مین پوری کے رہنے والے موہت یادویوپی روڈ ویز میں کنڈکٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ گزشتہ جون میں دو مسافروں کو نماز پڑھنے دینے کے لیے بس روکنے کے دعوے والے ایک ویڈیوکے سامنے آنے کے بعد انہیں اور بس ڈرائیور کوبرخاست کر دیا گیا تھا۔ اہل خانہ کے مطابق موہت ذہنی دباؤ میں تھے۔ اتوار کو ان کی لاش ریلوے ٹریک پر ملی۔
(علامتی تصویر، بہ شکریہ: Facebook/@UPparivahan)
نئی دہلی: اتر پردیش میں تقریباً دو مہینے پہلے دو مسلم بس مسافروں کو سڑک پر نماز پڑھنے دینے کے لیے مبینہ طور پرایک سرکاری بس کو روکنے کے لیے
نوکری سے نکالے جانے کے بعد ایک سابق بس کنڈکٹر موہت یادواپنے آبائی ضلع مین پوری میں ریلوے پٹریوں کے کنارے مردہ پائے گئے۔
پولیس نے منگل (29 اگست) کو بتایا کہ موہت کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ موہت کے چھوٹے بھائی رنکو یادو نے دی وائر کو بتایا کہ جون میں نوکری سے نکالے جانے کے بعد وہ فریسٹریشن میں تھے اور پیسوں کے حوالے سے فکرمند تھے۔
چھبیس سالہ رنکو کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا،’وہ اپنی نوکری کے حوالے سے پریشان تھے اور اکثر یہی سوچتے رہتے تھے کہ بغیر کام کے گھر کیسے چلے گا۔’
رنکو نے بتایا،’وہ اکثر مایوسی سے کہتے تھےکہ اگر مجھے میری نوکری واپس نہیں ملی تو مجھے خودکشی کرنی پڑے گی۔ وہ ہر وقت پریشان رہتے تھے۔
اتوار کی شام (27 اگست) موہت یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے کہ وہ اپنی نوکری حاصل کرنے کی امید میں بریلی جا ر ہے ہیں۔ رنکو نے بتایا، ‘ہم نے سوچا کہ وہ بریلی ڈپو جا رہے ہوں گے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اپنا پلان بدل دیا۔ بعد میں ہمیں ایک فون آیا کہ ٹرین کے نیچے آنے سے ان کی موت ہو گئی۔
موہت یوپی اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (یو پی ایس آر ٹی سی) کے ساتھ کانٹریکٹ ملازم کے طور پر کام کرتے تھے، جہاں انہیں ماہانہ 17000 روپے ملتے تھے۔ موہت اور ان کے تین بھائیوں کے پاس کل 10 بیگھہ زمین ہے اور موہت کی تنخواہ کے ساتھ ساتھ یہ خاندان کھیتی باڑی اور دو بھینسوں سے ہونے والی آمدنی سے گھر چلاتا تھا۔
پسماندگان میں تین بھائی، ان کے والدین، بہن اور موہت اور رنکو کی بیویاں ہیں۔ موہت کا چار سال کا بیٹا بھی ہے۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ موہت کو نوکری چھوٹ جانے کی وجہ سے پیسوں کی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ذہنی دباؤ بھی تھا۔
جون کے واقعات
گزشتہ جون میں موہت اوردہلی جانے والی یوپی روڈ ویز کی بس کے ڈرائیور کرشن پال سنگھ کو معطل اور بعد میں نوکری سےبرخاست کر دیا گیا تھا ، کیوں کہ بس میں سوار ایک مسافر نے دو مسلمان مردوں کانماز ادا کرہوئے ویڈیو بناکر اپ لوڈ کر دیاتھا۔
اپنی برخاستگی کے بعد ایک ویڈیو بیان میں موہت نے واضح کیا تھا کہ انہوں نے خاص طور پر دو مسلمان مردوں کو نماز پڑھنے کے لیے بس نہیں روکی تھی۔ بس کو اس وقت روکاگیا جب تین مسافروں نے بس کو روکنے کی درخواست کی تاکہ وہ پیشاب کر سکیں۔ چونکہ دو مسلمان مسافروں نے پہلے ہی موہت سے انہیں نماز پڑھنے دینے کی بات کہی تھی، اس لیے انہوں نے ان سے بس رکنے کے وقت پر نماز پڑھنے کو کہا تھا۔
موہت نے کہا، ‘میں نے نماز کے لیے بس نہیں روکی۔ جب تک وہ لوگ باتھ روم سے واپس آئے تب تک دونوں نماز پڑھ چکے تھے۔ بس صرف دو منٹ کے لیے رکی ہوگی۔’
‘انہیں غلط طریقے سے نکالا گیا’
موہت کی مبینہ خودکشی کے بعد ان کی بیوی رنکی یادو نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کے شوہر کو غلط طریقے سے نوکری سے نکالا گیا تھا۔
انہوں نے اپنے شوہر کی باتوں کو دہراتے ہوئے کہا، ‘انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا تھا۔ انہوں نے بس کو نماز کے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے روکا تھا جو باتھ روم جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے[نماز پڑھنے والوں نے] اسی دو منٹ میں اپنی نماز مکمل کی۔ یہ صرف اتنی سی بات تھی۔’
اگرچہ خاندان نے ابھی تک پولیس میں کوئی شکایت درج نہیں کرائی ہے، لیکن رنکو کا کہنا ہے کہ یو پی ایس آر ٹی سی کے جس اسسٹنٹ ریجنل منیجر (بریلی) نے موہت کو برخاست کیا تھا، ان کو ان کے بھائی کی موت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔
رنکو نے کہا، ‘اپنی نوکری کھونے کے بعد موہت نے واپس نوکری حاصل کرنے کی بہت کوشش کی۔ متعلقہ افسر سے ملاقات کی، لیکن یقین دہانی کے باوجود نوکری نہیں ملی۔ ابھی تین دن پہلے وہ اسسٹنٹ ریجنل منیجر سے ملنے گئے تھے۔
موہت نے اپنے پیچھے کوئی خط یا سوسائیڈ نوٹ نہیں چھوڑا ہے۔ دوسری جانب پولیس نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تفصیلی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
دریں اثنا، ریاست کی اہم اپوزیشن سماج وادی پارٹی نے کہا ہے کہ وہ موہت یادو کے خاندان کو 2 لاکھ روپے کی امدادی رقم دے گی۔ پارٹی نے مطالبہ کیا کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت یادو کے خاندان کو 50 لاکھ روپے اور ان کے خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری دے ۔
ایس پی صدر اکھلیش یادو نے اس واقعہ کو ‘بدقسمتی، قابل مذمت اور شرمناک’ قرار دیا۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ‘یوپی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے دو ملازمین کو صرف اس لیے معطل کرنا کیسا انصاف ہے کہ انہوں نے کسی کی مذہبی عبادت کے لیے صرف دو منٹ کی تاخیر کی، اس ہراسانی سے دلبرداشتہ ہوکر ایک نے خودکشی کرلی۔
انہوں نے مزید کہا، ‘ہم آہنگی کے لیے مشہور اس ملک میں خیر سگالی کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بدقسمتی، قابل مذمت، شرمناک! اس حکومت سے متاثرہ خاندان کے لیے معاوضے کا مطالبہ اتر پردیش ٹرانسپورٹ کے ہر ملازم کو کرنا چاہیے۔ آج کسی اور کے ساتھ ہوا ہے، کل کسی اور کے ساتھ ہوگا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)