مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یوپی پولیس کے مبینہ انکاؤنٹر کے واقعات میں 190 لوگوں کی موت کے علاوہ، پولیس نے ایسے واقعات میں 5591 لوگوں کو گولی مار کر زخمی کیا ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ گزشتہ ہفتہ کو لکھنؤ میں ‘پولیس میموریل ڈے’ پر منعقد پروگرام میں۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@myogiadityanath)
نئی دہلی: مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے مبینہ پولیس انکاؤنٹر یا تصادم میں 190 لوگوں کی موت ہو ئی ہے۔ اسی مدت (مارچ 2017 سے ستمبر 2023) میں یوپی پولیس نے اسی طرح کے واقعات میں 5591 لوگوں کو گولی مار کر زخمی کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے گولی مارے گئے لوگوں کی زیادہ تعداد ایسے واقعات کے عام ہوجانے کے بارے میں بتاتی ہے۔
لکھنؤ میں پولیس میموریل ڈے کے پروگرام میں مندرجہ بالا اعدادوشمار کو جاری کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ان کی حکومت کی ‘اولین ترجیح’ ریاست میں امن و امان کو مضبوط کرنا، عوام میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا اور مجرموں کے دل میں قانون کا خوف پیدا کرنا ہے۔
جہاں حکومت ان ‘مٹھ بھیڑ’ میں ہونے والی ہلاکتوں اور گولی باری کو جرائم کے خلاف اپنی ‘زیرو ٹالرنس پالیسی’ کا نتیجہ قرار دیتی رہی ہے، وہیں ،انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان کارروائیوں پر مسلسل سوال اٹھائے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اپنے دفاع میں لوگوں پر جوابی کارروائی میں گولیاں چلاتی ہے، حالانکہ معاملوں میں واقعات کی مماثلت اور مبینہ مقابلوں کی مشتبہ تفصیلات کی وجہ سے اس دعوے پر بھی کئی سوالیہ نشان لگےہیں۔
گزشتہ ہفتے سی ایم آدتیہ ناتھ نے یہ بھی بتایا تھا کہ مارچ 2017 سے اب تک ان کارروائیوں میں 16 پولیس اہلکار مارے گئے ہیں جبکہ 1478 زخمی ہوئے ہیں۔
گینگسٹر ایکٹ کا استعمال
اتر پردیش گینگسٹرس اینڈ اینٹی سوشل ایکٹیویٹیز (روک تھام) ایکٹ 1986 کی دفعات کو بھی بی جے پی حکومت نے مبینہ مجرموں کے خلاف بے تحاشہ استعمال کیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی جانب سےچند مواقع پر حکومت کے ذریعے اس قانون ، جو حکام کو لوگوں کو گینگسٹر کے طور پر نامزد کرنے اور ان کی جائیداد ضبط کرنے کی اجازت دیتا ہے، کے غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجودیہ قانون آدتیہ ناتھ حکومت کی پولیسنگ حکمت عملی کے مرکز میں رہا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں اور کارکنوں نے اکثر حکومت پر اس قانون کو سیاسی انتقام کے لیے استعمال کرنے، مخالفین کو ڈرانے اور عام شہریوں کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا ہے۔ بی جے پی حکومت اسے نہ صرف ‘مافیا’ کےطور پر نامزد لوگوں کے خلاف بلکہ اپوزیشن پارٹی کے ایم ایل اے اور لیڈروں کے خلاف بھی استعمال کرتی آئی ہے۔
اعداد و شمار اس کے شاہدہیں۔
آدتیہ ناتھ نے سنیچر کے پروگرام میں بتایا کہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں، انتظامیہ نے 69332 لوگوں کے خلاف گینگسٹر ایکٹ اور 887 لوگوں کے خلاف نیشنل سیکورٹی ایکٹ (این ایس اے) لگایا ہے۔
گینگسٹرس ایکٹ ایک گینگسٹر کی تعریف ایک گینگ کے ممبر یا لیڈر کے طور پر کرتا ہے اور اس میں کوئی بھی فرد شامل ہو سکتا ہے جو کسی گینگ کی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے یا اس کی مدد کرتا ہے۔
ایکٹ کے مطابق، یہ گروہ ایسے لوگوں ایک مجموعہ ہے، جو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر، نظم و ضبط میں خلل ڈالنے یا اپنے یا کسی دوسرے شخص کے لیے کوئی غیر منصفانہ فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے تشدد یا دھمکی یا جبر کا استعمال کرتے ہیں۔ اس متنازعہ ایکٹ کی دفعہ 14 ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو مبینہ غنڈوں کی جائیداد ضبط کرنے کا اختیار دیتی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کی حکومت نے ایسے 68 ‘مافیا’ مجرموں کے خلاف کارروائی کی ہے اور 3650 کروڑ روپے کی املاک کو غیر قانونی قبضوں سے آزاد یا مسمار کیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فی الحال ریاست میں جیل کے باہر کوئی منظم مجرم گروہ سرگرم نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ان مجرموں کو یا تو جیل بھیج دیا گیا ہے یا وہ اپنے دفاع کے دوران پولیس کارروائی میں مارے گئے ہیں۔’
تاہم، کارکن راجیو یادو انکاؤنٹر کے ذریعے امن و امان کے مسئلے کو حل کرنے کے حکومت کے بلند و بالا دعووں پر سوال اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے پوچھا، ‘اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ ‘انکاؤنٹر’کے ذریعے جرائم پر قابو پایا جا رہا ہے، تو پھر وہ گینگسٹر ایکٹ اورغنڈہ ایکٹ کے تحت غیرمعمولی تعداد میں مقدمات کیوں درج کر رہے ہیں اور اب بھی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے لیے بلڈوزر کا استعمال کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو اس کا استعمال کیوں کرنا پڑرہا ہے؟ ‘
یادو کا کہنا ہے کہ آدتیہ ناتھ کے منظم جرائم کو ختم کرنے کے دعوے پر بحث کی جا سکتی ہے، لیکن یہ یقینی ہے کہ ‘اب ریاست میں زیادہ منظم جرائم ہو رہے ہیں۔’
ان کے مطابق، اس کا مطلب یہ ہے کہ سزا معافی کے جذبے سے ‘انکاؤنٹر’ میں کی جانے والی فائرنگ کو معمول بنانا۔ ایسے مواقع پر بھی، حتیٰ کہ معمولی جرائم کے لیے بھی جہاں ملزم کو آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ یادو نے مثال دی کہ گزشتہ ستمبر میں امبیڈکر نگر میں پولیس نے 16 سالہ لڑکی کی موت کے الزام میں گرفتار دو لوگوں کو گولی مار دی تھی۔ ملزم کے سائیکل پر سوار طالبہ کا دوپٹہ کھینچنے کے بعد وہ سڑک پر گر گئی تھی اور پیچھے سے آنے والی موٹر سائیکل کی زد میں آ گئی تھی۔
‘انکاؤنٹر شوٹنگ’ اور املاک کو ضبط کرنا روزمرہ کے قانون اور نظم و ضبط کی حکمت عملی میں اتنے اندر تک پیوست ہیں کہ یوپی پولیس کے ڈی جی پی ہیڈ کوارٹر کی طرف سے ان ‘قابل ستائش’ کارروائیوں کی فہرست پیش کرتے ہوئے ہر روز ایک بلیٹن جاری کی جاتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2017 سے پولیس کے ہاتھوں روزانہ اوسطاً 2.4 افراد گولی مار کر زخمی ہوئے ہیں اور ہر ماہ اوسطاً 2.4 افراد کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
گزشتہ 21 اکتوبر کو ریاست کے ہمیر پور میں پولیس نےریپ کے ایک ملزم کو گولی مار کر اس کے پاس سے دیسی ہتھیار برآمد کیا۔ اسی دن کوشامبی میں پولیس اور انتظامیہ نے مرحوم گینگسٹر اور ایم پی عتیق احمد کے دو ساتھیوں کے 19.30 کروڑ روپے کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے ضبط کیے۔ عتیق اور ان کے بھائی کو اس سال کے شروع میں پولیس کی حراست میں میڈیا کیمروں کے سامنے سرعام قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی ان کے خلاف درج 16 ایف آئی آر کی بنیاد پر کی گئی۔ ان میں وصولی، اقدام قتل، قتل اور زمینوں پر ناجائز قبضے کے مقدمات شامل تھے۔ کوشامبی کے ایس پی برجیش کمار سریواستو کے مطابق، گینگسٹر ایکٹ کے تحت ان کے گھر، دکانیں، پلاٹ اور 10 سے زیادہ گاڑیاں ضبط کی گئی ہیں۔
راجیو یادو کا کہنا ہے کہ جہاں یوگی آدتیہ ناتھ کے پہلے دور حکومت میں سیاسی پیغام دینے کے لیے ‘انکاؤنٹر’ کا استعمال کیا جاتا تھا، اب آہستہ آہستہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ امن و امان کے مسائل سے نمٹ رہی ہے، پولیس کی ترجیحی حکمت عملی میں شامل ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اب پولیس ‘انکاؤنٹر’ کے ذریعے امن و امان برقرار رکھنا چاہتی ہے اور یہاں تک کہ بعض معاملات میں عوام بھی اسے انصاف کا نعم البدل سمجھ رہے ہیں۔ پولیس عام جرائم کے معاملات میں بھی ‘انکاؤنٹر’ کر رہی ہے۔
مثال کے طور پر، راجیو نے دیوریا ضلع میں خاندانوں کے درمیان زمین کے تنازعہ پر چھ لوگوں کے حالیہ قتل کا حوالہ دیا، جہاں ایک خاندان کے واحد زندہ بچ جانے والے رکن نے پولیس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دوسری طرف کے ملزم کو ‘انکاؤنٹر’ میں مار ڈالے۔
‘انکاؤنٹر’ کی ایک جیسی اسکرپٹ!
ان مبینہ مقابلوں کی اسکرپٹ میں واقعات کا تقریباً ایک ہی جیسا سلسلہ ہوتاہے، جہاں پولیس ملزم یا ملزمان یا مشتبہ افراد کومختلف مقامات – عام طور پر کسی شاہراہ، کھیت یا نہر کے قریب یا چیک پوسٹوں پر پر روکتی ہے۔ تقریباً ہر بار موٹر سائیکل پر سوار مشتبہ شخص اپنے آپ کومحاصرے میں پا کر پولیس ٹیم پر فائرنگ کرتا ہے، جو اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کرتی ہے اور گولیوں سے اسے زخمی کر دیتی ہے۔ تقریباً تمام معاملات میں، پولیس ملزم سے دیسی ہتھیار برآمد کرتی ہے، جن میں اکثر 315 بور کا پستول ہوتا ہے۔
ریاست میں 20 اکتوبر کو ہونے والے چار ‘انکاؤنٹر’ میں جو فائرنگ ہوئی تھی وہ اسی طرز پر ہوئی تھی۔ 19 اکتوبر کی رات پولیس نے بلند شہر میں ایک شخص کو گولی مار دی اور اس سے چوری کےزیورات برآمد کیے۔ 20 اکتوبر کو، پولیس نے مہاراج گنج میں دو لوگوں کو گولی مار دی اور ان سے 55 لاکھ روپے اور 12 لاکھ روپے کا سونا (275 گرام) اور چاندی (1.50 کلوگرام) برآمد کیا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ یہ سامان ملزمین نے 10 اکتوبر کو ہونے والی ڈکیتی کی واردات میں چوری کی تھیں۔
کشی نگر میں پانچ تھانوں کی پولیس فورس نے کرائم برانچ کے ساتھ مل کر ایک مطلوبہ شخص کو ایک نہر کے قریب روکا اور اس نے مبینہ طور پر پولیس پر گولی چلانے کے بعد اسے گولی مار دی ۔ اسی دن بلند شہر میں ایک اور واقعہ میں پولیس نے ایک مشتبہ شخص کو فلائی اوور کے قریب روکا اور مبینہ فائرنگ کے تبادلے میں اسے گولی مار دی۔ پولیس نے بتایا کہ انہوں نے ایک 315 بور پستول، ایک مسروقہ موٹر سائیکل اور مسروقہ نقدی 8700 روپے برآمد کیے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے اگست میں دی وائر کی ایک
رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ریاست کی پچھلی سماج وادی پارٹی کی حکومت (2012-2017) کے مقابلے میں 2017 سے 2022 تک یوگی حکومت کی ‘پولیس کارروائی’ میں چار گنا زیادہ لوگوں کی جان گئی۔ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی طرف سے پیش کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھاکہ 2017-18 سے 2021-2022 کے دوران ‘پولیس کارروائی’ میں 162 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 2012 سے 2017 تک 41 لوگوں کی جانیں گئی تھیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)