھمکی دینے کے متعلق مدعی شری رادھے شیام یادو پرنسپل کے ذریعے تھانہ پھول پور معاملہ درج کرایا گیا ہے۔ ‘وہیں، سرکاری نل سے ایک دلت فیملی کو پانی بھرنے سے دبنگوں کے ذریعے مبینہ طور پر روکے جانے کی وجہ سے ان کے نقل مکانی کی خبر چھاپنے کے بعد پانچ صحافیوں کے خلاف درج کیا گیا معاملہ ضلع انتظامیہ نے واپس لینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔حالانکہ، صحافیوں نے ایک سنگھرش کمیٹی کی تشکیل کرکے سنیچر کو ضلع انتظامیہ سے بات کی۔ صحافیوں کے خلاف معاملہ درج کئے جانے پر کمیٹی کی مخالفت درج کرانے پر ضلع انتظامیہ نے ان کو معاملہ واپس لینے کی یقین دہانی کرائی۔
سنگھرش کمیٹی کے سینئر ممبر جیوتی لال شرما نے بتایا کہ کلکٹر رماکانت پانڈےاور پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیو تیاگی نے معاملہ واپس لینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔وہیں،سی اومہیش کمار کے مطابق منڈاور تھانہ حلقے کے تحت بسی گاؤں میں ایک بیوہ دلت خاتون نے اگست مہینے کے آخر میں تھانے میں ایک تحریر دےکر الزام لگایا تھا کہ پڑوس کے کچھ بااثر لوگوں نے سرکاری نل سے پانی بھرنے گئی ان کی بیٹی کو پانی نہیں بھرنے دیا اور اس کے ساتھ مارپیٹ کی۔پولیس نے اس معاملے میں دونوں فریقوں کے درمیان سمجھوتہ کرا دیا تھا۔ متاثرہ نے اس کے بعد پھر سے پانی نہیں بھرنے دینے اور دھمکانے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے مکان پر برائے فروخت ہے کا پوسٹر چپکا دیا۔
اس معاملے کی خبر شائع ہونے پر دو نامزد-صحافی شکیل احمد اور صحافی آشیش تومر-کے علاوہ تین دیگر صحافیوں کے خلاف منڈاور تھانہ میں سات ستمبر کو ایک رپورٹ درج کی گئی۔اس میں پولیس کی امیج خراب کرنے، سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے، کشیدگی پیدا کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے جیسے الزام لگائے گئے تھے۔واضح ہو کہ گزشتہ دنوں مرزاپور ضلع میں مڈڈے میل کے نام پر بچوں کو نمک-روٹی باٹنے کا ویڈیو بناکر انکشاف کرنے والے مقامی صحافی پون جیسوال پر ضلع انتظامیہ نے کئی مجرمانہ معاملے درج کروا دئے تھے۔
پون جیسوال کا الزام ہے کہ ضلع انتظامیہ نے اپنی بدنامی ہوتے دیکھ ان کے اوپر یہ مقدمہ درج کروائے ہیں۔ پون نے کہا کہ وہ تو صرف خبر کے لئے اسکول گئے تھے جو کہ ان کا کام تھا۔ جانے سے پہلے انہوں نے اے بی ایس اے برجیش سنگھ کو فون کرکے اطلاع بھی دی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)