عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔
چند روز قبل صبح صبح میں ا پنے بیٹے کو بس اسٹاپ پر لے جاکر اسکول بس کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ہماری سوسائٹی میں رہنے والے دو مرد حضرات ،جو میری ہی طرح بچوں کو اسکول بس میں بٹھانے آئے تھے، نے یکساں سول کوڈ کا ذکر چھیڑ دیا۔ لگتا تھا کہ دونوں نے وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈ ی کی ہوئی تھی۔ سنی سنائی بغیر تحقیق کی باتوں پر یقین کرکے ان کو آگے بڑھا رہے تھے۔
وہ اس بات پر خوش تھے کہ چلو اب مسلم خواتین اپنے گھروں میں ہورہے ظلم ستم سے آزاد ہو جائیں گی۔
ایک حضرت تو کہہ رہے تھے کہ اگلے انتخابات کے لیے تو نریندر مودی جی نے مسلمان عورتوں کے ووٹ پکے کر لیے۔ اب ان کے مرد چاہے ان کو ووٹ دیں یا نہ دیں، سبھی مسلم عورتوں کے ووٹ تو مودی جی کے کھاتے میں چلے گئے۔
وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے اسکالر کو چھیڑنا ایسے ہی ہوتا ہے کہ جیسے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا۔ اسی لیے میں ان کی بات چیت میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔ مگر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میں نے ایک لاعلم گھریلو خاتون جیسا رویہ اختیار کرکے پوچھا کہ مسلمان اس قانون کی مخالفت کرتے ہیں تو ٹھیک ہے،سمجھ میں آتا ہے، مگر ان سکھوں اور قبائیلوں یعنی شیڈیولڈ ٹرائب کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں؟
میرے سوال کا کوئی معقول جوا ب دینے کے بجائے ان کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا۔ ایک نے دور کی کوڑی لاکر کہا کہ انہوں نے تو نہیں سنا کہ سکھ اور ہندو قبائلی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جب میں نے فون کھول کر ان کو خبر اور سکھ لیڈروں اور شمال–مشرقی علاقوں کے خود حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے بیانات دکھائے، تو ان کے منہ سے بس اتنا نکلا،’لگتا ہے کہ ان کو کوئی گمرا ہ کر رہا ہے۔’
اسی دوران بس آگئی اور بچے اسکول چلے گئے۔ مگر ان دونوں اسکالرز کو جیسے چپ لگی تھی۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی غیر مسلم بھی یکساں سول کوڈ کا مخالف ہو سکتا ہے۔
ویسے یہ صرف ان کا قصور نہیں تھا۔ عوام کی غالب اکثریت اس یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ اس قانون کے عمل میں آنے سے ہندو مشترکہ خاندان کا قانون بھی ختم ہو جائےگا، جس کی رو سے ان کو انکم ٹیکس وغیرہ میں بھاری چھوٹ ملتی ہے۔
پھر یہ خدشہ بھی بجا ہے کہ یکساں سول کوڈ کی آڑ میں یہ بھی بتایا جائےگا کہ اب شادی کے وقت نکاح یا دیگر اقوام کی رسوم کے بجائے بس ہندو طریقے کے آگ کے ارد گرد سات پھیرے لگانے سے ہی شادی کو تسلیم کیا جائے گا ۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پرتو نہیں تھوپا جائےگا۔
ہندوستان میں سکھ مسلمانوں کے بعد دسری سب سے بڑی اقلیت ہے۔ شادی بیاہ، وراثت و دیگر سول قوانین ان کے ہاں بھی ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ سکھ آنند ایکٹ کے تحت شادیاں کرتے ہیں، جو ہندو میرج ایکٹ سے بالکل مختلف ہے۔
ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پچھلے ایک سو سالوں سے بھر پور کوششیں کر رہی ہے کہ کسی طرح سکھ ہندو کوڈ میں ضم ہو کر ہندو ازم کا ہی حصہ بن جائیں۔ مگر ابھی تک وہ اس مشن میں ناکام ہوئی ہے۔
اسی طرح چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور اڑیسہ میں رہنے والے قبائیلیوں کے الگ الگ رسو م ر رواج ہیں۔ ہندوستان کے شمال–مشرق میں گارو اور خاصی قبائل کے بھی وراثت اور شادی کے اپنے طور طریقے ہیں۔ ان معاشروں میں تو عورت خاندان کی سربراہ ہوتی ہے اور جائیداد کی وارث خاندان کی عورت ہوتی ہے۔ ناگالینڈ میں تو عورت ہی بارات لےکر مرد کو اپنے گھر لے کر آتی ہے۔ وہاں بھی وراثت عورت سے ہی چلتی ہے۔ کیا یکساں سول کوڈ سے ان علاقوں کی بااختیار خواتین سے اب اختیارات چھینے جائیں گے۔
مغربی صوبہ گوا میں پرتگالی نسل کے رہنے والے پرتگالی سول قانون کی رو سے صدیوں سے اپنی سماجی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بھی اب اس نئے قضیہ سے خوف زدہ ہیں۔ خود 2018میں لاء کمیشن آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ چونکہ ہندوستان مختلف فرقوں، مذاہب اور زبانوں کا ملک ہے، اس لیے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا پیچیدہ عمل ہوگا۔ اس لیے اس کا نفاذ ضروری ہے نہ مطلوب ہے۔ اس کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فرقے اپنے عائلی قوانین میں خواتین کو بااختیار بنانے کی سعی کریں اور اس سلسلے میں قوانین، رسوم و رواج میں ترمیم کریں۔
تاہم یکساں سول کوڈ کو پورے ملک میں لاگو کروانا آرایس ایس کا دیرینہ ایجنڈہ رہا ہے۔ جب 1953 میں ہندو کوڈ بل پاس ہوا، اس وقت سے ہی آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور دیگر دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں یکساں سول کوڈ کا ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ ہندو کوڈ بل نے نہ صرف ہندو خواتین کو اپنے شوہر سے طلاق لینے کا حق دیا، بلکہ عورتوں کوجائیداد میں وراثت کا حق بھی فراہم کردیا۔ ورنہ تو قدیم ہندو دھرم میں عورت کی حیثیت ایک بے زبان جائیداد جیسی ہوتی تھی۔
ہندو دھرم میں طلاق نام کا کوئی لفظ نہں ہوتا تھا۔ شادی ایک مقدس جنم جنم بندھن مانا جاتا تھا، جس کو آگ ہی الگ کر سکتی تھی۔ یعنی مرنے کے بعد چتا میں آگ لگانے سے ہی مرد اور عورت الگ ہو سکتے ہیں۔ ایک صدی قبل تو چتا بھی الگ نہیں کرتی تھی، ستی کی رسم نبھاتے ہوئے بیوی بھی شوہر کی موت کے بعد زندہ ہی اسی کی چتا پر جل کر اسی کے ساتھ راکھ ہو جاتی تھی۔
سینٹر فار سٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے پروفیسر ہلال احمد کہتے ہیں،’اونچی ذات کا ہندو معاشرہ جو کہ عموماً پدرانہ نوعیت کا ہے، کو اس قانون کے تحت عورتوں کو حقوق دینے پر مجبورکیا گیا تھا۔ اس ہندو برادری کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح کا قانون صرف ان ہی کے اوپر لاگو کیوں ہے، جبکہ مسلم برادری پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔’
نریندر مودی حکومت کے لیے عوام پر اپنا فیصلہ زبردستی مسلط کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، پھر چاہے وہ شہریت ترمیمی قانون ہو یا جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی تنسیخی کا معاملہ ہو۔ ان تمام معاملات میں زیادہ تر ہندوستان کے مسلمان ہی متاثر ہو رہے تھے۔ لیکن یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ وار تو مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرکے کیا گیا، مگر اس کی زد میں سکھ، قبائلی برادری، عیسائی اور ان گنت فرقے آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ابھی تک حکومت یکساں سول کوڈ کا کوئی مسودہ پیش نہیں کر پا رہی ہے۔
بس وہاٹس ایپ یونیورسٹیوں سے ایک بھرم پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو کنٹرول کرنا اور ان کی خواتین کو ان کے مردوں کے شر سے آزاد کرنے کا بیڑا مودی جی نے اٹھایا ہے۔ اب وہ سکھوں اور دیگر فرقوں کو اس یکساں سول کوڈ میں کیسے شامل کرتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)