سال 2018 میں ہاپوڑ میں بکریوں کے تاجر قاسم کو ایک ہندو ہجوم نے گئو کشی کا الزام لگا کر بے دردی سے پیٹا تھا، جن کی بعد میں موت ہو گئی تھی۔ اس معاملے میں پولیس نے انتہائی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زخمی قاسم کو سڑک پر گھسیٹتے ہوئے ہسپتال پہنچایا تھا۔
قاسم کی فیملی۔ (تصویر: عمر راشد)
نئی دہلی: گئو کشی کی من گھڑت افواہ پر اتر پردیش کے ہاپوڑ کے ایک گاؤں میں ہندوؤں کی بھیڑ کےذریعے بکریوں کے مسلمان تاجر قاسم کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کیے جانے کے تقریباً چھ سال بعد ایک مقامی عدالت نے منگل (12 مارچ) کو دس افراد کواس گھناؤنے جرم کا قصور وار ٹھہرایا اور عمر قید کی سزا سنائی۔
سال 2015 کے بدنام زمانہ دادری واقعے (جب گئو کشی کی افواہ پر محمد اخلاق نامی ایک مسلمان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا) کے بعد 45 سالہ قاسم اتر پردیش میں گئو کشی کے نام پر ہوئے ہیٹ کرائم کے سب سے نمایاں متاثرین میں سے ایک تھے۔
ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے برسراقتدار آنے اور پرتشدد گئو رکشا (گائے کے تحفظ)کے اقدام کو اخلاقی حمایت دینے کے ایک سال بعد16 جون 2018 کو ہاپوڑ کے پلکھوا تھانے حلقہ میں بجھیرہ خورد گاؤں کے کھیتوں کے قریب قاسم کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
درحقیقت، ہاپوڑ لنچنگ کے کلیدی ملزمین میں سے ایک نے جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد بھی اپنے رول کے بارے میں ڈینگیں ماری تھی۔ وہیں، متاثرین کے اہل خانہ کا اصرار تھا کہ گئو کشی کے الزامات من گھڑت ہیں۔
اگرچہ عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے،تاہم اس کیس سے وابستہ وکیلوں نے کہا کہ دس ملزمین کو قصوروارٹھہرایا گیا ہے۔ مذکورہ واقعہ میں سمیع الدین نام کا ایک مسلمان کسان بھی بری طرح زخمی ہوگیا تھا۔
وہ گاؤں جہاں جرم ہوا تھا۔ (تصویر: عمر راشد)
متاثرین کی طرف سے لڑنے والی ایڈوکیٹ ورندا گروور نے بتایا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شویتا دکشٹ نے تمام دس ملزمان کو قتل، اقدام قتل، مہلک ہتھیار سے لیس ہوکر فساد کرنے اور مذہب کی بنیاد پر گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے وغیرہ کے لیے قصوروار ٹھہرایا۔ملزمان کو تعزیرات ہند کی دفعہ 302، 307، 147، 148، 149 اور 153اے کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
گروور نےبتایا کہ ان پر 58000 روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ سمیع الدین کے بھائی اور کیس میں شکایت کنندہ یاسین نے دی وائر کو بتایا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے خوش ہیں، حالانکہ اس میں کئی سال لگ گئے۔
پیشے سے دہاڑی مزدور یاسین نے کہا، ‘ہم عدالت کے فیصلے سے خوش ہیں۔ ہمیں انصاف مل گیا ہے۔’ انہوں نے کہا کہ لمبی اور مشکل قانونی لڑائی جاری رکھنے کے لیے ان کے خاندان کو 200 سے 300 گز زمین بیچنی پڑی۔
یاسین نے کہا میں مزدور ہوں۔ ہمارے پاس صرف تین چار بیگھہ ہی زمین ہے۔ عدالتی سماعتوں میں جانےکے لیے مجھے دن بھر کے لیے اپنا کام چھوڑنا پڑتا تھا۔ یہ لڑائی لڑتے ہوئے ہمیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ کے فضل سے ہمیں انصاف مل گیا۔’
جان گنوانے والے قاسم مقامی منڈیوں اور دیہاتوں میں بکریاں فروخت کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ واقعہ کے دن سمیع الدین اپنے کھیت میں مویشیوں کے لیے چارہ اکٹھا کر رہے تھے،جب انہوں نے دیکھا کہ قاسم کھیت کی طرف بھاگ رہے تھےاور بھیڑ ان کا پیچھا کر رہی تھی۔
سمیع الدین، جو اس حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔ (تصویر: عمر راشد)
ہجوم نے قاسم کو بے دردی سے پیٹا۔ جب سمیع الدین نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔ ماداپور-مصطفیٰ آباد گاؤں کے رہنے والے سمیع الدین کے خلاف بھی فسادی ہجوم نے فرقہ وارانہ تبصرے کیے اور گئو کشی کا الزام لگایا۔
سمیع الدین کو شدید چوٹیں آئی تھیں، اگرچہ وہ بچ گئے، لیکن قاسم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
اس واقعہ کے لیے پولیس کو ہر طرف سے مذمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مذمت صرف اس واقعے کی وجہ سے ہی نہیں ہوئی بلکہ پولیس کے اس رویے کے لیے بھی ہوئی تھی کہ واقعے کے فوراً بعد ایک تصویر میں تین پولیس اہلکار خون میں لت پت قاسم کو ہجوم کے درمیان سے گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے۔ قاسم غالباً اس وقت زندہ تھے۔
ریاستی پولیس نے اپنے اہلکاروں – ایک انسپکٹر اور دو کانسٹبل – کے طرز عمل کے لیے معافی مانگی تھی، لیکن ساتھ ہی واضح کیا کہ قاسم کو ‘اس وقت ایمبولینس نہ ہونے کی وجہ سے’ زمین پر گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا تھااور انہیں ایک ایمرجنسی وین میں اسپتال لے جایا گیا تھا۔
شروعات میں اس قتل کو موٹر سائیکل کی ٹکر کو لےکر دو فریقوں کے درمیان جھگڑے کا نتیجہ بتاکرخارج کرنے کے لیے پولیس کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
قاسم کے اہل خانہ۔ (تصویر: عمر راشد)
تاہم، جب سمیع الدین نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تو عدالت نے حکم دیا کہ کیس کی تحقیقات کی نگرانی ایک سینئر آئی پی ایس افسر (میرٹھ کے انسپکٹر جنرل) کے ذریعےکی جائے اور ان کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔
متاثرہ خاندان کو پولیس سیکورٹی بھی دی گئی۔ یاسین کا کہنا ہے کہ گئو کشی کی افواہیں ‘بالکل جھوٹی’ تھیں۔ انہوں نے کہا، ‘واقعے کے کئی ویڈیو تھے۔ ان میں سے کسی میں بھی گائے نظر نہیں آئی۔’
قاسم کے پسماندگان میں ان بیوی اور چار بچے ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )