انگلینڈ کے لیڈر الیکشن ہارنے کے بعد سبکدوش ہو جاتے ہیں، آخر ہندوستانی سیاست کب بدلے گی کہ جو ہار جائے، وہ وداع ہوجائے اور اپنی پارٹی کے اندر سے نئی صلاحیتوں کو موقع دے۔
(بائیں) برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@10DowningStreet/السٹریشن : پری پلب چکرورتی/دی وائر)
برطانیہ میں انتخابی نتائج کے پہلے ہی دن کیئر اسٹارمروزیر اعظم بن گئے۔ رشی سنک نے ہارتے ہی
استعفیٰ دے دیا ۔ اسی دن کابینہ تشکیل دی گئی۔ اسی دن وزیر اعظم نے اپنی سرکاری رہائش گاہ 10، ڈاؤننگ اسٹریٹ کو خالی کر دیا۔
پارلیامانی تاریخ میں پارٹی کی بدترین انتخابی شکست کے بعد 44 سالہ رشی سنک نےاپنے جانشین کے انتخاب کے انتظامات ہونے تک کنزرویٹو پارٹی کے رہنما بنے رہنے کی بات کہی ہے، لیکن ان کا صاف کہنا ہے کہ اب وہ اس عہدے پر نہیں رہیں گے۔
الیکشن کی رات ہی نارتھ ویسٹ ایسیکس کے نومنتخب ایم پی کیمی باڈینوک نے کہا کہ کنزرویٹو پارٹی عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور پارٹی کو ایڈریس کرنے کے لیے ‘کچھ تکلیف دہ سوال’ پوچھنے ہوں گے۔
اگر ہم ہندوستانی سیاسی منظر نامے سے اس کا موازنہ کریں تو احساس ہوگا کہ آج بھی ہم جمہوریت نہیں ، جمہوریت کی چادر میں لپٹی بادشاہت کے مزہ لے رہے ہیں۔ کیا اس ملک میں حالیہ انتخابات کے بعد بی جے پی یا کانگریس کے اندر کسی نے ایسا سوال کیا؟ کیا بائیں بازو کی پارٹی کے اندر کسی نے ایسے سوال اٹھائے ہیں کہ قیادت کی تبدیلی ہونی چاہیے؟ یا کسی اور علاقائی یا بڑی یا چھوٹی پارٹی میں یہ سوال پوچھے گئے؟
سیاست کے خاندانی اور ذات پات کے کارپوریشنوں میں اس قسم کا امکان باقی نہیں رہتا۔
برطانیہ میں گیارہ سال وزیر اعظم رہنے والی مارگریٹ تھیچر کے بعد جان میجر سات سال تک وزیر اعظم رہے اور رخصت ہو گئے۔ ان کے بارے میں کہیں کوئی بحث نہیں ہے۔ وہ انتہائی لو پروفائل زندگی گزار رہے ہیں۔ تھیچر جہاں 65 سال کی عمر میں سبکدوش ہو گئی تھیں، میجر 54 سال کی عمر میں ریٹائر ہوگئے۔
وزیر اعظم کا عہدہ چھوٹنے کے بعد میجر نے اپنی سوانح عمری لکھی ہے۔ وہ کرکٹ پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ وہ کینسر کے متاثرین کے لیے چیریٹی کرتے ہیں۔ وہ صنعتکاروں کی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں لیڈر ریٹائر نہیں ہوتے۔ کئی بار وہ کر بھی دیے جاتے ہیں۔ لیکن کیا کسی نے اپنی مرضی، حالات یا پارٹیوں میں آئے نئے سینہ زور لیڈروں کی وجہ سے ریٹائر ہونے والے لوگوں کا سماجی زندگی میں کوئی حصہ دیکھا ہے؟ اکثر تو اسی وقت ریٹائر ہوتے ہیں جب ان کی تمام جسمانی طاقت ختم ہو جاتی ہیں۔
دس سال تک وزیر اعظم رہنے والے ٹونی بلیئر نے 54 سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور یورپی یونین کے لیے کام کیا۔ جے پی مورگن میں شمولیت اختیار کی۔ وہ ییل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
چند سال پہلے تک وہ دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اسپیکر تھے۔ وہ 90 منٹ کی تقریر کے لیے 2.5 لاکھ امریکی ڈالر وصول کر رہے تھے۔ یہ قیمت دو کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ ایک منٹ کی قیمت 2 لاکھ 31 ہزار روپے۔
وہ خیرات کرتے ہیں اور جس سیاست کو چھوڑ چکے، اس میں ہمارے لیڈروں کی طرح مداخلت نہیں کرتے۔
ٹونی بلیئر کے بعد گارڈن براؤن تین سال وزیر اعظم رہے۔ عہدہ چھوڑتے ہی وہ نہایت شائستگی کے ساتھ ارکان پارلیامنٹ کی سب سےپچھلی نشستوں پر بیٹھتے رہے۔ انسٹھ سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑنے کے بعد انہوں نے صرف 14 ہفتوں میں اپنے ملک کے مالیاتی بحران اور اس کے حل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک شاندار کتاب ‘
بیانڈ دی کریش‘ لکھی۔
وہ ورلڈ وائڈ ویب فاؤنڈیشن سے وابستہ رہے اور کئی یونیورسٹیاں انہیں اپنے طلباء کے لیے مسلسل مدعو کرتی رہیں۔ ‘م
ائی لائف، آور ٹائمز‘ 2017 میں ریلیز ہونے والی یادداشتوں کی ایک شاندار کتاب ہے۔
وہ دنیا کی فکر کرتے ہیں اور اسی حوالے سے ان کی کتاب کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آئی، ‘
چینج دی ورلڈ: ہاؤ ٹو فکس دی موسٹ پریسنگ پرابلمز وی فیس‘۔
وہ اس وقت برطانوی جمہوریت کو مزید ڈی سینٹرلائزڈ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ کام ابھی ابھی وزیر اعظم بنے کیئر اسٹارمر کے ساتھ سال 2022 میں شروع کر دیا تھا ۔ یہ اصلاحات آنے والے وقت میں ہاؤس آف لارڈز کے کام کاج میں نظر آنے کا امکان ہے۔
ڈیوڈ کیمرون چھ سال وزیر اعظم رہے اور بہت آسانی سے سنک کی کابینہ میں سکریٹری خارجہ بن گئے۔ وہ بھی کتابیں لکھ رہے ہیں، تقریریں کر رہے ہیں اور سیاست کے علاوہ وہ سب کچھ کر رہے ہیں، جو ہندوستانی سیاستداں کبھی نہیں کرتے۔ وہ ابوظہبی کے نیویارک یونیورسٹی میں سیاست کے کچھ خاص مضامین پڑھاتے ہیں۔ کیمرون نے 50 سال کی عمر میں عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
ٹریسا مے تین سال تک وزیراعظم رہیں۔ لیکن ساٹھ سال کی عمر میں یہ عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے دستیاب رہیں۔
ٹریسا کے بعد بورس جانسن تین سال تک وزیر اعظم رہے۔ وہ بیک بینچر بن کر رہے۔ ایک بار ان کی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم بنیں اور انہوں نے سو سے زائد اراکین پارلیامنٹ کی حمایت اکٹھی کی، لیکن ان میں ہمت نہیں پڑی کہ دوبارہ وزیر اعظم بننے کی کوشش کریں۔
بورس جانسن ڈیلی میل میں کالم بھی لکھنے لگے۔ انہوں نے بھی ساٹھ سال کی عمر میں وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔
لیکن برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کی ایک شاندار مثال ملاحظہ کیجیے۔
اس سال 2 مئی کو جب سابق وزیر اعظم جانسن میونسپل میئر کے انتخاب میں اپنا ووٹ ڈالنے گئے تو ساؤتھ آکسفورڈ شائر کے تین مقامی اور عام شہریوں نے انہیں اپنا ووٹر آئی ڈی دکھانے کو کہا۔ سابق وزیراعظم نے انہیں ایک رسالہ دکھایا۔ وہ نہیں مانے۔ اس پر مقامی پولیس اہلکاروں نے انہیں آئی ڈی کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ وہ واپس گئے اور اپنا ڈرائیونگ لائسنس پہچان کے طور پر لے کر آئے۔ اس کے بعد ہی انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔
جانسن نے خود ڈیلی میل کے کالم میں اس واقعے کا ذکر کیا۔ انہوں نے ان تینوں شہریوں کی دل کھول کر تعریف کی اور پولیس افسران کو شاباشی دی۔ کیا ہندوستانی سیاستدانوں میں قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں اور پولیس افسران کے لیے اتنی عاجزی اور احترام کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟
اگر جانسن ہندوستان میں ہوتے تو الیکشن کمیشن والے کوشش کرتے کہ ان کے گھر سے ہی ووٹ ڈلوا کر لے آیا جائے! اس طنزسے قطع نظر اگر حقیقت پر نظر ڈالی جائے تو شاید ہی کسی سابق ایم ایل اے کو اپنا شناختی کارڈ دکھانے کی ضرورت پڑتی ہو۔
اس دورمیں 49 سالہ لز ٹرس کو یہ عہدہ ملا، جو صرف 50 دن تک وزیر اعظم رہیں۔ انہیں اس مختصر دور کا بہت ملال رہا اور وہ کئی بڑی میٹنگوں میں اس کے لیے اپنے خلاف ہونے والی سازشوں کو مورد الزام ٹھہراتی رہیں۔
انہوں نے ‘
ٹین ایئرز ٹو سیو دی ویسٹ‘ نامی کتاب لکھی،جوبڑی مقبول ہوئی۔ اس الیکشن میں وہ ٹیری جیریمی سے ہار گئی ہیں۔
ان کے بعد 42 سالہ رشی سنک کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا۔ مسٹر سنک نے اپنی شکست کی خبر ملتے ہی 10، ڈاؤننگ اسٹریٹ کوخالی کر دیا۔ انہوں نے 10، ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دروازے پر ہی میڈیا کو بتایا کہ وہ پارٹی کے نئے سربراہ کے انتخاب تک اس عہدے پر فائز رہیں گے، تاہم اس کے بعد وہ فوری طور پر یہ عہدہ چھوڑ دیں گے اور پارٹی کے پارلیامانی گروپ کی سب سے پچھلی نشست سنبھالیں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برطانیہ کے تمام رہنما عظیم ہیں اور اخلاقیات کا دم دار ستارہ لیے گھوم رہے ہیں؛ لیکن وہاں عوامی شرمندگی کا لحاظ ہے اور لوگ قانون کو قانون سمجھتے ہیں۔
سنک کو دیکھیں اور ہمارے لیڈروں کو ۔ سنک کی عمر صرف 44 سال ہے۔ وہ راہل گاندھی سے دس سال اور نریندر مودی سے تیس سال چھوٹے ہیں اور سیاست سے ریٹائرمنٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ شاید وہ اگلے الیکشن میں اتریں ہی نہیں۔
یہی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد سنک نے نومنتخب وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان کی عظمت قابل رشک ہے۔
لیڈروں کے مسلسل سیاسی عہدوں پر بنے رہنے کے ضد کی وجہ سے ہندوستانی جمہوریت تعفن زدہ ہو گئی ہے۔
ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں چاہے وہ جنوب ہو، بائیں بازو کا، مشرقی ہو یا مغرب کا، سب کے سب کاٹھ کی ہنڈیا کو چولہے پرچڑھانے کی سیاست میں ملوث ہیں۔ یہاں کا کچھ طلسم بھی ایسا ہے کہ لوگ چولہے پرچڑھی کاٹھ کی ہانڈیوں میں اپنے لیے کچھ پکتا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں۔
آخر ہندوستانی سیاست کب بدلے گی اور لوگ کب یہ کہنا شروع کریں گے کہ جو ہار جائے، وہ وداع ہو جائے اور اپنی پارٹی کے اندر سے نئی صلاحیتوں کو موقع دے۔ اگر انگریز سے لڑنےکے لیے 17 سال کے لڑکے پھانسی پر جھول سکتے ہیں، تو کیا خطرناک اور عوام دشمن طاقتوں سے لڑنے کا ہنر رکھنے والے 141 کروڑ لوگوں میں نہیں سامنے آئیں گے؟
(تریبھون سینئر صحافی ہیں۔)