یوپی: گورکھپور میں کئی امیدواروں کے آنسوؤں نے ووٹروں کی ہمدردی حاصل کی

06:47 PM Mar 04, 2022 | منوج سنگھ

گورکھپور اور بستی ڈویژن کی کئی اسمبلی سیٹوں پر امیدواروں کے لیے رائے دہندگان کی ہمدردی نے سیاسی پارٹیوں کے بنے بنائے کھیل  کو بگاڑ دیاہے۔

نرمیش منگل کا قافلہ اور نرمیش منگل ایمبولینس میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@nirmesh.mangal.5)

گورکھپور اور بستی ڈویژن کی کئی سیٹوں پر امیدواروں کی جذباتی اپیل اور آنسوؤں نے غیرمعمولی  اثر کیا ہے۔ دو نشستوں پر امیدواروں کےآنسوؤں سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر نے اہم سیاسی جماعتوں کے بنائے ہوئے کھیل کوہی بگاڑ دیا ہے۔

مہاراج گنج کی محفوظ نشست سے آزاد امیدوار نرمیش منگل ایمبولینس سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ پرچہ نامزدگی کے بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی  تھی اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ اس کے بعد انہیں دل کی بیماری کی وجہ سے دو ہفتے سے زیادہ اسپتال میں رہنا پڑا۔ اس دوران ان کے بیٹے اور اہلیہ نے انتخابی مہم کی کمان سنبھالی۔

اس کے بعد نرمیش منڈل اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد ایمبولینس کے ذریعہ اپنے علاقے میں پہنچے اور انتخابی مہم شروع کی۔ گزشتہ چار پانچ دنوں سے نرمیش منگل ایمبولینس میں  ہی انتخابی مہم کے لیے جا رہے ہیں۔ وہ ایمبولینس میں لیٹے رہتے ہیں اور ان کے حامی پرچہ وغیرہ تقسیم کرتے ہوئے ان کو جتانے کی اپیل کرتے ہیں۔ لوگ ان کو دیکھنے کے لیے ایمبولینس تک آتے ہیں  اپنی  ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔

مہاراج گنج سیٹ 2007 اور 2012 میں ایس پی نے اور پچھلے انتخاب میں بی جے پی نے جیت حاصل کی تھی۔ تینوں الیکشن نرمیش منگل بی ایس پی سے لڑے اور دوسرے نمبر پر رہے۔ 2007 کے الیکشن میں وہ صرف 889 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔

اس الیکشن میں بی جے پی نے اپنے موجودہ ایم ایل اے جےمنگل کنوجیا کو امیدواربنایا ہے۔ ایس پی کے اتحادی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی سے گیتا رتنم، بی ایس پی سے اوم پرکاش اور کانگریس سے آلوک پرساد میدان میں ہیں۔ انتخابی کشمکش ان اہم پارٹیوں میں ہے، لیکن نرمیش منگل کی ایمبولینس سے انتخابی مہم،اور جذباتی اپیل نے الیکشن کو ایک الگ ہی سمت دے دی ہے۔

نرمیش منگل انتخابی مہم میں عوام سےووٹ دے کر جیون دان دینے کی جذباتی پیل کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس اپیل کا ایک ویڈیو بھی جاری کیا ہے۔ منگل پچھلے تین الیکشن مہاراج گنج سیٹ پرلڑ رہے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔

گزشتہ الیکشن کے بعد وہ ایس پی میں شامل ہو گئے تھے۔ وہ ٹکٹ کے مضبوط دعویدار تھے،لیکن یہ سیٹ ایس پی کی اتحادی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی کے پاس چلی گئی اور اس  نے گیتا رتنم کو یہاں سے امیدوار بنایا۔ نرمیش منگل نے ایس پی کے خلاف بغاوت کردی اور وہ آزاد امیدوار کے طور پرالیکشن میں کود پڑے، لیکن نامزدگی کے بعد طبیعت بگڑنے کی وجہ سے حالات بالکل بدل گئے۔

نرمیش منگل نے بتایا، مجھے ذیابیطس کے علاوہ کوئی بیماری نہیں تھی۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ دل کی شریانوں میں بلاک ہیں اور اس  کو دور کرنے کے لیے دو اسٹنٹ ڈالے گئے ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران کہہ رہے ہیں کہ وہ 20 سال سے عوام کی خدمت کر رہے تھے۔ انہیں ٹکٹ نہیں ملا۔ اب عوام ہی ان کی تشہیر کر رہی ہے۔ عوام انہیں ووٹ دے کرجیون دان  دے گی۔

نرمیش منگل کی تشہیر میں ان کے حامیوں نے ایک پوسٹر جاری کیا ہے جس میں لکھا ہے – ‘آپ کا اپنا، تین بار کاہارا، نرمیش بیچارا’۔

نرمیشن منگل کے ایک حامی اشوک مانو نے ان کو جتانے کے لیے جذباتی اندازمیں گیت گایا ہے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیاہے۔ گیت کے بول ہیں-

نرمیش بھیا ہمار بھیا

مہاراج گنج کے سنوا ہو

چاچا چاچی دادا دادی کو دے دا

ن کے جیون دانوا ہو

بیس برس  تک سب کے کئیلیں سیوا

کیہو نا کئیلس ان پر وشواس ہو

ایک بار میرا ساتھ دے د

پئپہن جیوان دنوا ہو

اسی طرح سنت کبیر نگر ضلع کی خلیل آباد سیٹ پر عام آدمی پارٹی سے الیکشن لڑ رہے سابق ایم پی بھال چندر یادو کے بیٹے سبودھ چندر یادو نے ہمدردی کی بدولت پورے انتخابی کھیل کو بدل دیا ہے۔

سبودھ یادو ایس پی سے ٹکٹ کے دعویدار تھے، لیکن پارٹی نے بی جے پی چھوڑ کرآئےجئے چوبے کو ٹکٹ دےدیا۔ بی جے پی نے اس سیٹ سے نئے امیدوار انکور تیواری کو میدان میں اتارا ہے۔

اپنی ماں اور اروند کیجریوال کے ساتھ سبودھ یادو۔ (فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

اس مسلم اکثریتی نشست پر پیس پارٹی کے صدر ڈاکٹر ایوب بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ انہیں اے آئی ایم آئی ایم کی حمایت حاصل ہے۔ بی ایس پی نے آفتاب عالم اور کانگریس نے امریندر بھوشن کو میدان میں اتارا ہے۔

ایس پی سے ٹکٹ نہ ملنے کے بعد سبودھ یادوعآپ کےٹکٹ سے انتخابی میدان میں اترے۔ وہ اپنی ماں پھولا دیوی، بھائی، بہن کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ نوجوانوں کی بڑی تعداد دیکھی جارہی ہے۔ وہ اکثر اپنے انتخابی جلسوں میں اپنے والد بھال چندر یادو کا ذکر کرتے ہیں اور اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،اگر ان کے والد زندہ ہوتے تو انہیں اپنے گھر والوں کے ساتھ عوام کے درمیان کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ آج یہ دن دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پتاجی  کچھ  چھوڑ کر نہیں گئے ہیں۔ بس میری انگلی پکڑ کر عوامی خدمت کا راستہ دکھا گئے ہیں۔ آخری وقت میں بھی  یہی کہا کہ بیٹا عوام کی خدمت کرنا۔

سبودھ یادو کے والد بھال چندر یادو سنت کبیر نگر کے مقبول رہنما تھے۔ اکتوبر 2019 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ دو بار سنت کبیر نگر کے ایم پی رہ چکے ہیں۔ وہ 1999 میں ایس پی سے اور 2004 میں بی ایس پی سے الیکشن جیت کر ایم پی بنے تھے۔ انہوں نے 2019 کا لوک سبھا الیکشن کانگریس سے لڑا لیکن ہار گئے۔

سبودھ کے حق میں ہمدردی دیکھ کر عام آدمی پارٹی نے یہاں پوری طاقت لگا دی ہے۔ پارٹی سربراہ اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے بھی یہاں آکر انتخابی جلسہ کیا۔ راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے اس علاقے میں کئی جلسے کیے ہیں۔

پارٹی کے لیڈروں نے اس سیٹ کو پوری ریاست میں اپنے لیے سب سے زیادہ امکان والاقرار دینا شروع کر دیا ہے۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو کو بھی اس الیکشن میں سبودھ کی مضبوط موجودگی کا نوٹس لینا پڑا۔

سوموارکو خلیل آباد کے جلسہ عام میں انہوں نے نام لیے بغیر اس کی طرف اشارہ  کیا۔ انہوں نے کہا کہ بتاؤ کوئی گڑ بڑتو نہیں ہے۔ ہمیں لگ رہا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ کہیں جھاڑو واڑو تو نہیں چل رہی؟ جھاڑو کے چکر میں تو کوئی نہیں ہے۔ ہم ہی بن  گے تھے اس چکر میں لیکن  بتاؤ بچ گئے کہ نہیں اس چکر سے؟ بتاؤ ہم لوگوں کو بچاؤ گے یا نہیں؟

ان دونوں سیٹوں کے علاوہ گورکھپور کی پپرائچ اسمبلی سیٹ پر ایس پی سے لڑ رہے امریندر نشاد کو کئی انتخابی جلسوں میں روتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

امریندر نشاد انتخابی مہم کے دوران۔ (فوٹوبہ شکریہ: سوشل میڈیا)

سنیچر کو بانس استھان میں سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کے جلسہ میں تقریر کے دوران  امریندر نشاداپنے والد جمنا نشاد کو یاد کرتے ہوئے رونے لگے۔ اسٹیج پر موجود ان کی والدہ سابق ایم ایل اے راج متی نشاد بیٹے کو تسلی دینے گئیں تو ان کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے۔

پارٹی رہنماؤں نے دونوں کو سنبھالا۔ ماں بیٹے کو روتا دیکھ کر پورے جلسہ میں خاموشی چھا گئی لیکن کچھ دیر بعد ہی ‘جمنا نشاد امریندر نشاد زندہ باد’ کے نعرے لگنے لگے۔ امریندر نشاد نے اس جلسہ میں کہا، میرے والد نے برسوں سیاست کی لیکن اپنے خاندان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آج ہمارے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے۔ اب صرف حلقہ کی عوام  ہی ہمیں سہارا دے گی۔

جلسہ میں انہوں نے بلاک پرمکھ کے انتخاب کے دوران اپنے ساتھ ہوئی  بدسلوکی  کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جس طرح ان کے والد کو ان سے چھین لیا گیا تھا، اس طرح  انہیں قتل کرنے کی سازش کی گئی۔

امریندر نشاد نے پچھلا الیکشن ایس پی سے ہی لڑا تھا لیکن ہار گئے تھے۔ وہ تیسرے نمبر پر رہے۔ بی ایس پی دوسرے نمبر پر رہی۔ یہاں سے بی جے پی کے مہندر پال سنگھ جیتے تھے۔

پپرائچ سیٹ نشاد کی اکثریت والی سیٹ ہے۔ امریندر نشاد کے والد جمنا نشاد 2007 میں اس سیٹ سے ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے اور انہیں بی ایس پی حکومت میں فشریز اور سینک ویلفیئر کا وزیر مملکت بنایا گیا تھا۔ ایک سال بعد 2008 میں، ایک لڑکی سےریپ کے معاملے میں پولیس کی طرف سے کارروائی نہ کرنے پر جمنا نشادمہاراج گنج کوتوالی پہنچے اور وہاں پولیس کے ساتھ جھڑپ کے دوران گولی چل گئی  اور ایک پولیس اہلکار کی موت ہوگئی۔

اس معاملے میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور انہیں وزیر کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ سال 2010 میں ایک سڑک حادثے میں ان کی موت ہوگئی۔ ان کی موت کے بعد ہوئے ضمنی انتخاب میں ان کی بیوی راج متی نشاد نے ایس پی سے الیکشن لڑا اور جیت کر ایم ایل اے بنیں۔ اس کے بعد وہ 2012 میں دوبارہ جیت گئیں۔

جمنا نشاد نے گورکھپور پارلیامانی حلقہ سے یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف تین بار الیکشن لڑا۔ وہ الیکشن نہیں جیتے لیکن دو بار سخت مقابلہ دیا۔ جمنا نشاد کو گورکھپور اور ملحقہ اضلاع میں نشاد کا سب سے بڑا لیڈر مانا جاتا ہے اور نشاد کا ہر لیڈرچاہے وہ کسی بھی پارٹی میں ہو، ان کا نام لیتا ہے۔

گورکھپور صدر سیٹ پر چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف الیکشن لڑ رہی ایس پی امیدوار شوبھاوتی شکلا اکثراپنے آنجہانی شوہر اوپیندر دت شکلا کو بی جے پی میں نظر انداز کرنے اور ان کی موت کے بعد ان کےکنبہ سے منہ موڑلینے کی بات کرتے ہوئےروتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

شوبھاوتی شکلا اکھلیش یادو کے ساتھ۔ (فوٹو  بہ شکریہ: فیس بک/@shubhawatiupendrashukla)

میڈیا انٹرویوز میں بھی وہ اکثر یہی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کی موت کے بعد کوئی نہیں آیا۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں اور ان کے ساتھ موجود دونوں بیٹے انہیں تسلی دیتے ہیں۔ 27 فروری کو گورکھپور شہر میں منعقدہ ایک روڈ شو میں ایس پی صدر اکھلیش یادو نے شوبھاوتی شکلا کو سماج وادی ماتا کہتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ بہت ناانصافی ہوئی ہے۔

اوپیندردت شکلا بی جے پی کے علاقائی صدر رہ چکے تھے۔  گزشتہ سال ان کاانتقال ہو گیا۔ انہوں نے 2018 کا لوک سبھا ضمنی انتخاب گورکھپور سےلڑا تھا لیکن ہار گئے تھے۔ اوپیندر دت نے کوڑی رام ودھان سبھا (حد بندی کے بعد اب گورکھپور دیہی) سے تین بار الیکشن لڑا لیکن جیت نہ سکے۔ دو بار توپارٹی نےٹکٹ بھی کاٹ دیا تھا۔

(منوج سنگھ گورکھپور نیوز لائن ویب سائٹ کے ایڈیٹر ہیں۔)