اسد الدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے زیادہ تر امیدوار 5000 ووٹوں کا ہندسہ بھی پار نہیں کر سکے۔ اس مینڈیٹ کو قبول کرتے ہوئے اویسی نے کہا کہ پارٹیاں ای وی ایم کو قصوروار ٹھہرا رہی ہیں۔ خرابی ای وی ایم میں نہیں، عوام کے ذہنوں میں جو چپ لگائی گئی ہے وہ بڑا رول ادا کر رہی ہے۔
نئی دہلی: اسد الدین اویسی کی قیادت والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے زیادہ تر امیدوار اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں پانچ ہزار ووٹوں کا ہندسہ بھی پار کرنے میں ناکام رہے ہیں اور ریاست کے ووٹروں نے انہیں بری طرح سےمسترد کر دیا۔
اتر پردیش اسمبلی کی 403 سیٹوں پر اے آئی ایم آئی ایم کو اس بار نصف فیصد سے بھی کم ووٹ ملے ہیں۔
الیکشن کمیشن سے موصولہ اطلاع کے مطابق، اعظم گڑھ سے اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار قمر کمال کو 5515، دیوبند سیٹ سے عمیر مدنی کو 3500، جونپور سے ابھے راج 6224، کانپور کینٹ سے معین الدین کو 1109، لکھنؤ سینٹرل سے سلمان کو621، مرادآبادسےبقیع رشید کو 2658، میرٹھ سے عمران احمدکو 3036، مرادآباد دیہی سےموحد فرغنی کو 2376، نظام آباد سےعبدالرحمن انصاری 6097 ، مظفر نگرسےمحمد انتظارکو 3740،سنڈیلا سےمحمد رفیق کو 1452، ٹانڈہ سےعرفان احمد کو74631 ووٹ ،سراتھو سےشیر محمد کو 863اوربہرائچ سے راشد جمیل کو2238 ووٹ ملے۔
الیکشن کمیشن کے مطابق، اے آئی ایم آئی ایم کو ریاست میں 0.49 فیصد ووٹ ملے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم نے اسمبلی انتخابات میں 100 امیدوار اتارنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اویسی نے انہی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جو مسلم اکثریتی تھیں، لیکن ریاست کے مسلمانوں سمیت دوسرے ووٹروں نے بھی انہیں بری طرح سےمسترد کر دیا۔
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں اویسی کی پارٹی نے 38 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور ان میں سے 37 سیٹوں پر ان کے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔تب اسے 0.24 فیصد ووٹ ملے تھے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تواس بار انہیں دوگنا ووٹ ملے ہیں، لیکن پچھلی بار کے مقابلےوہ ڈھائی گنا زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑے تھے۔
حالاں کہ، انتخاب سےپہلے پارٹی کے سربراہ اسد الدین اویسی سرخیوں میں تھے۔ اس دوران وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) پر مسلسل حملے کرتے رہے۔
اپنے حملے میں وہ اقتدار میں مسلمانوں کی حصہ داری پر سوال اٹھاتے تھے۔ ایس پی پر الزام لگاتے تھے کہ اس نے مسلمانوں کا ووٹ لے کر اسے دھوکہ دیا ہے۔ انتخابات کے دوران اویسی اور ان کی پارٹی پر اپوزیشن کی طرف سے لگاتار الزام لگایا گیا کہ وہ ایس پی کے مسلم ووٹ کاٹ کر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان پر بی جے پی کی ‘بی’ ٹیم ہونے کے الزام بھی لگتے رہے۔
حالاں کہ، انتخابی نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم ووٹ نے اویسی پر بھروسہ نہیں کیا، اس کے باوجود سماج وادی پارٹی حکومت نہیں بنا سکی۔
اویسی اس وقت بھی سرخیوں میں آئے تھے،جب یوپی کے ایک انتخابی دورے کے بعد وہ دہلی جا رہے تھےاور ان کی کار پر فائرنگ کی گئی تھی۔
کانگریس کی طرح سرخیوں میں رہنے کے باوجود اے آئی ایم آئی ایم کی کارکردگی میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں ملی۔ تاہم توقع تھی کہ بہار میں کامیابی کا مزہ چکھ چکے اویسی اتر پردیش میں بھی اپنے قدم جمالیں گے۔
حالاں کہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ الیکشن سے پہلے دی وائر سے بات چیت میں یوپی کے سیاسی ماہرین نے کہا تھا کہ یوپی کا الیکشن بی جے پی بنام ایس پی ہو گیا ہے، جس میں ووٹر کسی اور متبادل کے بارے میں غور نہیں کرے گا اور مسلم ووٹ سیدھے ایس پی کی جھولی میں جائے گا۔ اب نتائج بھی کسی حد تک اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔
بہرحال، انتخابی نتائج کے بعد اویسی نے انتخابی نتائج کو ’80-20 کی جیت’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں اگلے کئی سالوں تک ملک کی جمہوریت میں اسی طرح کی صورتحال برقرار رہے گی۔
اپنی پارٹی کی ناکامیوں پر انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اس مینڈیٹ کا احترام کرتی ہے اور مستقبل میں عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔ پارٹی کڑی محنت کرے گی اور اپنی خامیوں کو دور کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ یوپی میں اے آئی ایم آئی ایم کا مستقبل اچھا ہوگا۔
اویسی نے جمعرات کو کہا، سیاسی جماعتیں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کو قصور وار ٹھہرا رہی ہیں۔ میں نے 2019 میں بھی کہا تھا کہ ای وی ایم میں خرابی نہیں ہے۔ جو چپ عوام کے ذہنوں میں ڈالی گئی ہے وہ بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، کامیابی ضرور ملی ہے، لیکن یہ کامیابی 80-20 کی ہے۔ ان کا براہ راست اشارہ اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے انتخاب کے دوران دیے گئے ’80-20′ والے بیان کی طرف تھا۔
یوگی نے جنوری میں ایک پروگرام میں کہا تھا کہ اتر پردیش میں ’80 فیصدبنام 20 فیصد’ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ مانا جارہاتھا کہ وہ ریاست کی مسلم آبادی کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا تھا، 80 فیصد حمایتی ایک طرف اور 20 فیصد دوسری طرف ہوں گے۔ میرا ماننا ہے کہ 80 فیصد مثبت توانائی کے ساتھ آگے بڑھیں گے، جبکہ 20 فیصد نے ہمیشہ مخالفت کی ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتر پردیش کی کل آبادی میں 20 فیصد مسلمان ہیں۔
اویسی نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں محنت کرنے کے لیے پارٹی لیڈروں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی پارٹی گجرات، راجستھان اور دیگر ریاستوں میں بھی الیکشن لڑے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)