اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی میں گزشتہ پانچ جون کو ایک بزرگ مسلمان پرحملہ کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔متاثرہ کاالزام تھا کہ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی کاٹ دی تھی اور ان سے جبراً ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کو کہا تھا۔اس معاملے سے متعلق ویڈیو/خبر ٹوئٹ کرنے کو لےکر دی وائر سمیت کئی صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
علامتی تصویر، وکی میڈیا کامنس
نئی دہلی: پریس کی صورتحال اور آزادی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیم رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس (آرایس ایف)نے گزشتہ دنوں اتر پردیش کے غازی آباد کے لونی علاقے میں
بزرگ مسلمان پر حملے کو لےکر کیے گئے ٹوئٹ کے سلسلے میں دی وائر، ٹوئٹر انڈیا اور متعددصحافیوں پر اتر پردیش پولیس کی جانب سے لگائے گئے مجرمانہ سازش کرنے کے بیہودہ الزامات کوجوڈیشیل ہراسانی بتاتے ہوئے انہیں
فوراً واپس لینے کی مانگ کی۔
آرایس ایف نے کہا کہ یوپی پولیس نے جن میڈیا اداروں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے، انہوں نے صرف مسلمان شخص پر حملے کے ویڈیو کو ٹوئٹ کیا تھا اور یہ ویڈیو پہلے ہی سوشل میڈیا پر وائرل تھا اور اسےجرائم کے خانے میں نہیں رکھا جا سکتا۔
بتا دیں کہ
15 جون کو دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسلمان بزرگ پر پانچ جون کو غازی آباد ضلع کے لونی میں اس وقت حملہ کیا گیا تھا، جب وہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے جا رہے تھے۔قابل ذکر ہے کہ 72 سالہ عبدالصمد سیفی نے اس وائرل ویڈیو میں کہا تھا کہ حملہ آوروں نے ان پر حملے کے دوران ان کی داڑھی بھی کاٹ دی تھی اور ان سے جبراً ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگانے کو کہا تھا۔
غازی آباد پولیس نے دعویٰ کیاکہ یہ واقعہ اس لیے ہوا کیونکہ ملزم سیفی کے ذریعےبیچے گئے ایک‘تعویذ’سے ناخوش تھے اور معاملے میں کسی بھی
فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ دوسری طرف متاثرہ سیفی کے بڑے بیٹے ببو نے
دی وائر کو بتایا کہ ان کے والدحملہ آوروں میں سے کسی کو نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا خاندانی پیشہ بڑھئی گری کا ہے اور پولیس کا تعویذ کا دعویٰ غلط ہے۔
آرایس ایف نے کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد تین صحافیوں کے اس واقعہ کا ویڈیو ٹوئٹ کرنے سے پہلے ہی یہ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر وائرل ہو چکا تھا۔
اس معاملے میں 15 جون رات 11.20 منٹ پر دائر ایف آئی آر میں آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر،صحافی رعنا ایوب، دی وائر، کانگریس رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی، شمع محمد،صبا نقوی اور ٹوئٹر انک اور ٹوئٹر کمیونی کیشن انڈیا پی وی ٹی
نامزد ہیں۔
اس کے علاوہ یوپی کی غازی آباد پولیس نے سماجوادی پارٹی کے رہنما
امید پہلوان ادریسی کے خلاف متاثرہ کے ساتھ فیس بک لائیو ویڈیو میں دکھائی دینے کے لیے ایک ایف آئی آر درج کی ہے۔
ساتھ ہی دہلی کے تلک مارگ پولیس اسٹیشن میں امت آچاریہ نام کے شخص نے اسے لےکر
شکایت درج کرائی ہے، جس میں اداکارہ سورا بھاسکر، ٹوئٹر کے ایم ڈی منیش ماہیشوری، دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی، ٹیوٹر انک، ٹیوٹر انڈیا اور آصف خان کا نام ہے۔
یہ ویڈیو 13 جون کی شام کو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ویڈیو کے وائرل ہونے کے باوجود اس ویڈیو کو ٹوئٹ کرنے کے لیے تین صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے یوپی پولیس کے فیصلے کی آرایس ایف نے مذمت کی ہے۔
آرایس ایف نے کہا، ‘صحافیوں پر آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے کے لیے اکسانا)، 153اے (مختلف گروپوں کے بیچ عداوت کو بڑھانا)، 295اے (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے کام کرنا)، 505(شرارت)، 120بی (مجرمانہ سازش) اور 34 (یکساں ارادے)کے کے الزام لگائے گئے ہیں۔’
آرایس ایف کی اسٹڈی کے مطابق، ہرصحافی کو نو سال اور چھ مہینے کی جیل کی ممکنہ مشترکہ سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آرایس ایف کے ایشیا پیسفک ڈیسک کے چیف ڈینیئل بیسٹرڈ نے کہا، ‘اتر پردیش پولیس کی طرف سے لگایا گیا الزام کسی ٹھوس ثبوت پرمبنی نہیں ہے اور واضح طور پریہ جوڈیشیل ہراسانی کے برابر ہے۔’
انہوں نے کہا، ہم اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے اس بے تکے ایف آئی آر میں نامزد صحافیوں کے خلاف الزامات کو فوراً واپس لینے کا حکم دےکر بھروسہ بحال کرنے کی گزارش کرتے ہیں۔آرایس ایف کے 2021 ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان 180ممالک میں سے
142ویں مقام پر ہے۔ آرایس ایف میڈیا کی آزادی کے تحفظ میں مہارت رکھنےوالی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
دی وائر اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر کا مقصد رپورٹنگ روکنا: ایڈیٹرس گلڈ
ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا(اےجی آئی)نے جمعرات کو مانگ کی کہ سوشل میڈیا پر ایک بزرگ مسلمان پر حملے سے متعلق ویڈیو پوسٹ کرنے کے لیے ایک نیوز پورٹل اور کچھ صحافیوں کے خلاف اتر پردیش پولیس کی طرف سےدرج ایف آئی آر فوراً واپس لی جائے۔
اس نے کہا، ‘آزاد میڈیا کو ہراساں کرنے کے لیے رپورٹنگ اور اختلاف رائے کو مجرمانہ بنانے کے واسطے قانون کا اس طرح استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔’
اے جی آئی نے بیان میں کہا،‘ایڈیٹرس گلڈ دی وائر اور کئی صحافیوں پر پانچ جون کو غازی آباد میں ایک بزرگ مسلمان پر حملے پر کیے ان کے ٹوئٹ کو لےکر اتر پردیش پولیس کی طرف سے ایف آئی آر درج کرنے کی مذمت کرتی ہے۔ اسے فوراً واپس لیا جائے۔’
گلڈ نے کہا، ‘پولیس کے ذریعے ملزم لوگوں کے علاوہ کئی میڈیا تنظیموں اور صحافیوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس ویڈیو کو پوسٹ کیا۔ اس کے بعد اتر پردیش پولیس نے معاملے کو ایک الگ رنگ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ ‘تعویذ’ سے جڑے ایک تنازعہ کا نتیجہ تھا، جو بزرگ نے کچھ لوگوں کو بیچا تھا۔’
اےجی آئی نے کہا، ‘گلڈ صحافیوں کو بدلے کی کارروائی کے ڈر کے بنا سنگین واقعات کی رپورٹنگ کرنے سے روکنے کے لیے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے اتر پردیش پولیس کے پچھلے ریکارڈ سے بہت فکرمند ہے۔’
گلڈ نے کہا کہ یہ صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذرائع کی بنیاد پر رپورٹ کریں اور اگر بعد میں حقائق متنازعہ پائے جاتے ہیں تو ان کی بھی جانکاری دیں۔
اے جی آئی نے کہا، ‘ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیس کا رویہ ان میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے میں امتیازی رہا ہے جو سرکار اور اس کی پالیسیوں کے ناقد رہے ہیں جبکہ ہزاروں لوگوں نے ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا۔’
ہیٹ کرائم کی رپورٹنگ کرنا جرم نہیں: ممبئی پریس کلب
ممبئی پریس کلب نے بھی اتر پردیش پولیس کے ذریعےدی وائر اور کچھ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔پریس کلب نے کہا کہ یہ ایف آئی آر دکھاتی ہے کہ سچائی اجاگر کرنے کے لیے اتر پردیش میں میڈیا اداروں کو لگاتار ہراساں کیا جا رہا ہے۔
ممبئی پریس کلب نے ‘رپورٹنگ ہیٹ کرائمس ازناٹ اے کرائم’ عنوان سے بیان جاری کر کہا، ‘یوپی میں میڈیا کو لگاتار نشانہ بنائے جانے پر غور کرتے ہوئے پریس کلب وزارت اطلاعات ونشریات سے یوپی سرکار اور اس کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اظہار رائے کی آزادی کےاصولوں اور خبر کی رپورٹنگ کرنے کے حق کے بارے میں تربیت دیں۔’
ڈی جی پب نے دی وائر اور دیگر کے خلاف درج معاملے کی مذمت کی
ڈی جی پب نیوز میڈیا فاؤنڈیشن نے بھی اتر پردیش پولیس کے ذریعےتین صحافیوں صبا نقوی، رعنا ایوب اور محمد زبیر سمیت دی وائر کے خلاف درج ایف آئی آر کی شدید مذمت کرتے ہوئے بیان جاری کیا ہے۔
ڈی جی پب نے بیان جاری کر اتر پردیش سرکار سے فوراً ایف آئی آر کو واپس لینے اورمیڈیا اداروں کو بنا ڈرے اپنا کام کرنے دینے کو کہا ہے۔ڈی جی پب نے اس معاملے میں یوپی پولیس کی جانب سے بعض افراد اور میڈیا اداروں کو نشانہ بنائے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا،‘اتر پردیش پولیس ان لوگوں کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے، جو مظلوموں کی آواز کو اٹھاتے ہیں۔ ایسا ماحول تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں سارے صحافی اورمیڈیا ادارے کو رپورٹنگ کرنے سے روکا جا سکے اور وہ صرف آفیشیل ورژن ہی رپورٹ کر سکیں۔’
بیان میں کہا گیا،‘معاملے کی بدنیتی پر مبنی فطرت آئین کے ذریعہ حاصل اظہار رائے کی آزادی کے حق کو کمزور کرتی ہے۔’
ڈی جی پب60 سے زیادہ آزاد ڈیجیٹل اشاعتوں کی ایک ایسوسی ایشن ہے، جس میں آلٹ نیوز، آرٹیکل 14, بوم لائیو، کوبراپوسٹ، ایچ ڈبلیو نیوز، نیوزکلک، نیوزلانڈری، دی نیوز منٹ، دی کوئنٹ، اسکرال ڈاٹ ان اور دی وائر شامل ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)