اتر پردیش کے پی ڈبلیو ڈی محکمہ نے ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کے لیے چندہ حاصل کرنے کے مقصد سے ایک بینک اکاؤنٹ کھولا ہے۔ یہ قدم آئین کے اس شق کی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کے نام پر ٹیکس یا پیسہ جمع نہیں کر سکتی ہے۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اورنائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ۔ (السٹریشن: دی وائر)
ہندوستان کا آئین نہ صرف مذہب کی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے جس کے تحت ہر شخص کو اپنے مذہب کی آزادانہ طور پرتبلیغ، عمل اورتشہیر کرنے کاحق ہے بلکہ یہ کسی بھی مذہب کے نام پر ٹیکس وصول کرنے یاپیسہ جمع کرنے سےحکومت کو روکتا ہے۔
لیکن اتر پردیش،جس کو لو گ آج کل مذاق میں‘الٹرا پردیش’ بھی کہتے ہیں، کے حکام نے اس شق کو بالکل الٹا کر دیا ہے۔ ریاست کے پی ڈبلیو ڈی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک بینک اکاؤنٹ کھولا ہے۔
گزشتہ 19 جنوری کو محکمہ کے چیف انجینئر(ڈیولپمنٹ)اورمحکمہ کے سربراہ راجپال سنگھ نے لکھنؤ میں ایچ ڈی ایف سی بینک کی ایم جی روڈ برانچ کوخط لکھ کر ‘پی ڈبلیو ڈی رام مندر ویلفیئر’ نام سے ایک اکاؤنٹ کھولنے کی گزارش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں محکمہ کے ذریعے اپنےتمام ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ‘رضاکارانہ ’طور پر رام مندرتعمیر کے لیے دی جائےگی۔
اس کے جواب میں بینک نے فوراً ایک اکاؤنٹ کھول دیا، جس کا نمبر 50100365009830 ہے۔
محکمہ کی جانب سے بینک کو لکھا گیاخط۔
معلوم ہو کہ آئین کا
آرٹیکل 27حکومت کو کسی مذہب کی تبلیغ کے لیےٹیکس اکٹھا کرنے سے منع کرتا ہے اورحکومتوں کومذہب کے نام پر خرچ کرنے سے بھی روکتا ہے۔اس میں کہا گیا ہے، ‘کسی بھی شخص کو ایسا کوئی بھی ٹیکس دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا، جس کو کسی خاص مذہب یا مذہبی کمیونٹی کی تبلیغ یا رکھ رکھاؤ کے لیے خرچ کیا جانا ہے۔’
ویسے تو پی ڈبلیو ڈی کےملازمین کی جانب سے‘رضاکارانہ’چندےکو قانونی طور پرٹیکس نہیں مانا جا سکتا ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس رقم کواکٹھا کرنے کے لیےسرکاری مشینری کا استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ خاص مذہب کی تبلیغ کے لیے زبردستی ٹیکس وصول کرنے کے برابر ہے۔
یہ صاف نہیں ہے کہ یہ فنڈ اکٹھا کرنے کا فیصلہ چیف انجینئر کا ہےکہ انتظامیہ کی نظر میں وہ خود کو وفادار ثابت کر سکیں، یا پھر وہ اوپر سے آئے کسی ‘تحریری یاتحریری آرڈر’پر عمل کر رہے ہیں۔اس کو لے کر دی وائرنے چیف انجینئر راجپال سنگھ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک ان کا جواب نہیں آیا ہے۔ کوئی بھی ردعمل آنے پر اس کوا سٹوری میں شامل کر لیا جائےگا۔
پی ڈبلیو ڈی نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کے دائرہ اختیار میں ہے، جن کی جڑیں وشو ہندو پریشد(وی ایچ پی)میں رہی ہیں۔ اس شدت پسند ہندوتوادی تنظیم کے سابق صدر اشوک سنگھل نہ صرف موریہ کے گرو تھے، بلکہ وہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی مانگ کے اہم پیروکاروں میں سے ایک تھے۔
موریہ کے اسی تاریخ کی وجہ سے انہیں بی جے پی میں بڑے عہدےدیے گئے اور وہ 2017 اسمبلی انتخاب تک یوپی بی جے پی کے صدرتھے۔ ایک او بی سی رہنما ہونے کی وجہ سے وہ وزیر اعلیٰ عہدے کےمضبوط دعوےدار بھی تھے۔ حالانکہ یہ عہدہ یوگی آدتیہ ناتھ کو دیا گیا اور انہیں نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے سےمطمئن ہونا پڑا۔
اس لیےیہ قیاس آرائیاں ہیں کہ موریہ سرکاری مشینری کا استعمال کرکے ایودھیا مندرکی تعمیر کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ کے مقابلے زیادہ رقم اکٹھا کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے ابھی تک
صرف دو لاکھ کا چندہ دیا ہے۔خاص بات یہ ہے کہ آدتیہ ناتھ ابھی بھی گورکھپورواقع گورکھ ناتھ مندر کے سربراہ ہیں، جو کہ بہت زیادہ پیسہ رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے اور اس میں سے کچھ رقم ضرور رام مندرتعمیر کے لیے دی جا سکتی ہے۔
معاملہ چاہے جو بھی ہو، لیکن اس کا بہت کم امکان ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ جس کی خود کی سیاست شدت پسند ہندوتوا ہے، وہ اس غیرآئینی قدم کو روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھائےگا۔
یہ واضح ہونا چاہیے کہ سرکاری محکمہ کے ذریعےملازمین کو مندر کے لیے ایک دن کی تنخواہ دینے اور اس عمل کو آسان بنانے کے لیے بینک اکاؤنٹ بنانے کے لیےسرکاری وسائل کے استعمال کی گزارش کرناانتہائی نامناسب ہے۔ پھر بھی یہ کیشو پرساد موریہ کے لیے منافع بخش صورتحال ہے اگر چیف انجینئر کے ذریعے اٹھائے گئے قدم کے پیچھے و ہی ہیں۔
جوسرکاری ملازم چندہ نہیں دینا چاہتے ہیں، وہ اس کی مخالفت کرتے ہوئے پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ ویسے تو اس میں کہا گیا ہے کہ یہ چندہ ‘رضاکارانہ’ ہے، حالانکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جو چندہ دینے سے انکار کرےگا، اس پر ‘مندر مخالف ’ کا تمغہ لگ جائےگا، جس کے بے حد خراب نتیجے ہو سکتے ہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔