منگل کو مراد آباد کی ٹی ڈی آئی سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اس وقت احتجاج شروع ہوگیا، جب کالونی میں ایک مکان اس کے ہندو مالک نے ایک مسلمان ڈاکٹر کو بیچ دیا۔ رہائشیوں نے رجسٹری رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے سے آبادیاتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔
احتجاج کے دوران مقامی لوگوں کی جانب سے لگایا گیا بینر۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: X/@HateDetectors)
نئی دہلی: اتر پردیش کے مراد آباد میں واقع ٹی ڈی آئی سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں منگل کی رات دیر گئے احتجاج شروع ہو گیا، جب کالونی میں ایک گھر کو اس کے مالک اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نے ایک مسلمان ڈاکٹر کو فروخت کر دیا۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، سوسائٹی کی خواتین اور دیگر رہائشیوں نے، جس میں تقریباً 450 ہندو فیملی رہتی ہے، نے رجسٹری کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس فروخت سے آبادی میں تبدیلی آئے گی اور ہندو خاندان اپنے گھر چھوڑسکتے ہیں۔
کانٹھ روڈ پرواقع عالیشان کالونی میں واقع یہ متنازعہ مکان ڈاکٹر اشوک بجاج نے ڈاکٹر اقراء چودھری کو فروخت کیا تھا۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ بجاج نے فروخت کے بارے میں کسی کو مطلع نہیں کیا تھا اور اس لین دین نے گیٹیڈ سوسائٹی کی ‘سماجی ہم آہنگی کی خلاف ورزی’ کی، جس میں مبینہ طور پر اس سے پہلے کوئی مسلم فیملی نہیں تھی۔
احتجاج کرنے والوں میں سے ایک پائل رستوگی نے کہا، ‘بجاج نے ہمیں کوئی اطلاع دیے بغیر اپنا گھر ایک غیر ہندو کو بیچ دیا۔ ہم یہاں پر سکون سے رہتے ہیں اور اس سے پہلے کبھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ بجاج رجسٹری رد کروا دیں۔ ہم نے پہلے ہی ضلع انتظامیہ اور مقامی پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔’
ایک اور رہائشی پلوی نے کہا، ‘ہماری کسی برادری سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ ہم صرف نظام میں تبدیلی نہیں چاہتے۔ ہم یہاں 15 سال سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ گھر کو دوبارہ کسی ہندو کے نام پر رجسٹر کیا جائے۔ ورنہ ہندو نقل مکانی شروع کردیں گے اور سب کچھ بدل جائے گا۔’
احتجاج میں شریک خواتین نے خدشہ ظاہر کیا کہ دوسرے علاقوں میں بھی ایسے ہی واقعات کی وجہ سے ہندو ہجرت کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، ‘اگر ایک گھر فروخت ہو جائے تو دوسرے بھی فروخت ہو جائیں گے اور یہ علاقہ جلد ہی اپنا کردار کھو دے گا’۔
دریں اثنا، مراد آباد کے ضلع افسر انج کمار سنگھ نے شکایت موصول ہونے کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم صورتحال سے واقف ہیں اور معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انتظامیہ اور پولیس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں فریقوں سے بات کر رہی ہے۔’