یوپی پولیس کے ذریعے دوسری بارپرشانت کنوجیا کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان پر ہندو آرمی کےرہنما کی پوسٹ سے چھیڑ چھاڑ کر کےاس کو پھیلانے کےالزام میں آئی پی سی کی نودفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے، جن میں زیادہ سے زیادہ سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
پرشانت کنوجیا(فوٹو: Twitter/@PJkanojia
نئی دہلی: اتر پردیش پولیس نے منگل دوپہر کو صحافی پرشانت کنوجیا کو ان کی دہلی کی رہائش سے گرفتار کیاہے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ پرشانت نے مبینہ طور پر ایسے ٹوئٹ کیے ہیں، جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی خراب ہو سکتی ہے۔شروعات میں پولیس نے پرشانت اور ان کے اہل خانہ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ ان پر کس ٹوئٹ کو لےکر شکایت درج کروائی گئی ہے۔لیکن بعد میں پولیس کی جانب سے جاری کی گئی ایف آئی آر کی کاپی میں پرشانت کے ذریعے ڈ یلیٹ کیےگئے ایک ٹوئٹ کا یو آر ایل تھا۔
ساتھ ہی جرم کے کالم میں لکھا تھا کہ پرشانت نے ہندو آرمی کے رہنما سشیل تیواری کو یہ کہتے ہوئے دکھایا ہے کہ ایودھیا کے رام مندر میں شودر، او بی سی اور ایس سی ایس ٹی کا داخلہ ممنوع ہونا چاہیے۔
کنوجیا کی بیوی جگیشا اروڑہ نے بتایا،‘پرشانت کو گرفتار کرنے سے قریب آدھے گھنٹے پہلے پولیس ہمارے گھر آئی تھی۔ایک کو چھوڑکر تمام سادے کپڑوں میں تھے۔انہوں نے پرشانت کو حراست میں لیا اور کہا کہ یہ ٹوئٹ کا معاملہ ہے۔ جب پوچھا کہ کون سا ٹوئٹ، انہوں نے کہا، ‘بہت ٹوئٹ کیے ہیں تم نے، اوپر سے آرڈر آئے ہیں ہمیں، فالو تو کرنا پڑےگا۔’
اب تک یوپی پولیس نے بتایا نہیں ہے کہ پرشانت کو کہاں لےکر جایا گیا ہے، لیکن ایسا کہا جا رہا ہے کہ وہ انہیں لےکر لکھنؤ جائیں گے۔اس بارے میں بھی کوئی واضح جانکاری نہیں ہے کہ کیا پرشانت کو دہلی سے باہر لے جائے جانے کے لیے مجسٹریٹ سے ٹرانزٹ ریمانڈ لی گئی ہے یا نہیں۔
سشیل تیواری کی پوسٹ (بائیں)پرشانت کا ٹوئٹ، جو ڈ یلیٹ کیا جا چکا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ ہندو آرمی 2019 میں وجودمیں آئی ہے۔ اس سال جنوری مہینے میں انہوں نے لکھنؤ کے حساس علاقوں میں‘جاگو ہندو جاگو’ لکھے
پوسٹر چپکائے تھے۔سوشل میڈیا پر سشیل تیواری کے کئی ایسے ویڈیو موجود ہیں، جہاں وہ ہندوؤں کو مسلم سبزی فروش اور نائی کی دکانوں کا بائیکاٹ کرنے کی بات کہتے نظر آ رہے ہیں۔
پولیس کے ذریعےپرشانت کے خلاف 17 اگست کو حضرت گنج تھانے کے ایک پولیس اہلکار کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے، ‘پرشانت کنوجیا کے ذریعے چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویر سے سشیل تیواری کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پرشانت نے لکھا تھا کہ یہ تیواری کی ہدایت ہے کہ ایودھیا کے رام مندر میں شودر، او بی سی،اور ایس سی ایس ٹی کا داخلہ ممنوع ہونا چاہیے اور سبھی لوگ اس کے لیے آواز اٹھائیں۔’
آگے کہا گیا،‘اسے سشیل تیواری کی پوسٹ کے اسکرین شاٹ کے بطور شیئر کیا جا رہا تھا…سوشل میڈیا پر شیئرہوئی پوسٹس کا اسکرین شاٹ منسلک ہے۔اس طرح کے قابل اعتراض پوسٹ مختلف کمیونٹی میں عدم اعتمادپھیلانے،سماجی ہم آہنگی پر برااثر ڈالنے اورمذہبی جذبات کومجروح کرنے والے ہیں جس سے عوامی امن و امان متاثر ہو سکتی ہے۔’
اس میں آئی پی سی کی نو دفعات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں 153 اے/بی(مذہب،زبان، نسل وغیرہ کی بنیاد پرکمیونٹی میں نفرت پھیلانے کی کوشش)، 420 (دھوکہ دہی)، 465 (دھوکہ دہی کی سزا)، 468 (بےایمانی کے ارادے سے دھوکہ دہی)، 469(ہتک عزت کے مقصد سے دھوکہ دہی) 500(ہتک عزت کی سزا) 500 (1) (بی) 505(2) شامل ہیں۔
اس کے علاوہ کمپیوٹرسے متعلق معاملوں کے لیے ان پر آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66 کے تحت بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔اس سے پہلے سال 2019 میں بھی پرشانت کنوجیا کو یوپی پولیس کے ذریعےوزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر کیے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے
گرفتار کیا گیا تھا۔
تب سپریم کورٹ کےآرڈرکے بعد
پرشانت کو رہا کیا گیا تھا۔اس وقت بھی ان کے خلاف حضرت گنج تھانے میں معاملہ درج ہوا تھا۔پولیس کا الزام تھا کہ پرشانت نے وزیراعلیٰ پر قابل اعتراض تبصرہ کرتے ہوئے ان کی امیج خراب کرنے کی کوشش کی تھی۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)