غیر مسلم بھی یکساں سول کوڈ کے مخالف …

عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔

عوام کی غالب اکثریت یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پر تو نہیں تھوپا جائے گا۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

چند روز قبل صبح صبح میں ا پنے بیٹے کو بس اسٹاپ پر لے جاکر اسکول بس کا انتظار ہی کر رہی تھی کہ ہماری سوسائٹی میں رہنے والے دو مرد حضرات ،جو میری ہی طرح بچوں کو اسکول بس میں بٹھانے آئے تھے، نے یکساں سول کوڈ کا ذکر چھیڑ دیا۔ لگتا تھا کہ دونوں نے وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈ ی کی ہوئی تھی۔ سنی سنائی بغیر تحقیق کی باتوں پر یقین کرکے ان کو آگے بڑھا رہے تھے۔

وہ اس بات پر خوش تھے کہ چلو اب مسلم خواتین اپنے گھروں میں ہورہے ظلم ستم سے آزاد ہو جائیں گی۔

ایک حضرت تو کہہ رہے تھے کہ اگلے انتخابات کے لیے تو نریندر مودی جی نے  مسلمان عورتوں کے ووٹ پکے کر لیے۔ اب ان کے مرد چاہے ان کو ووٹ دیں یا نہ دیں، سبھی مسلم عورتوں کے ووٹ تو مودی جی کے کھاتے میں چلے گئے۔

وہاٹس ایپ یونیورسٹی کے اسکالر کو چھیڑنا ایسے ہی ہوتا ہے کہ جیسے بھڑ کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا۔ اسی لیے میں ان کی بات چیت میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔ مگر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ میں نے ایک لاعلم گھریلو خاتون  جیسا رویہ اختیار کرکے پوچھا کہ مسلمان  اس قانون کی مخالفت کرتے ہیں تو ٹھیک ہے،سمجھ میں آتا ہے، مگر ان سکھوں اور قبائیلوں یعنی شیڈیولڈ ٹرائب کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں؟

میرے سوال کا کوئی معقول جوا ب دینے کے بجائے ان کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا۔ ایک نے دور کی کوڑی لاکر کہا کہ انہوں نے تو نہیں سنا کہ سکھ اور ہندو قبائلی اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جب میں نے فون کھول کر ان کو خبر اور سکھ لیڈروں اور شمال–مشرقی علاقوں کے خود حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے بیانات دکھائے، تو ان کے منہ سے بس اتنا نکلا،’لگتا ہے کہ ان کو کوئی گمرا ہ کر رہا ہے۔’

اسی دوران بس آگئی اور بچے اسکول چلے گئے۔ مگر ان دونوں اسکالرز کو جیسے چپ لگی تھی۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی غیر مسلم بھی یکساں سول کوڈ کا مخالف ہو سکتا ہے۔

ویسے یہ صرف ان کا قصور نہیں تھا۔ عوام کی غالب اکثریت اس یکساں سول کوڈ کو مسلمانوں کے نظریے سے دیکھتی ہے۔ ان کو نہیں معلوم کہ دیگر فرقے بھی اس کے مخالف ہیں۔ ان کو نہیں معلوم کہ اس قانون کے عمل میں آنے سے ہندو مشترکہ خاندان کا قانون بھی ختم ہو جائےگا، جس کی رو سے ان کو انکم ٹیکس وغیرہ میں بھاری چھوٹ ملتی ہے۔

پھر یہ خدشہ بھی بجا ہے کہ یکساں سول کوڈ کی آڑ میں یہ بھی بتایا جائےگا کہ اب شادی کے وقت نکاح یا دیگر اقوام کی رسوم کے بجائے بس ہندو طریقے کے آگ کے ارد گرد سات پھیرے لگانے سے ہی شادی کو تسلیم کیا جائے گا ۔ یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں اس کی آڑ میں ہندو کوڈ یا ہندو رسوم و رواج کو دیگر اقوام پرتو نہیں تھوپا جائےگا۔

ہندوستان میں سکھ مسلمانوں کے بعد دسری سب سے بڑی اقلیت ہے۔ شادی بیاہ، وراثت و دیگر سول قوانین ان کے ہاں بھی ہندوؤں سے مختلف ہیں۔ سکھ آنند ایکٹ کے تحت شادیاں کرتے ہیں، جو ہندو میرج ایکٹ سے بالکل مختلف ہے۔

ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پچھلے ایک سو سالوں سے بھر پور کوششیں کر رہی ہے کہ کسی طرح سکھ ہندو کوڈ میں ضم ہو کر ہندو ازم کا ہی حصہ بن جائیں۔ مگر ابھی تک وہ اس مشن میں ناکام ہوئی ہے۔

اسی طرح چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور اڑیسہ میں رہنے والے قبائیلیوں کے الگ الگ رسو م ر رواج ہیں۔ ہندوستان  کے شمال–مشرق میں گارو اور خاصی قبائل کے بھی وراثت اور شادی کے اپنے طور طریقے ہیں۔ ان معاشروں میں تو عورت خاندان کی سربراہ ہوتی ہے اور جائیداد کی وارث خاندان کی عورت ہوتی ہے۔ ناگالینڈ میں تو عورت ہی بارات لےکر مرد کو اپنے گھر لے کر آتی ہے۔ وہاں بھی وراثت عورت سے ہی چلتی ہے۔ کیا یکساں سول کوڈ سے ان علاقوں کی بااختیار خواتین سے  اب اختیارات چھینے جائیں گے۔

مغربی صوبہ گوا میں پرتگالی نسل کے رہنے والے پرتگالی سول قانون کی رو سے صدیوں سے اپنی سماجی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بھی اب اس نئے قضیہ سے خوف زدہ ہیں۔ خود 2018میں لاء کمیشن آف انڈیا نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ چونکہ ہندوستان مختلف فرقوں، مذاہب اور زبانوں کا ملک ہے، اس لیے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا پیچیدہ عمل ہوگا۔ اس لیے اس کا نفاذ ضروری ہے نہ مطلوب ہے۔ اس کے مطابق ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فرقے اپنے عائلی قوانین میں خواتین کو بااختیار بنانے کی سعی کریں اور اس سلسلے میں قوانین، رسوم و رواج میں ترمیم کریں۔

تاہم یکساں سول کوڈ کو پورے ملک میں لاگو کروانا آرایس ایس کا دیرینہ ایجنڈہ  رہا ہے۔ جب 1953 میں ہندو کوڈ بل پاس ہوا، اس وقت سے ہی آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور دیگر دائیں بازو کی ہندو تنظیمیں یکساں سول کوڈ کا ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ ہندو کوڈ بل نے نہ صرف  ہندو خواتین کو اپنے شوہر سے طلاق لینے کا حق دیا، بلکہ عورتوں کوجائیداد  میں وراثت کا حق بھی فراہم کردیا۔ ورنہ تو قدیم ہندو دھرم میں عورت کی حیثیت ایک بے زبان جائیداد جیسی ہوتی تھی۔

ہندو دھرم میں طلاق نام کا کوئی لفظ نہں ہوتا تھا۔ شادی ایک مقدس جنم جنم  بندھن مانا جاتا تھا، جس کو آگ ہی الگ کر سکتی تھی۔ یعنی مرنے کے بعد چتا میں آگ لگانے سے ہی  مرد اور عورت الگ ہو سکتے ہیں۔ ایک صدی قبل تو چتا بھی الگ نہیں کرتی تھی، ستی کی رسم نبھاتے ہوئے بیوی بھی شوہر کی موت کے بعد زندہ ہی اسی کی چتا پر جل کر اسی کے ساتھ راکھ ہو جاتی تھی۔

سینٹر فار سٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے پروفیسر ہلال احمد کہتے ہیں،’اونچی ذات کا ہندو معاشرہ جو کہ عموماً پدرانہ نوعیت کا ہے، کو اس قانون کے تحت عورتوں کو حقوق دینے پر مجبورکیا گیا تھا۔ اس ہندو برادری کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس طرح کا قانون صرف ان ہی کے اوپر لاگو کیوں ہے، جبکہ مسلم برادری پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔’

نریندر مودی حکومت کے لیے عوام پر اپنا فیصلہ زبردستی مسلط کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے، پھر چاہے وہ شہریت ترمیمی قانون ہو یا جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کی تنسیخی کا معاملہ ہو۔ ان تمام معاملات میں زیادہ تر ہندوستان  کے مسلمان ہی متاثر ہو رہے تھے۔ لیکن یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ وار تو مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرکے کیا گیا، مگر اس کی زد میں سکھ، قبائلی برادری، عیسائی اور ان گنت فرقے آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ابھی تک حکومت یکساں سول کوڈ کا کوئی مسودہ پیش نہیں کر پا رہی ہے۔

بس وہاٹس ایپ یونیورسٹیوں سے ایک بھرم پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو کنٹرول کرنا اور ان کی خواتین کو ان کے مردوں کے شر سے آزاد کرنے کا بیڑا مودی جی نے اٹھایا ہے۔ اب وہ سکھوں اور دیگر فرقوں کو اس یکساں سول  کوڈ  میں کیسے شامل کرتے ہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔ مگر یہ بات تو طے ہے کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)

Next Article

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

Next Article

بانو مشتاق کو کیوں پڑھیں؟

بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

بانو مشتاق، فوٹو: پی ٹی آئی

ممتازادیبہ اور مترجم ارجمند آرا نے جہاں بخوبی یہ استدلال کیا ہے کہ بانو مشتاق کو کیوں پڑھا جانا چاہیے، وہیں انہوں نے بانو کی ایک کہانی ‘فائر رین’ میں تخلیقیت پر اصرار کرتے ہوئے بے حد خوبصورت ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔

امید ہے قارئین کو ہماری یہ پیش کش پسند آئے گی۔(ادارہ)

میں ان دنوں بانو مشتاق اور دیپک شرما کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی  کوئی کہانی انگریزی ترجمے کی مدد سے پڑھ لیتی ہوں، اور کبھی ہندی ادیبہ دیپک شرما کی کہانی ہندی میں۔ اس طرح ادل بدل کر، کوئی آٹھ آٹھ کہانیاں دونوں کی ابھی تک پڑھی ہیں۔ بانو مشتاق، بکر نام کی جادو کی چھڑی کے سبب، کنڑ علاقے سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اچانک ظہور پذیر ہوئی ہیں جبکہ دیپک شرما کو ہندی کی دنیا سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ہو سکتا ہے وہ ہندی کی بھی کچھ زیادہ معروف ادیبہ نہ ہوں۔

کہانی کو ہم آج جن معیاروں پر پرکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً انعام یافتہ کہانیوں کو، تو اس کسوٹی پر پرکھنے سے یہ تحریریں مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کر رہی ہیں، لیکن کیا کروں، یہ واپس شیلف میں جانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کچھ تو بات ہے کہ دونوں کا ذکر  ایک ساتھ کر رہی ہوں۔ کچھ تو  دونوں میں مشترک ہے جو ٹھہر کر، سنجیدگی سے غور کرنے پر اکسا رہا ہے!

اس ’کچھ‘ کا تعلق یقیناً افسانہ نگاری کے لوازم سے، فصاحتِ زبان و بیان سے، اسلوب اور تکنیک کے تجربوں وغیرہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان خوبیوں کو تلاش کرنے والا میرے اندر کا نام نہاد ’تربیت یافتہ قاری‘ مجھے بار بار کچوکے لگا رہا ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہے جس سے محظوظ ہوا جائے، رکھ دو بس۔

لیکن میرے اندر کی غیر تربیت یافتہ، غیر روایتی عورت مجھے سمجھا رہی ہےکہ ان عورتوں کی تحریریں کیا تم بھی نظرانداز کروگی؟ ان دانشور (مرد حضرات) کی طرح جو بنیادی سماجی رشتوں کو، ان کی پیچیدگیوں اور ان میں مضمر تشدد اور ناانصافیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے؟ ان نام نہاد دانشور نقادوں کی نقل میں جو ان پر بات کرنا، ان پر لکھنا، ان پر لکھے کو پڑھنا تک تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں؟

تو بس یہی بات ہے کہ یہ خواتین شیلف پر جانے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ سماجی رشتوں کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھ رہی ہیں، خواہ ان کے موضوعات گھسے پٹے ہی کیوں نہ کہلائیں۔ نادر قسم کی، اَن چھوئی، نئی اپج کی حامل، انسائیکلوپیڈک علمیت کی پریڈ کراتی، جادوئی حقیقت نگاری اور پوسٹ ٹُروتھ تجربوں کی حامل کہانیوں سے بے شک انھیں کوئی مَس نہ ہو (جس کی تلاش میں بانو مشتاق کو تجسس سے پڑھنا شروع کرنے والا قاری بری طرح مایوس ہوا ہے، یہ سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں سے مجھے اندازہ ہو چکا ہے)، لیکن کہانی کیا ہم محض اسی نئے پن اور تجربوں کی تلاش میں پڑھتے ہیں؟

اس طرح تو ہم پریم چند کو، اور منٹو کو بھی، جلد ہی ماضی کی کباڑ کوٹھری میں ڈال کر بھول جائیں گے۔

 لیکن لوگ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معاشرے کی ہر نئی پود میں تالستائی، دوستوئفسکی اور چیخوف سے لےکر شرت چند، ٹیگور، ویکوم محمد بشیر، پریم چند، عصمت، بیدی اور منٹو کو قاری ملتے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہ ادیب انسانی سماج، اس سماج میں موجود رشتوں کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کے نباض ہیں؛ اور جب تک انسان کی وہ سرشت باقی ہے (جو باقی رہے گی بھی) جس کی کہانیاں یہ ادیب بیان کرتے رہے ہیں، ان کو قارئین بھی ملتے رہیں گے۔

چنانچہ بانو مشتاق اور دیپک شرما جیسی ادیبوں کو بھی کیوں نہ پڑھا جائے جو بھلے ہی مذکورہ بالا عظیم مصنفین کی صف میں شامل نہیں، لیکن انہی کی طرح ایسے موضوعات پر لکھتی ہیں جو فرسودہ اور گھسے پٹے سہی لیکن مطلق الوجود اور قدیمی ہیں— سورج اور ہوا کی مانند، جو محض اپنی ہمہ گیر موجودگی سے اور بے طلب حاصل ہونے کے سبب کسی کی نظروں میں نہیں سماتے۔

لیکن ایک بات اور بھی ہے، جو غور طلب ہے۔ یہ خواتین رشتوں کی ان پیچیدگیوں کو، جو اپنی ہرجا اور ہمہ گیر موجودگی کے سبب نظروں میں نہیں سماتیں، کس زاویے یا کن زاویوں سے نمایاں کر رہی ہیں؟

اردو میں خواتین کی تحریروں پر اگر پیچھے مڑ کر نظر ڈالیں تو فکشن کی خاتونِ اوّل رشید النساء (’اصلاح النسا‘ 1883) سے لے کر محمدی بیگم، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور  قرۃ العین حیدر تک کی تحریروں کے مرکز میں آخر عورتیں ہی کیوں ہیں؟

کیا ان کے سوال، عورتوں کی ماہواری کی طرح،  خالص زنانے سوال ہیں جن پر مردوں کو سوچنے اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ صرف اصلاحِ نسواں اور آگے چل کر تانیثی، یعنی حقوقِ نسواں کے سوال اٹھا رہی ہیں؟

اگر ہمارے ادیب، نقاد اور قاری ایسا سمجھتے ہیں تو پھر اصل مسئلہ عورتوں کی تحریروں کے موضوعات کے خالص زنانہ ہونے کا نہیں بلکہ مردانہ کوتاہ نظری اور احمق پن کا ہے کہ انھیں ماہواری کے مسائل میں اپنی نسلوں کے مستقبل کا مسئلہ نظر نہیں آتا، حالانکہ قوتِ مردانگی بڑھانے والے اشتہاروں کی دیواروں، اخباروں اور دیگر ترسیلی ذرائع پر ہمہ وقت اور ہمہ گیر موجودگی میں پورے مرد معاشرے کی پدرشاہی نفسیات بھی خود کو مشتہر کرتی رہتی ہے اور اپنی نسلوں کی بقا کی تشویش بھی۔ پھر وہ عورتوں کی صحت (جسمانی، سماجی، نفسیاتی، تہذیبی) کے سوالوں سے بدکتے کیوں ہیں؟

کبھی غور کیا ہے کہ رشتوں کی بنیادی پیچیدگیوں، ان میں پوشیدہ بے انصافیوں اور تشدد نے، اس نفسیاتی اور ذہنی کرب نے جو عورتوں کی مجموعی اور عمومی ماتحتی سے پیدا ہوا ہے،  خود مردوں کی دنیا اور نفسیات میں کیا گل کھلائے ہیں؟ آخر ان سوالوں کو مخاطب کیے بغیر وہ ایک مثالی گھر اور بستی، مثالی سماج اور سماجی ادارے، سیاسی اور اقتصادی اداروں کو کیسے وجود میں لا سکتے ہیں جو اُن کے اجارے ہیں؟

عورتوں کی تحریروں یا ان کے موضوعات کو ناقابلِ اعتنا اور غیر معیاری گرداننے پر یاد آیا کہ جب دلت ادب منظرِ عام پر آنا شروع ہوا تھا، خاص طور سے آپ بیتیوں کی شکل میں، تو ہندی جگت میں طویل بحث چھڑی تھی (گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں)، اور ہندی کے کئی بڑے نقادوں نے ان تحریروں کو ادب کی صفوں سے خارج کیا تھا—اور ستم ظریفی یہ کہ اعلیٰ ذاتوں والے ادیبوں کے قائم کردہ ادبی معیاروں پر پرکھ کر خارج کیا تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ معیار دلتوں نے طے نہیں کیے تھے، انھوں نے تو ابھی لکھنا شروع ہی کیا تھا، اور ان کے ادب کی معیار بندی اور اصولِ نقد کی کوئی شکل ابھرنے میں ابھی وقت تھا۔ ایک مختلف معاشرت و تہذیب کے اصولوں پر انھیں پرکھنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی کرکٹ کے اصول ٹینس یا فٹ بال کے کھلاڑیوں پر تھوپے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کن بحث تھی جس کا اصل مقصد دلتوں کو اسی احساسِ کمتری اور احساسِ محکومیت میں مبتلا رکھنا تھا جس میں انھیں ہزاروں سال سے گرفتار رکھا گیا ہے۔

میرے خیال میں بالادست اور پدرسری معاشرہ یہی سلوک عورتوں کی تحریروں کے ساتھ بھی کرتا رہا ہے۔ اور کر رہا ہے۔


بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں کہ ان کی کہانیاں ’معمولی‘ ہیں، یا ان معمولی موضوعات اور واقعات پر مرکوز ہیں جو ہمارے ارد گرد ہمہ وقت موجود ہیں، بلکہ اتنے زیادہ موجود ہیں کہ قابلِ اعتنا نہیں ٹھہرتے۔

میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

کسی نقاد نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ محلے میں مسجد کے متولی کی مقتدر حیثیت، اس کے ذریعے شریعت کی عورت مخالف تعبیر، حقِ وراثت اور موروثی جائیداد میں عورت کے حصے کے مسائل کسی حاشیے کے نہیں بلکہ معاشرے کے مرکزی سوال ہیں جن پر بات کرنے کے بجائے بانو مشتاق کے معمولی افسانہ نگار ہونے پر بحث کی جا رہی ہے۔


Heart Lamp: Selected Stories
Penguin, 2025

اسی صورتِحال نے مجبور کیا کہ بانو مشتاق کی کچھ کہانیاں ضرور ترجمہ کروں، اس توقع کے ساتھ کہ انھیں پڑھ کر اردو کے قارئین بھی ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں گے جن کو وہ نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔

بے شک وہ کنڑ زبان میں کنڑ علاقے کی کہانیاں بیان کرتی ہیں لیکن ان کا اطلاق سارے برصغیر پر، اور خصوصاً برِ صغیر کے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں غورو فکر پر مجبور کریں گی، قدرے حساس اور عقلمند، اور نسبتاً بہتر انسان بننے پر مائل کریں گی۔

آخر میں واضح کرنا چاہوں گی کہ بانو مشتاق کو پڑھنے کی ضرورت میرے نزدیک ادبی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ وہ جن مسائل کو اٹھاتی ہیں، جن پر بولنا اور لکھنا ضروری سمجھتی ہیں وہ مسائل اہم ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی نمائندگی کرنے والے اردو اخبارات و رسائل ان مسائل پر کبھی کوئی فکر انگیز یا معمولی مضمون بھی نہیں چھاپتے۔

یعنی ایک بلیک ہول ہے جس میں مسلمانوں کے طرز معاشرت سے وابستہ ہر مسئلہ سماتا جاتا ہے اور اس کا وجود عنقا تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں بانو مشتاق کا دم غنیمت ہے کہ وہ بعض مسائل کو اہمیت دے رہی ہیں۔

اور آخری بات یہ، بلکہ پہلی بات یہیں سے شروع ہونی چاہیے تھی، کہ ترجمہ کا بُکر عموماً ناول پر دیا جاتا ہے، کسی افسانوی مجموعے کو پہلی بار دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سپاٹ بیانیے پر مبنی، ان عام سی کہانیوں کو آخر کیوں منتخب کیا گیا؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہم سرسری نگاہ میں بھانپ لیتے ہیں کہ انگریزی ترجمہ زبان کے اعتبار سے خاصا معمولی اور ناقص ہے۔ پھر وہ کون سے پیمانے رہے ہوں گے کہ کہانیوں کو بھی بہترین سمجھا گیا اور ترجمے کو بھی ۔

اس کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو کتابیں بکر انعام کے لیے فراہم ہوئیں سب غیر معیاری تھیں، جن میں سے بہترین کو چن لیا گیا۔ دوسری یہ ہو سکتی ہے کہ اچھی کہانیوں کے دن لد گئے اور عالمی ادب بحران کے دور میں ہے۔ دونوں ہی دلیلیں خود میرے لیے بھی بودی اور ناقابلِ قبول ہیں۔

تب سوال رہ جاتا ہے کہ بُکر کی کوئی ایسی پالیسی ہے جسے ہم جانتے تو نہیں لیکن اس پر قیاس آرائی ضرور کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات حتمی طور پر جانتے ہیں کہ بکر انعام صرف انگلینڈ یا آئرلینڈ سے شائع ہونے والی کتابوں پر ملتا ہے۔ چنانچہ ایک بات تو  طے ہو گئی کہ مسابقت میں شریک ہونے والے ادیب منصوبہ بندی کرکے وہاں سے کتاب شائع کرائیں انھیں میں سے کسی کو انعام ملے گا،  ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ مسابقت کا دائرہ عالمی نہیں رہ گیا، اور نام میں عالمی ہوتے ہوئے بھی یہ کسی طرح عالمی ایوارڈ نہیں ہے، البتہ عالمی سطح پر معتبر ضرور ہے۔

قیاس آرائی اس نکتے پر کی جا سکتی ہے کہ  اس کا ایک مقصد شاید کم معروف زبانوں اور خطّوں کے ادب کی حوصلہ افزائی کرنا، یا مخصوص فرقوں اور گروہوں کے طرزِ زندگی اور مسائل پر مبنی ادب کو روشنی میں لانا وغیرہ ہو۔

ایک  اور وجہ کتابوں کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قارئین کے نئے گروہوں کی تلاش بھی  ہو سکتی ہے۔ جس طرح ایک زمانے میں عالمی حسن کے مقابلوں میں ہندوستان کو لگاتار سبقت ملتی رہی (ظاہر ہے ان کا مقصد واضح طور پر فیشن پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے نئے  نئےعلاقوں تک پہنچنا ہوتا ہے)، اسی طرح انگریزی کتابوں کی عالمی صنعت میں ہندوستان  ایک بڑا بازار تصور کیا جاتا ہے۔

غالباً اسی لیے بہت کم عرصے میں دو دو بکر ہندوستان کے حصے میں آ گئے۔ یہ بات دوسری ہے کہ سوال گیتانجلی شری کے ناول ریت سمادھی کے معیار پر بھی اٹھے تھے اور بانو مشتاق کے تخلیقی جوہر پر بھی اٹھ رہے ہیں۔

♦♦♦

بہرحال، معیار کے تنازعات سے قطع نظر بانو مشتاق کی ایک کہانی ’رین فائر‘ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے جس کا موضوع بھی دلچسپ ہے اور اس میں تخلیقیت بھی ہے۔

اس کہانی میں موروثی جائیداد میں بہنوں کے حصہ کے سوال کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حصہ نہ دینے والا ایک متولی ہے، جس کو مرکزی کردار بنانا، ہماری معاشرتی تنگ نظری کے باعث، کم حوصلے کی بات نہیں۔

یاد کیجیے بدنامِ زمانہ خواتین رشید جہاں ’انگارے والی‘ اور عصمت چغتائی ’لحاف والی‘ کو، سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے ان افسانوں کو جن کے ناگفتنی موضوعات پر لکھے افسانوں کے سبب ’انگارے‘ پر پابندی لگی، نیز یاد کیجیے سلام بن رزاق کے افسانے (زندگی افسانہ نہیں) کو جس میں اپنے خاندان کی پرورش اور دیگر ذمہ داریوں سے پہلو بچاکر تبلیغی جماعت میں چلے جانے والا کردار تخلیق کرنے کی پاداش میں انھیں حقیقی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پبلشر، ’نیا ورق‘ کے مدیر ساجد رشید کو بھی۔

سوشل بائیکاٹ  بانو مشتاق کا بھی ہوا اور وہ بھی معتوبین کی لیگ میں شامل ہوئیں، جیسا کہ وہ خود اپنے کسی انٹرویو میں بتاتی ہیں۔ ایکٹوسٹ ہونا اور اپنی تحریروں سے بھی سماجی تبدیلی کا کام لینا، سمجھ میں نہ آنے والے تجریدی تجربوں کے طوطا مینا بنانے سے بہتر کام ہے۔ ان جیسے باحوصلہ اور باضمیر ادیب سماجی مسائل پر لکھتے رہیں، یہ بھی ایک کارِ خیر ہے تاکہ معاشرہ ان مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہو۔


انگار کا مینہ

(دیپا بھاستی کے انگریزی ترجمے فائر رین پر مبنی)

فجر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی، متولی عثمان صاحب اپنے بستر پر اٹھ بیٹھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کی بیوی عارفہ ان کے پہلو میں نہیں ہے،  وہ کمرے سے نکل کر ہال کمرے میں آئے اور دیکھا کہ وہ اور ان کا بیٹا انصار گہری نیند میں قالین پر پڑے ہیں۔ ایک سرسری نظر نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ تین سال کے بچے کی سانسیں ناہموار ہیں۔ اس کی پیشانی پر رکھی گیلی پٹّی، بکھرے برتن—دودھ کی بوتل، کپ،  چمچ، پانی کا جگ اور گرم پانی کا فلاسک — دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔

عارفہ یقیناً ساری رات جاگتی رہی تھی اور تھکن سے چور اپنے بستر پر نہیں، بلکہ اس ہال میں تھی اور اب بے خبر سوئی پڑی تھی۔ انھیں اپنے سینے میں احساسِ جرم کا خنجر اترتا محسوس ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے یاد آیا کہ ان کی چھوٹی بہن جمیلہ اور اس کا شوہر برابر والے کمرے میں سوئے ہوئے ہیں،  اور وہ بے چین ہو اٹھے۔ پہلے خیال آیا کہ عارفہ کو کمبل اڑھا دیں لیکن پھر جمیلہ کے شوہر کا خیال کر کے ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور بدن میں اینٹھن ہونے لگی۔ انہوں نے جھنجھوڑ کر عارفہ کو جگایا۔ وہ اپنی تھکن کے باعث گہری نیند سے فوراً بیدار نہیں ہوئی، جس سے متولی صاحب کا پارہ چڑھنے لگا۔

چھوٹا سا ایک گیت جو ایک فقیر گایا کرتا تھا، ان کے ذہن میں گونجنے لگا۔

ہاندی اینڈیکے ہیگلی یووے

مناڈَلّی ہاندی، مَنے یَلّی ہاندی

مائی یَلّی ہاندی ہوتتا وانےـــ

سور کا گوشت حرام ہے۔ اسی کی مانند غصہ بھی۔ متّقی مسلمان یہ مانتے ہیں کہ اگر سور پر نظر بھی پڑ جائے تو آدمی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اس گیت میں اس غصے کو، جو انسان کے قلب و قالب اور گھر میں سرایت کر جاتا ہے، سور کے مساوی بتایا گیا ہے۔ متولی نے بھی گیت کو بار ہا گنگنایا تھا۔ لیکن یہ وہ صبح تھی کہ ان کے نامعقول غصے کے آگے گیت بھی چمپت ہو گیا۔ اضطراب کے عالم میں انہوں نے ادھر ادھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور پھر اچانک گویا عرفان ہوا  ہو، انہوں نے عارفہ کی ٹانگوں پر زور سے ٹھوکر ماری۔ وہ معاً  اٹھ بیٹھی۔

’’تم اندر نہیں سو سکتیں‘‘، انہوں نے کرخت آواز میں کہا، اور جواب کا انتظار کیے بغیر باہر نکل گئے۔

مسجد ان کے گھر سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے، لمبے لمبے ڈگ بھر کر صبح کی دُھند کے  پردے کو چاک کرتے ہوئے۔ ان کا جسم گو کہ مسجد کی جانب بڑھ رہا تھا، تاہم ذہن مستقل پیچھے کی طرف، گھر کی جانب بھاگتا رہا۔

ان کی سب سے پیاری، سب سے چھوٹی بہن—وہ بہن جس کو انہوں نے سیکنڈری اسکول تک کرامت و شفقت سے پڑھایا تھا، وہ بہن جس کی شادی پر اب سے پانچ سال پہلے انہوں نے اٹھارہ  ریشمی ساڑیاں، سونے کا زیور،  اور اس کے شوہر کے لیے موٹر بائیک دی تھی — وہی بہن اب موروثی جائیداد میں حصہ مانگنے آئی تھی۔ اس کے اعزاز میں  بریانی اور سوئیوں کی خاص کھیر ’شاویگے پایَسا‘  تیار کرائی گئی تھی، جس میں اب تلخی آ گئی تھی۔ ’ہونہہ۔ یہ کس قسم کا رویّہ ہوا؟‘ ان کا بدن دوبارہ غصے سے سلگ اٹھا۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس نے جرح بھی شروع کر دی تھیں۔ ’’اَناّ! میرا اتنا ہی حصہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت نے مجھے حق عطا کیا ہے۔ میں اُس جائیداد میں سے حصہ نہیں مانگ رہی ہوں جو آپ نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔ ‘‘

وہ کون سی جائیداد ہے جو انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے؟ کیا وہ محض اسی جائیداد کا انتظام نہیں سنبھالے ہوئے تھے جو ان کے والد نے جمع کی تھی؟

’’ہمارے والد کی جائداد کے چھٹے حصے پر میرا حق ہے۔‘‘

اوفوہ!  اس نے پہلے ہی سارا حساب لگا رکھا ہے۔  وہ اس کے منہ پر تھپڑ جڑتے ہوئے کہنا چاہتے تھے،  ’یہ لو اپنا چھٹا حصہ!‘  لیکن انہوں نے سؤر کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی جو ان کے بدن میں سرایت کر چکا تھا اور اب عالمِ  اضطراب میں کود پھاند مچا رہا تھا۔ جمیلہ کا چھ فٹا شوہر بھی قریب ہی رکھی ایک کرسی پر گویا اس کا محافظ بنا بیٹھا تھا۔

’’آپ محلے بھر کے مسئلوں کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے بلاتے اور کہتے:  لو جمیلہ، اپنا حصہ لے لو۔ چلیے میری بات چھوڑیے، سکینہ اَکّا معاملہ ہی لیجیے۔ نہ تو ان کے شوہر زندہ ہیں اور نہ بچے ہی اتنے بڑے ہیں کہ کوئی کام دھندا کرسکیں ۔ وہ اپنی دو دو جوان بیٹیوں کی شادی کا انتظام کس طرح کریں گی؟‘‘

متولی صاحب بیٹھے فرش کو گھورتے  رہے۔  یہ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ جمیلہ یوں فرفر بولے جا رہی تھی ۔ اس کی خاموشی کی عادت کیا ہوئی؟ آم اور ناریل کے باغیچے، کھیت کھلیان اور وہ ساری جگہیں جہاں ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے،  اور شہر بھر میں بکھرے بے شمار مکانات— ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ان میں سے کچھ بھی کیا وہ اپنی بہنوں کو حصے کے طور پر دے سکتے تھے؟

جمیلہ مینڈک کی طرح سے ٹرّاتی رہی، ’’اَنّا،  ایک اچھے خاندان میں آپ نے میری شادی کی ہے،  میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ آپ نے ایسا نہیں کیا۔  لیکن مہربانی کر کے ذرا سوچیے، ابّا کے انتقال کو دس سال گزر چکے ہیں۔ اگر آپ نے مجھے تبھی میرا حصہ مجھے دے دیا ہوتا تو اب تک میں نے اس سے دس گنا  پیسہ کما لیا ہوتا جو آپ نے میری شادی پر خرچ کیا تھا۔ میں اب وہ سارا پیسہ تو آپ سے نہیں مانگ رہی ہوں نا۔ لیکن…‘‘

متولی صاحب کے صبر کا باندھ پھٹ پڑا۔  عارفہ دروازے کے سہارے کھڑی یہ ساری گفتگو بے چینی سے سن رہی تھی۔ اس کے خیال میں جمیلہ کے سارے الفاظ، اس کا لہجہ اور جرح کا انداز، سب کچھ بہت افسوسناک تھا، لیکن اس کا مطالبہ تو بالکل جائز تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اس کی دلیلوں کو کوئی نہیں کاٹ سکتا تھا۔

وہ گھر جس سے متولی کو چار ہزار روپے ماہانہ کرایہ ملتا تھا اور ساتھ میں ایک کافی کا باغ، کیا عارفہ کو اس کے والدین کی جانب  سے اس کے  حصے کے طور پر  نہیں ملے تھے؟ عارفہ کو اپنا حصہ بغیر مطالبے کے ملا تھا ۔ اس کے والدین نے اسے اور متولی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی،  انہیں عمدہ کھانا کھلایا ، ایک نئی ساڑی اور بلاؤز تحفے میں دیا، اور جو جائیداد اس کے نام منتقل کی تھی اس کی رجسٹری کے کاغذات ان کے حوالے کیے اور بہت شفقت سے انہیں رخصت کیا۔ لیکن یہاں جمیلہ کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑ رہا تھا۔

متولی صاحب کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، وہ گھُرگھُراتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور جمیلہ کو گھورتے رہے۔  اپنے بڑے بھائی کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ تھوڑی سی سہم گئی لیکن پھر اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا، تھوڑا سا حوصلہ بٹورا اور اس طرح جیسے جملہ رٹ کر آئی ہو، اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی؛ ’’اگر آپ مجھے میرا جائز حق نہیں دیں گے تو میں عدالت میں حاصل کروں گی۔‘‘

متولی صاحب سُنّ رہ گئے اور دَم سادھے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھے۔ ان کے قدموں کی مغضوب دھمک سے سہم کر عارفہ تیزی سے دروازے سے ہٹ گئی اور انہیں نکلنے کا راستہ دیا۔

کمرے میں وہ مورت بنے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی ٹوپی تک اتارنے کا خیال نہیں آیا۔ عارفہ نے آکر پنکھا چلا دیا۔

واقعے  کی ساری تفصیلات ان کے ذہن میں ایک ایک کرکے گزرنے لگیں۔  سردی کا موسم تھا  اور مسجد کے عقب میں غسل خانے میں پانی گرم ہو رہا تھا۔ عادت کی اٹکل کر انہوں نے غائب دماغی سے وضو کے مراحل طے کیے، اور نماز کے بھی۔ گو کہ انہوں نے اپنے اعضا کو دھو کر پاک صاف کر لیا تھا، لیکن کرب ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھا رہا۔ ایک تو جمیلہ کی ڈھٹائی  کچو کے لگا رہی تھی، اور دوسرے جائیداد میں حصہ دینے کا خیال کچوٹ رہا تھا۔ ان کی اصل تشویش یہ تھی کہ وہ اس ڈھٹائی پر اسے کس طرح سزا دیں اور ساتھ میں جائداد پر قبضہ بھی برقرار رکھیں۔

مسجد کشادہ تھی اور اس کا صحن وسیع و عریض۔ جو لوگ صبح کی نماز ادا کرنے آتے تھے وہ انھیں اپنی انگلیوں پر شمار کر سکتے تھے۔ اس وقت ان کے حلقہ احباب میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ مجبور ہو کر انہوں نے گھر کا رخ کیا۔

لیکن وہ سیدھے گھر نہیں گئے۔ جب تک وہ  دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قصبے کے گول چکر تک پہنچے، مدینہ ہوٹل کے  دروازے کھل چکے تھے۔ وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک کپ چائے پی۔ لیکن قرار نہیں آیا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور نہایت بے دلی سے چلتے ہوئے گول چکر کے بیچوں بیچ جا کھڑے ہوئے جہاں دراصل ٹریفک پولیس والے کو ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے سیٹی نہیں بجائی اور نہ ٹریفک کو راستہ دکھایا۔ وہ چاروں سمتوں میں کچھ یوں دیکھتے رہے جیسے فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ کون سے راستے پر چل پڑیں۔ ان کا حال قابلِ رحم تھا۔ اور تبھی وہ ناممکن الوقوع حادثہ وقوع پذیر ہو گیا۔

دھپّ!!! ایک آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ وہ دیکھتے کہ کیا ہوا ہے، ایک کوّا بجلی کے تار سے لڑھکا اور درخت سے ٹوٹے خشک پتے کی مانند سڑک پر آن گرا۔  متولی صاحب نے اس کو چند گز کے  فاصلے سے دیکھا اور چلنے کو ہوئے۔ تبھی ایک اور کوا جانے کہاں سے کائیں کائیں کرتا نمودار ہوا۔ اس کی آواز گونجی  تو مزید  کوے جمع ہونے لگے،  جیسے جادو سے ظاہر ہو رہے ہوں۔

انھوں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض کی کائیں کائیں درد آمیز تھی،  بعض میں جارحیت  تھی اور بعض میں غصہ۔ بعض میں تساہل تھا،  گویا فرض سے مجبور ہوکر کانکنا  پڑ رہا ہو۔  کچھ آوازیں ایسی تھیں گویا گہری سانس بھر کر لعنت بھیج رہی ہوں،  کچھ جشنِ آزادی کی تُرہی بجا رہی تھیں اور مسرت آمیز چیخوں کی مانند تھیں۔ متولی گویا ہر طرح کی چیخیں محسوس کرنے لگے اور انھوں نے وہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔  لیکن کوّے ان کے سر پر منڈلانے لگے، جیسے ان پر حملہ کرنے والے ہوں۔ کنفیوزڈ ہو کر انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ آنکھ کے گوشے سے انھوں نے بے حرکت کوّے پر نگاہ ڈالی۔  ارے!  نفوذ ناپذیر سیاہ رنگ میں دھنک کے اتنے سارے رنگ؟

جب تک وہ گھر پہنچے—اب تک اسی غائب دماغی کے ساتھ، اور اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے، متولی صاحب کو نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ عارفہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی، بیمار بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ  دوسرے بچوں کے لیے ناشتے اور لنچ کا اہتمام، ان کے بستے اور جوتے موزے وغیرہ۔ نیز جمیلہ اور اس کے شوہر کے لیے خصوصی کھانوں کا انتظام۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس گھر کی بیٹی کوستی پیٹتی، ناراض ہوکر مائیکے سے جائے۔اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد تھے : حقدار ترسے تو انگار کا نوہ برسے۔ یعنی اگر حقدار ناخوش ہوا تو انگاروں کا مینہ برسے گا۔

گزشتہ رات اس نے متولی صاحب سے دھیمی سرگوشیوں میں باتیں کی تھیں۔  ’’رائی (اجی)، گھر کی بیٹی کو کبھی تکلیف نہ دو۔ قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ لڑکی  بھی اپنے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیا؟ اپنی چاروں بہنوں کو بلالو اور ان کا جو حق بنتا ہے، دے کر اپنا دامن صاف کرلو۔ ہمارے پاس جو کچھ بچے گا اللہ اسی میں ہمیں برکت دے گا۔‘‘

عارفہ عموماً انھیں مشورے نہیں دیتی تھی۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی، پھر بھی اس موضوع پر اس نے اپنی بات کی۔ متولی صاحب نے سکیڑوں فیصلے کیے تھے۔ وہ انھیں ایسا کیا بتا رہی تھی جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے؟ وہ ایسی عورت کے الفاظ کیوں برداشت کریں جو برقعہ اوڑھتی ہے اور معمولی حیثیت رکھتی ہے۔

’’چپ رہو، اور اپنے کام سے کام رکھو،‘‘ انھوں پھٹکارا تھا ، اور بستر پر دراز ہو کر جلد ہی خراٹے لینے لگے تھے۔

عارفہ چپاتیاں بیل رہی تھی،  اور نہایت مضطرب تھی۔ ’’اے پروردگار، انھیں تھوڑی سی  سمجھ عطا کر،‘‘ اس نے دل ہی دل میں رو کر کہا۔  وہ ابھی ابھی انصار کی پیشانی پر گیلا تولیہ رکھ کر آئی تھی۔ وہ حالانکہ مشینی انداز میں آٹا  بیلتی اور توے پر روٹیاں  سینکتی رہی تاہم اسے احساس تھا کہ انصار تکلیف میں ہے، اور بار بار ہال کی طرف دوڑتی تھی جہاں اس نے انصار کو لٹا رکھا تھا۔

اسی دوران میں اس کی نظر اس عورت پر پڑی۔ اس نے حالانکہ برقعہ اوڑھ رکھا تھا اور اس کے چہرے پر نقاب تھی، تاہم عارفہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ برقعے کے سوراخوں میں سے ایک   گندی سی ساڑی جھانک رہی تھی جس کا رنگ کبھی سیاہ رہا ہوگا  لیکن اب فرسودہ  ہوکر بھوری ہو چکی تھی۔ ایڑیاں کٹی پھٹی، جلد کا رنگ اڑا ہوا، پیروں میں ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں جن کو سیفٹی پن لگا کر مرمت کی گئی تھی۔

عارفہ نے ایک ہی نظر میں اس کی حالتِ زار کو بھانپ لیا اور خود کو پریشان ہوتے محسوس کیا۔وہ عورت اندر نہیں آئی بلکہ برآمدے میں ہی رک گئی، ان لوگوں کے ساتھ جو متولی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس کو ایک گوشے میں یوں کھڑی دیکھ کر عارفہ نے اپنے حلق میں ایک گولا سا اٹکتا محسوس کیا۔ پردے کے پیچھے سے،  جو ہال کمرے کو برآمدے سے الگ کرتا تھا، اس نے اتنی اونچی آواز میں کہ عورت تک پہنچ جائے، سرگوشی کے انداز میں کہا، ’’سکینہ اَکّا، تم سے بِنتی کرتی ہوں، اندر آ جاؤ۔ باہر کیوں کھڑی ہو؟‘‘

عارفہ پردے کے پیچھے سے عورت کے تاثرات نہیں دیکھ سکی کہ اس نے سن لیا ہے یا نہیں۔ تاہم، اس کے پاس کھڑے لڑکے نے تقریباً بے رحم لہجے میں جواب دیا تھا،  ’’ہم ٹھیک ہیں مامی، آپ اپنا کام کیجے۔ ماما آئیں گے تو ہم ان سے بات کر کے چلے جائیں گے۔

سکینہ، اس کی سب سے بڑی نند، نہایت خوددار عورت تھی۔ جب وہ بیوہ ہوگئی تو اپنے تین بچوں کی پرورش اور گھریلو اخراجات اٹھانے کے لیے اس نے سلائی کا کام شروع  کر دیا تھا۔ اپنے مائیکے سے وہ پانی کی ایک بوند کی بھی روادار نہ تھی۔ وہ تیج تہوار کے موقعے پر  کبھی کبھار آتی اور اپنے بڑے بھائی کی دعا لیتی۔

لیکن اس دن وہ ایک اجنبی کی طرح دوسروں کے ساتھ قطار میں کھڑی تھی۔ عارفہ حیرت زدہ تھی کہ کیا وہ بھی جمیلہ کی طرح جائیداد میں حصہ مانگنے آئی ہے۔  لیکن اس نے جلد ہی  اپنے خیال کو جھٹک دیا  اور سکینہ کو دوبارہ اندر آنے کو کہا۔ اپنے شوہر کے باہر آنے سے پہلے سکینہ کو بلا کر کمرے میں بٹھانے کی اس کی یہ کوشش بے سود رہی۔

متولی صاحب اپنے بدن میں بھاری پن محسوس کر رہے تھے لیکن نیند ان کو اچھی آئی تھی۔ وہ عارفہ کو برآمدے میں کھڑے لوگوں کو جھانکتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے، کیونکہ وہ پہلے کبھی یوں تاک جھانک اور اشارے کرتے  نہیں دیکھی گئی تھی۔ نادانستہ ان کی آواز اونچی ہوگئی، ’’عارفا اااا؟‘‘

گھبرا  کر عارفہ نے پردہ گرا دیا اور بڑبڑائی، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہو، ’’سکینہ اکّا باہر  والوں کی طرح ، مردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ میں ان سے اندر آنے کو کہہ رہی تھی۔‘‘

’’کیا؟‘‘  متولی صاحب باہر نکلے توسکینہ اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر ان کا چہرا سرخ ہو گیا۔

سکینہ نے اپنی ہتھیلیاں آپس میں جوڑیں اور اجنبی لہجے میں اپنی درخواست گزاری؛’’بھائی صاب، مجھ جیسی بے سہارا بیوہ کی مدد کیجیے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو خوشیاں اور خوشحالی عطا فرمائے۔ میرا بیٹا  بی اے کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہے۔  ایک انجینئرنگ کالج میں اٹینڈر کی نوکری کے لیے اس کا انٹرویو ہے۔ سنا ہے آپ وہاں کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ میرے بیٹے کا نام سید ابرار ہے۔ مہربانی کرکے  اسے یہ نوکری دلوا دیجیے۔ یہ اس کی درخواست ہے، دیکھیے۔  اگر میرے بیٹے کو یہ نوکری مل گئی تو وہ ہمارے خاندان کا بڑا سہارا بن جائے گا، حالانکہ وہ مجھ جیسی بدنصیب عورت کے ہاں پیدا ہوا  ہے۔سب کہتے ہیں  کہ اگر آپ کہیں گے تو اسے کام پر ضرور رکھ لیا جائے گا۔ آپ غریبوں کی خوشی  غمی کے شریک ہیں۔ مجھ پر بھی مہربانی کیجیے۔‘‘  اس سے پہلے کہ متولی صاحب کچھ کہتے، اس نے نوکری کی درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی، ان کے پیر چھوئے  اور جلدی سے باہر نکل گئی۔

متولی صاحب کے دماغ میں کوّوں نے چیخنا شروع کر دیا ۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ سردی کے باوجود ان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلک اٹھیں۔ وہ ایک گدی دار کرسی پر ڈھہہ گئے۔ پردے کے پیچھے عارفہ کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔

دروازے کے پاس ایک نوجوان عورت اپنے بچے کو سینے سے چپکائے ہوئے کھڑی تھی۔ ساڑی کے پلّو کو اپنے سر پر درست کرتے ہوئے وہ ان  سے تھوڑے فاصلے  پر کھڑی ہو  گئی اور بولی، ’’انّا، اس بچے کے باپ کے پاس بیل گاڑی تھی۔ پندرہ دن پہلے اس کا آپریشن ہوا۔ آپریشنے کے لیے میں نے اس کی گاڑی اور دونوں بیل  بیچ دیے تھے۔ اب پتا چلا اسے ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے! ڈاکٹر نے یہی بتایا۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ آپ… آپ…‘‘  اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔

متولی صاحب نے اس سے ہسپتال اور ڈاکٹر کا نام، اور دیگر تفصیلات پوچھیں۔ پھر کہا کہ وہ اس کے شوہر کے آپریشن کا انتظام کریں گے اور اسے رخصت کر دیا۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، عورت اپنے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔

اب ایک اسکولی بچے نے اپنی نوٹ بک ان کی جانب بڑھا ئی۔ ہائر پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے اپنے مدوّر خط میں متولی صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس دن سہ پہر تین بجے اسکول ڈویلپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوکر شکریے کا موقع عطا فرمائیں۔ انھوں نے نوٹ  پر دستخط کرکے لڑکے کو رخصت کیا۔ اب وہ مسائل سننے کے لیے مردوں کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ طوفان کی طرح داؤد داخل ہوا۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

داؤد ان کا دایاں بازو تھا۔ وہ ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہو چکا تھا جتنا غیر ارادی سانس لینا ہوتا۔ یہ بات  کہ ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے، ان کی دوستی کا ثبوت کہی جا سکتی ہے۔ متولی صاحب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ، ان کی بھنووں کی حرکات کے طول و ارض، ان کی مونچھوں کی تھرتھراہٹ، ناک کی نہج اور دہانے کے گوشوں کی لکیروں سے وہ ان کے مزاج کا اندازہ لگانے میں مہارت حاصل کر چکا تھا۔ وہ اپنے الفاظ، اپنے سلوک، اور اپنی کمر کے  جھکاؤ میں ان کے مزاج کے مطابق تبدیلی کر لیتا۔ اس میں ایک چالاکی بھری بے شرمی تھی اور ساتھ ہی عزتِ نفس کا فقدان بھی۔ بہرحال…

وہ صبح کی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا۔’یہ حرامزادہ اب آیا ہے؟ حیران ہوں کہ اپنا وقت کہاں ضائع کر رہا تھا…‘ متولی نے سوچتے ہوئے دانت پیسے، لیکن پرسکون رہنے کا ڈراما کیا اور پوچھا،  ’’داؤد صاحب،  کہاں چلے گئے تھے؟ آپ کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں۔‘‘

داؤد ان کے سوال اور ان کے لہجے، دونوں کو سمجھ گیا۔ دھیرے سے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’السلام علیکم، متولی صاحب!‘‘  اور ظاہری شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔

بہت سے لوگ اب بھی ان سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔ لیکن انھیں داؤد سے ایک ضروری کام تھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر بینچ پر بیٹھے بےچین لوگوں کی طرف دیکھا اور اٹھنے کو ہوئے۔ بوڑھا صابجان جیسے ٹھوکر کھاتا ہوا آگے بڑھا اور موتیابند کے سبب دھندلی آنکھوں اور سفید بھنووں کے درمیان سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، ’’صاب، صاب… میری سب سے  چھوٹی بیٹی کی اگلے ہفتے شادی ہونے والی ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مہربانی کیجے صاب۔ اگر اس کی شادی ہو جائے تو میں سکون سے آنکھیں موند سکوں گا۔ مائی باپ! آپ میرے باپ سمان ہیں… آپ کو مجھ بوڑھے پر رحم کھانا ہوگا۔‘‘  کہتے ہوئے وہ متولی صاحب کے قدموں میں گرنے کو ہوا۔

’’آہا! تو تمھارے بہت سے بچے ہیں!  آخری بیٹی، بتایا نا تم نے؟ یعنی جب تم ساٹھ سال کے تھے تو کیا وہ تب پیدا ہوئی ؟ آخر کار، تمھیں ہوش آ رہا ہے۔‘‘ متولی کے دماغ کے ایک گوشے میں بیٹھا شیطان ہنس پڑا۔ ایک بڑی کشادہ جگہ کی تصویر ان کے تصور میں ابھری جس کے بیچوں بیچ ایک ڈھیتا ہوا مکان کھڑا تھا۔ وہ جب بھی اس قطعۂ زمین سے گزرتے تھے، اس پر ایک شاپنگ کمپلیکس بنانے کا تصور کرتے تھے۔

’’آپ کو مجھ سے کیا چاہیے، صابجان چِکپّا؟‘‘  کسی بھی قسم رحمدلی نہ دکھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

’’زیادہ کچھ نہیں…‘‘  پریشان حال صابجان نے ایک ثانیے کے لیے توقف کیا اور بات جاری رکھی۔ ’’اللہ کی رحمت ہو آپ پر… میں… میں… مجھے اس کی شادی کے لیے کوئی چالیس ہزار روپے درکار ہیں۔‘‘

متولی صاحب نے چونکنے کا مظاہرہ کیا ۔

’’چالیس ہزار روپے… کس واسطے…اتنا  پیسا کہاں سے لاؤگے؟‘‘

وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوے نظر آئے۔ داؤد آہستہ  سے کھانسا۔

’’انّاوری۔ ایک معاملہ ہے … سوچا  آپ کے علم میں لے آؤں …  اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو …  نہیں، جب خیال آتا ہے تو …   دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔  قانون، اخلاقیات، دھرم! کیا ان میں سے کچھ بچا بھی ہے؟‘‘

’’ہوں۔ کیا ہوا ہے، داؤد؟‘‘

’’کیا آپ اس مسئلے سے واقف نہیں ہیں؟  کیا واقعی؟‘‘

یہ دیکھ کر کہ کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا، داؤد نے بات جاری رکھی، ’’اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے، انّاوَرے… مسلمانوں کی کوئی توقیر باقی نہیں رہی…‘‘

اس کی تمہید طویل ہو رہی تھی۔

’’کیا سیدھے سیدھے بیان نہیں  کرسکتے کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘  متولی صاحب نے چِڑ کر پوچھا۔

’’اناوری، آپ عمر کو جانتے  ہیں نا… وہی جو گھوڑوں کی نعلیں بناتا ہے؟ اس کی دوسری بیٹی کی شادی نیلامنگلا میں کسی سے ہوئی ہے۔ ہے نا، لیکن لڑکے نے دوسری لڑکی سے شادی کر رکھی تھی۔ آپ کو یاد ہے؟ بہرحال پہلی لڑکی کا بڑا بھائی-‘‘

’’وہ کون  لعنتی ہے؟‘‘  متولی صاحب سے بڑھتے ہوئے غصے کے ساتھ  پوچھا۔ ان میں رشتوں کے جال کو سلجھنانے کا صبر نہیں تھا۔

’’اس کا نام نثار ہے۔  پینٹر ہے۔ وہی جس نے کہا تھا کہ مسجد کا رنگ روغن کرے گا اور دو سو روپے لے کر بھاگ گیا تھا۔ یاد ہے، پچھلے رمضان میں؟‘‘

’’اوہ، ہاں، ہاں۔ سمجھ گیا۔‘‘

اب متولی صاحب کو سب کچھ یاد آگیا۔ انھیں یاد آگیا کہ مسجد کے پیسے ڈکار جانے کے جرم میں پینٹر کو ایک درخت سے باندھ کر پیٹا بھی گیا تھا۔

’’وہ تالاب میں گر کر مر گیا تھا۔  کوئی ڈیڑھ مہینے پہلے اس کی لاش ملی۔ پولیس والوں نے اسے باہر نکالا۔‘‘

’’ہمم۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ ہونا  کیا تھا۔ سب کچھ برباد ہوگیا۔ پولیس نے نثار کی لاش قبضے میں لے کر ہندو قبرستان میں دفنا دی۔‘‘

داؤد نے خبر کو آہستہ آہستہ،  بتدریج ظاہر کیا تھا، پھر  بھی ایسا لگا گویا کسی نے گولی داغ دی ہو۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی ایسا سنا گیا؟ ایک لمحے کو متولی صاحب کو لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن  رک گئی ہو۔ ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں اور وہ پسینے سے عرق آلود ہو گئی۔ ہر شخص بھول گیا  کہ وہ کس مقصد سے یہاں آیا تھا، یہاں تک کہ صابجان بھی۔ اگر چہ بیٹی کی شادی کا معاملہ اس کے دل میں چبھے جا رہا تھا لیکن اس نے ذکر نہیں کیا۔ اس خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ بات تصور سے بعید تھی کہ کسی مسلمان کی لاش بلاکفن ، بلا غسل ، حتیٰ کہ نمازِ جنازہ کے بغیر، قبرستان کے بجاے شمسان میں بلا رسوم دفن کر دی جائے!  متولی صاحب کے ذہن میں ایک سوال کوندا، ’’لیکن، داؤد، کیا نثار کا ختنہ نہیں ہوا تھا؟‘‘

داؤد کے پاس اس تکنیکی سوال کا جواب نہیں تھا۔

’’چھی، چھی… کیا آخری رسوم نہیں ہونی چاہییں تھیں؟ لیکن پولیس یہ سب  کیوں سوچتی؟  وہ تو بس اتنا چاہتے ہوں گے کہ جلدی سے دفنائیں اور  چھٹی پائیں۔ معاملہ ختم۔‘‘

لیکن سوالات اور بھی تھے—تجسس کو ہوا دینے والے۔ ’’انہیں کیسے پتہ چلا کہ لاش نثار کی ہی ہے؟‘‘

’’لاپتہ ہونے کے کئی دن بعد اس کی بیوی شکایت درج کرانے پولیس کے پاس گئی تھی۔ پولیس نے اسے وہ کپڑے دکھائے جو نامعلوم لاش کے بدن پر ملے تھے، اور اس کی بیوی نے پہچان لیے۔ پھر انہوں نے لاش کی تصویر دکھائی۔ بدن پھولا ہوا تھا مگر نثار کا تھا۔ یا…‘‘

’’یا  پھر پولیس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہوگا، جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں! چاہیے تھا کہ وہ مسجد میں آتے اور ہمیں بتاتے کہ ہمارے کسی آدمی کی لاش ملی ہے۔  ہم اسے فوراً یہاں لا کر مناسب طریقے سے دفنا دیتے۔‘‘

داؤد نےمشکوک انداز میں کہنا شروع کیا، ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، مصیبت کی جڑ شنکر ہے۔ اسی نے پولیس کو اطلاع دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ لاش ہندو قبرستان میں دفن کی جائے۔‘‘

 وہاں موجود ہر شخص شدید صدمے میں  تھا۔ ’’چھی! کیسا خوفناک زمانہ ہے۔ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں لوگ قبرستان تک میت کو کندھا دینے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن اس غریب کو دیکھو ! بیچارے کے لیے مناسب کفن دفن تک کا اہتمام نہیں ہو سکا۔‘‘

سال میں دو بار، رمضان عید اور بقرعید کی نماز کے علاوہ نثار نے کبھی نماز نہیں پڑھی، مسجد میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ سینکڑوں لوگوں سے ان کے گھروں کے رنگ روغن کے لیے ایڈوانس لے کر  غائب ہو جاتا تھا اور انھیں دھوکا دیتا تھا۔ وہ پیسا ڈکار کر بھی دندناتا پھرتا تھا۔ ایک بار تو وہ مسجد کے رنگ روغن کے لیے  جماعت سے بھی پیسہ لے گیا اور ہضم کر گیا۔ اب اس کی مناسب تدفین کرنا انھی لوگوں کو مقدس ترین فریضہ لگ رہا تھا جنھیں وہ دھوکا دیا کرتا تھا۔ اس کی لاش کو شہید کا درجہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ لگ رہا تھا کہ نثار کے جسدِ خاکی کی تدفین کے لیے مناسب رسومات کو یقینی بنانے سے ہی متولی کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اذیت میں مبتلا ہونے کا انداز اختیار کرتے ہوئے نوحہ خواں ہوا، ’’کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہر ایک کو اپنے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘

وہاں جمع سارے لوگ ، جن میں داؤد بھی شامل تھا، جوں جوں اس سانحے پر غور  کرتے، مزید پریشان ہوتے جاتے تھے۔

’’توبہ، توبہ۔‘‘ صابجان نے اپنے گال پیٹے، ’’موت ہر ایک کی طے ہے، لیکن ایسی بھیانک موت کسی کو نہ ملے۔ نہ کلمہ،  نہ درود ، نہ سلام۔ کل کو ہماری میتیں بھی کوئی جہاں چاہے دفنا دے گا۔ جہاں چاہیں گے، ہماری لاشیں پھینک دیں گے۔‘‘

داؤد نے لقمہ دینے کا موقع نہیں گنوایا۔’’متولی صاحب،  وہ تو بھلا ہوا کہ آپ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں، اسی لیے ہم ابھی تک انسان ہیں- وہ  کبھی بھی کورٹ چلے جاتے ہیں، قرآن سے متعلق کوئی معاملہ لے کر۔ اب اس عورت، شاہ بانو کے مقدمے کو ہی لے لیجیے۔ اسے اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا اور بار بار ہماری توہین کی۔ اور اب مسلم لاشیں اٹھا کر ہندو قبرستانوں میں دفن کر رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی؟‘‘

داؤد اب اسے ایک سنگین مسئلے  کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ سب اضطراب میں تھے، حتیٰ کہ متولی بھی۔ وہ کبھی اپنی داڑھی نوچتے، کبھی ناک میں انگلی گھساتے، اور کبھی گہری سوچ میں غرق نظر آتے۔ پھر اچانک جیسے ہوش میں آئے اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ چہرے پر شکنیں ڈالتے ہوئے، جیسے نہایت اداس ہوں، انھوں نے اپنی آنکھیں ذرا سی کھولیں اور کھنکھارکر گلا صاف کیا۔

معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ عارفہ بھی بچوں کو سکول کی تیاری کرانے کے بجائے پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔  جمیلہ جو ذرا دیر سے بیدار ہوئی تھی، پردے کے پیچھے اپنی بھابھی سے آن ملی اور سرگوشی میں باتیں کرتے ہوئے سارا معاملہ سنا۔ خواتین کے دل دھڑ دھڑ دھڑک رہے تھے۔

’’یا اللہ! چاہے جو بھی ہو،  اس غریب بیچارے کی روح کو سکون ملے ۔ اسے وہ سب رسومات نصیب ہوں جن کی  ایک مسلمان لاش حقدار ہوتی ہے۔ اور قبرستان میں اسے تین گز زمین مل جائے۔‘‘

جمیلہ کے شوہر کو خبر ملی تو وہ  بھی باہر آکر دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہر شخص جوش میں تھا، پریشان تھا۔ اسلام کو بچانے کی خاطر مقدس جنگ کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر متولی نے بولنا شروع کیا: ’’اب ہمیں اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کرنی ہوں گی کہ  نثار کے جسدِ خاکی کو وہاں سے نکال کر یہاں دفن کیا جائے۔ ہمیں ہر طرح کی رکاوٹ کا، کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سمجھ گئے؟‘‘

پھر وہ داؤد سے مخاطب ہوئے، ’’اور داؤد، تم ہماری یوتھ کمیٹی کو بھی اس کی خبر کردو۔جب وہ آ جائیں تو ہم  ساتھ چل کر ضلع کمشنر اور  پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملیں گے۔ اس کام کو آج ہی شروع کر دیں تو اچھا ہو۔‘‘ پھر انھوں نے جلدی سے اضافہ کیا: ’’ان سے  یہ بھی کہنا کہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔ فی الحال جماعت کے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن انھیں بتانا  کہ جو بھی اخراجات ہوں گے، میں خود ادا کروں گا۔‘‘

وہ جانتے  تھے کہ خرچ ہونے والی رقم اس مہم کی وجہ سے ملنے والی مقبولیت اور حمایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی تھا کہ متوّلی کی حیثیت کے مدنظر ایسی باتیں کہنا عین مناسب تھا۔ پیسہ آخر جائے گا کہاں ؟ اپنے تجربے سے انھیں معلوم تھا کہ اس طرح کے کاموں کے لیے رقم عطیہ کرنے کے لیے لوگ سر کے بل آتے ہیں۔ یوتھ کمیٹی کا اعتبار  دوبارہ حاصل کرنے کا یہ انھیں ایک بہترین موقع بھی لگا،  کیونکہ کمیٹی  پہلے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا  کر ان سے فاصلہ بنا چکی تھی۔

سب کچھ متولی کی توقعات کے عین مطابق ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر سے قدم باہر نکالیں، جمیلہ کے شوہر نے جیب سے ڈھائی سو روپے نکالے اور متولی کے سامنے میز پر رکھ دیے۔  ’’بھیا، اگر آپ انھیں اپنے کام کے لیے استعمال کریں گے، تو اس نیکی کا اجر مجھے بھی ملے گا۔ اللہ آپ کو اور آپ جیسے لوگوں کو مزید قوت، صحت اور مال و دولت سے نوازے۔‘‘  اس نے صدق دلی سے کہا۔ وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جب ایک عظیم ذمہ داری سامنے ہے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کی بیوی جائیداد میں حصہ مانگے ۔

پردے کے پیچھے  کھڑی جمیلہ نے اپنے شوہر  کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور سکون کا گہرا سانس لیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے جائیداد میں حصہ صرف اس لیے مانگا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے مجبور کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ خود ایسا چاہتی تھی۔ جیسا کہ کہاوت ہے، ’لاٹھی کا وار اگر خالی جائے، تو جیون ہزار برس بڑھے۔‘  وہ خوش تھی کہ وہ اس معاملے کو یہیں چھوڑا جا سکتا ہے، کم از کم فی الحال۔

عارفہ اپنے شوہر پر بہت فخر محسوس کر رہی تھی۔ اس فکر میں  غلطاں کہ شاید  ناشتہ کیے بغیر ہی انھیں یہ ہمالہ جیسا بڑا کام کرنے نہ نکلنا پڑے، وہ ان کے لیے پھولوں جیسے ہلکے پھلکے پراٹھے بنانے چل دی۔ متولی نے اپنی بہن اور اس کے شوہر کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھا اور خود ہی مسکرائے، لیکن اپنی خوشی ظاہر نہیں ہونے دی بلکہ  چہرے پر سنجیدگی طاری کیے گھر میں چلے گئے، جیسے گہری سوچ میں غرق ہوں۔

کئی نوجوانوں کو ساتھ لے کر وہ سب سے پہلے ضلع کمشنر سے ملے۔ ایسا کرنا ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ ضلع کمشنر ایک نوجوان بنگالی برہمن تھا جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ وہ ضلع کے مختلف فرقوں کے باہمی رشتوں کے الجھیڑوں  اور جذباتی آویزشوں سے واقف تھا جو کبھی کبھار سر ابھارتی رہتی ہیں۔ اس نے متولی کی دی ہوئی درخواست پڑھی اور صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی اور وقار طاری کیے بیٹھا رہا۔ اس نے متولی کی پرجوش جذباتی تقریر سنی اور مسئلے کو سلجھانے کے لیے ان سے اردو میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’اور کیا کچھ نیا ہو رہا ہے متولی صاحب؟ آپ اپنے علاقے میں نیا بورویل لگوانے یا اسکول کی عمارت کی مرمت یا اس طرح کے کسی اور کام کے لیے مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے!‘‘

متولی نے بیچ میں ہی قطع کلام کیا۔ ’’میں کاموں کی فہرست بناؤں گا اور اگلی بار ملنےآؤں گا، سوامی؛ فی الحال تو، اگر آپ صرف ایک حکم نامہ جاری کر سکیں، تو مہربانی ہوگی۔

’’مگر پھر بھی متولی صاحب، مٹی تو ہر جگہ ایک سی ہے نا؟ مٹی مٹی میں کیا فرق کرنا؟‘‘ اس نے لاپروائی سے پوچھا۔

متولی کے پاس کئی غیر متعلق جوابات تھے۔ بات کو مزید طول نہ دے کر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر کو ذمہ داری کا حکم نامہ جاری کردیا۔

پندرہ دن گزر گئے۔ متولی صاحب بالکل نہیں تھکتے تھے، اس وقت بھی نہیں جب انہیں ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں چکر لگانے پڑتے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے لوگوں کے لیے کوفی اور سنیکس خریدنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔

وہ اس سے قدرے مایوس تھے کہ اس بدمعاش شنکر کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت نہیں لگتی تھی، تاہم پولیس اور اہلکاروں نے جو تاخیر کر رکھی تھی وہی کم نہ تھی۔

متولی سارا دن مختلف دفتروں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس کے بعد رات گئے تک یا تو مسجد کے صحن میں، یا مدینہ ہوٹل کے بڑے ہال میں، یا ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر غوروفکر کیا جاتا۔ وہ بیان کرتے کہ وہ کتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ منصوبے بناتے کہ کس طرح اور کب، کن افسروں کے پر کترے جائیں۔ وہ بتاتے کہ کن کن حلقوں سے اسلام کو کتنا خطرہ لاحق ہے، اور نوجوانوں کو سمجھاتے کہ ان مسائل کو کس طرح مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھیں قطعی پتا نہ چلا کہ یہ سب کرتے کرتے پندرہ دن کتنی عجلت میں گزر گئے۔ ساری جماعت نثار کی لاش اور متولی صاحب کی کوششوں کے سوا کسی موضوع پر گفتگو نہیں کر رہی تھی۔ عورتیں چادریں اوڑھ کر نماز ادا کرتیں، اور نثار کی لاش کے لیے تہہِ دل سے دعائیں مانگتیں کہ اسے مسلم قبرستان میں دفن ہونا نصیب ہو، اور اس کی روح کو ابدی سکون ملے۔

اس کارِ خیر کے لیے کافی رقم بھی جمع ہو گئی تھی۔

بالآخرکار نثار کی لاش قبر کھود کر نکال لی گئی۔ متولی اور ان کے حواریوں نے بوسیدہ، مسخ شدہ لاش کو بالکل نئے، کلف دار لٹھے کے کفن میں لپیٹ دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ لاش اتنی مسخ تھی کہ غسل نہیں دیا جا سکتا تھا، چنانچہ اس پر مقدس آبِ زم زم چھڑکا گیا۔ لوگوں لگ رہا تھا کہ سڑاندھ کے مارے قے ہو جائے گی، لیکن کسی نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پولیس والوں نے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیے۔ آخر کار نثار کا جنازہ متولی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور جلوس مسلم قبرستان کی سمت روانہ ہوا۔ میّت پر ڈھیروں عطر چھڑکا  گیا اور کفن کے اوپر چمیلی کی کلیوں سے بنی چادر ڈال دی گئی تھی تاکہ سڑتے ہوئے گوشت کی بو چھپ سکے۔ لیکن چمیلی کی کوئی کلی کھلی نہیں۔ ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروس/ چند پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے۔

جنازے کے جلوس کو کافی طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن لوگ بھی خاصی تعداد میں جمع تھے۔ تابوت کسی کے کندھے پر ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا رہا۔ جلوس شہر میں سے گزرا اور قبرستان کی طرف بڑھا۔ قبرستان اب سامنے ہی تھا، شہر کے سرے پر۔ شاید مزید دس قدم باقی تھے۔ تبھی ایک آدمی لڑکھڑاتا ہوا نمودار ہوا جو چیخ چیخ اونچی آواز میں، بیہودگی سے گالیاں بک رہا تھا، گویا صورتِ حال کی ساری سنگینی اور اداسی کو چکناچور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ متولی نے جس لمحے اس شخص کو دیکھا، کہ اس وقت انھوں نے ہی جنازے کو کندھا دے رکھا تھا، تو دنگ رہ گئے۔ ان کا رنگ کسی مردے کی مانند زرد ہو گیا۔ جلوس میں شامل کئی دوسرے لوگوں کا بھی یہی حال ہوا۔ ان کے قدم وہیں تھم گئے۔ سب کے حلق خشک ہو گئے۔ اس آدمی نے زور سے کچھ اور مغلظات برسائیں، اور لڑکھڑاتا ہوا ایک چھوٹی سی گلی میں داخل ہو گیا۔

سب سے پہلے ہوش میں آنے والے متولی ہی تھے۔ انھوں نے پولیس کے اہلکاروں کی طرف دیکھا، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جلوس کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوئی ناخوشگوار بات واقع  نہ ہو، اور فی الفور محتاط ہوگئے۔ جلوس کو رکتے دیکھ کر ایک پولیس والا شرابی کو دھمکانے کے لیے لاٹھی اٹھائے آگے بڑھا۔ متولی نے آہستہ سے قدم آگے بڑھایا۔ جماعت نے پیروی کی۔ متولی صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کوئی آگے بڑھا اور سرہانے کی جانب سے تابوت کو اپنے کندھے پر لے لیا۔ متولی صاحب نے اپنا رومال نکالا اور چہرے سے ٹپکتا پسینہ صاف کیا۔ انھوں نے داؤد کو گھور کر دیکھا جس نے سر جھکا کر نظریں نیچی کر لیں۔ بہت سے لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کر رہے تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، بلکہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے قبرستان میں داخل ہو گئے۔

پولیس کے اہلکار باہر کھڑے رہے اور لاش کو مسلم قبرستان میں دفنایا جانے لگا۔ متولی کے سر کے نسیں پھٹنے کو آمادہ تھیں۔ آخر وہ کس کی لاش تھی جسے وہ دفنا رہے تھے؟

انھیں قطعی شک نہیں تھا کہ وہ شرابی نثار پینٹر ہی تھا۔ انھیں داؤد اور پینٹر کی بیوی پر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ بس چلتا تو ان کا قیمہ کر دیتے۔ لیکن راحت کی بات یہ تھی کہ جماعت کے بہت سے لوگ اگرچہ نثار کو پہچان گئے تھے لیکن کسی نے بھی پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ سب نے ان کی عزت بچالی تھی۔ لیکن یہ سکون لمحہ بھر میں ہوا ہو گیا۔ کائیں کائیں کا نوحہ کرتے ہزاروں کوّے ان کا دماغ نوچنے لگے۔ کیا یہ  ہندو کی لاش تھی؟ یا مسلمان کی؟ لاش اتنی بوسیدہ تھی کہ پہچانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے یہاں مٹی میں ملنا چاہیے، یا وہاں؟

لوگ جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ تدفین کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کی طرف بھاگے۔ وہ بالکل تنہا تھے، لیکن کوے ساتھ تھے، جو چیخ چیخ کر ٹھونگیں مارتے انھیں مار ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تھکن سے چور وہ گھر میں داخل ہوئے اور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک جب عارفہ نظر نہ آئی تو انھوں نے بے چینی سے آواز دی، ’’عارفہ! ایک گلاس پانی تو لا دو۔‘‘

عارفہ کے بجاے انھوں نے اپنی بیٹی کو باہر آتے دیکھا اور پوچھا، ’’آج اسکول نہیں گئیں؟‘‘

’’اماں گھر پر نہیں ہیں، نا۔ اسی لیے میں گھر پر رک گئی تھی۔‘‘

’’گھر پر نہیں ہے؟ کہاں چلی گئی؟‘‘

لڑکی نے آنکھوں پر سے، جو روتے روتے سرخ ہو چکی تھیں، اپنی جھکی ہوئی پلکیں اٹھاتے ہوئے جواب دیا، ’’انصار بہت بیمار ہے نا، اپّا! اماں ہسپتال میں اسی کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’ہیں؟ کیا کہہ رہی ہو؟ کون بیمار ہے؟ کب سے؟ کیا بیماری ہے؟‘‘

سوالوں کی بوچھار پر جواب میں لڑکی کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے ٹپکنے لگے۔

’’انصار کو پندرہ بیس دن سے تیز بخار تھا نا؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا دماغ کی کوئی بیماری ہے۔ بیماری کا نام شاید میننجائٹس ہے۔ گردن توڑ بخار۔‘‘ وہ بے قابو ہو کر رونے لگی۔

پانی کا گلاس پھسل کر متولی صاحب کے  ہاتھ سے گر پڑا۔

آوازیں پھر سے ان کے کانوں میں دھیرے دھیرے سر ابھارنے لگیں۔ انّا، میرے حصے کی جائیداد… انّا، مہربانی کر کے اس غریب بیوہ کی مدد کیجے…  مائی باپ، میری بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ دیجیے… حقدار ترسے تو انگار کا مینہہ برسے… آگ کی بارش، کوے… سیاہ، سرمئی … اور ان سے جھانکتے دھنک کے رنگ…

(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)

Next Article

ہندوستان بھول گیا ایران کا احسان؟

سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔

علامتی تصویر، فوٹو: وکی پیڈیا

حال ہی میں ہندوستان نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) میں بھی ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ پالیسی دہلی کے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ گہرے ہوتے اسٹریٹجک تعلقات کی عکاس ضرور ہے، لیکن دہلی شاید وہ سفارتی باب فراموش کر چکی ہے، جس میں ایران نے خاموشی سے ہندوستان کو اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیوں اور عالمی ذلت سے بچایا تھا۔ اور جب ایران خود عالمی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہوا، تو دہلی نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اکثر مغربی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔

سال 1994:ایک خفیہ سفارتی محاذ

مارچ 1994 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں، اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔

برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان اب تک سویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا، اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔

جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا، اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ، مگر فیصلہ کن سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا۔

اسپتال سے تہران تک — دنیش سنگھ کا مشن

ان دنوں ہندوستانی وزیرِ خارجہ دنیش سنگھ شدید علیل تھے اور دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں انتہائی نگہداشت میں زیرِ علاج تھے۔ جنیوا اجلاس سے چند روز قبل، رات کے وقت وزیراعظم راؤ اسپتال پہنچے۔ بظاہر وہ وزیرِ خارجہ کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، مگر اصل میں ایک خفیہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا۔

اگلے ہی روز دنیش سنگھ ایک ہندوستانی فضائیہ کے طیارے میں سوار ہو کر تہران روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ایک ڈاکٹر اور تین معاونین تھے۔ ان کے پاس وزیراعظم راؤ کا ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے لیے ایک ذاتی اور خفیہ خط تھا۔

اسی دوران اعلان کیا گیا کہ جنیوا میں ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے، جن کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ سلمان خورشید اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ہوں گے۔ یہ اعلان اصل مشن سے توجہ ہٹانے کی چال تھی۔

مارچ کی ایک سرد صبح، جب ہندوستانی طیارہ تہران ایئرپورٹ پر اترا، تو دنیش سنگھ وہیل چیئر پر تھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پروٹوکول توڑ کر ان کا استقبال کرنے خود ایئرپورٹ پہنچے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا؛

‘ایسی کیا افتاد آ گئی ہے کہ آپ اس حال میں تہران آئے ہیں؟’

سنگھ نے مسکرا کر وزیراعظم کا خط ان کے حوالے کر دیا۔

اسی روز دنیش سنگھ نے ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور اسپیکر ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں، اور کشمیر پر ہندوستانی موقف پیش کیا۔ صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی، بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔

جنیوا میں ایران کا یوٹرن

تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایران کے نمائندے نے — تہران کی براہِ راست ہدایت پر — اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے، اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔

یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی، اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

تہران مشن سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری حریت رہنماؤں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ دو دن بعد وہ دوبارہ گیلانی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے اور یقین دہانی کروائی کہ کشمیر ایرانی خارجہ پالیسی کا مستقل جز ہے۔

مگر جیسے ہی جنیوا میں ایرانی موقف بدلا، دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر اور حریت رہنما گم سم رہ گئے۔ سفیر عطار بھی حیرت زدہ تھے، لیکن اتنا ضرور کہہ رہے تھے؛

‘ہندوستان نے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جسے رد کرنا ایران کے لیے ممکن نہیں۔’

اسی کے بعد ایران-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا، جسے ‘امن کی پائپ لائن’ کہا گیا۔ چند ماہ بعد وزیراعظم راؤ نے برکینا فاسو میں غیر وابستہ تحریک(این اے ایم) کی سربراہی کانفرنس میں کہا کہ کشمیر پر ‘آزادی سے کم کسی آپشن پر بات ہو سکتی ہے’۔ ان کا جملہ؛

“Sky is the limit for Kashmir”

خاصا مشہور ہوا — مگر جیسے ہی عالمی دباؤ ختم ہوا، نہ پائپ لائن رہی، نہ کشمیری آپشن۔

وہ احسان جو یاد نہ رکھا گیا

جنیوا میں ایرانی موقف کی تبدیلی کا کریڈٹ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے، جبکہ اصل کارنامہ دنیش سنگھ کا تھا، جو تہران مشن کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا یہ سفارتی مشن دہلی کے سفارتی حلقوں میں کئی دہائیوں بعد بھی ایک ‘ٹاپ سیکرٹ آپریشن’ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ایران کی اس احسان مندی کا ہندوستان نے کبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیا۔ جب ایران پر جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیاں لگیں، یا جب امریکہ نے اس کی تیل برآمدات پر دباؤ ڈالا، تو ہندوستان  نے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمدات کم کر دیں، بلکہ تل ابیب اور واشنگٹن سے تعلقات مزید گہرے کیے۔

وہ برف پوش تہران، جس نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔

اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بےحسی بھی۔

Next Article

ملک کو ایک نئی تحریک آزادی کی ضرورت ہے …

جدوجہد آزادی صرف برطانوی راج کو ختم کرنے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے  لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ ہندوستان کو دوبارہ انہی جذبات کی ضرورت ہے…

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

آج پٹنہ میں گوپال کرشن گاندھی کی حال ہی میں شائع ہوکر منظر عام پر آنے والی کتاب دی انڈائنگ لائٹ کو پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیا یہ سائنس یا کسی اور قوت کے توسط سے ممکن ہے کہ گاندھی، نہرو، بابا صاحب اور مولانا آزاد جیسی شخصیات کے امتزاج والی کوئی نئی شخصیت آج کے دور کے لیے مل جائے اور عصری مسائل کے درمیان سماج کے لیے مشعل راہ (لیمپ پوسٹ)بن جائے۔ اس کے بعد سب  کچھ سلسلہ وار قائم ہوتا چلا گیا، اور یہ مضمون کاغذ پر اتر آیا۔ کیونکہ میں شاید ان کروڑوں ہندوستانیوں میں صرف شامل ہوں جو محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں ایک بار پھر تحریک آزادی کے جذبے کی ضرورت ہے۔

آزادی کے تقریباً  78 سال بعد ہندوستان ایک نازک موڑ پر ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری نظام، نوجوان آبادی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے۔ لیکن اس کے برعکس بعض اندرونی اور اہم پہلو کمزور ہوتے نظر آ رہے ہیں، مثلاً وہ اقدار اور جذبات؛جنہوں نے جدوجہد آزادی کو تحریک دی؛ انصاف، اتحاد، قربانی اور اخلاقی جرأت کے لیے گہری وابستگی پیدا کی۔


ہندوستان کو دوبارہ ان جذبوں کی ضرورت ہے – نوآبادیاتی نظام سے لڑنے کے لیے نہیں، بلکہ جمہوریت کی بدنما بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے لیے؛ عدم مساوات، نفرت اور آمرانہ رویے کو ختم کرنے کے لیے۔


ہندوستان کی آزادی کی لڑائی صرف برطانوی راج کے خاتمے کے لیے نہیں تھی۔ یہ اپنے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے، بے اختیار لوگوں کو بااختیار بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع معاشرے کی تشکیل کے لیے ایک تہذیبی تحریک تھی۔ اس دور کے قائدین – گاندھی، نہرو، امبیڈکر، آزاد، پٹیل اور ان گنت دوسرے – نے نہ صرف ایک آزاد ہندوستان بلکہ ایک منصفانہ اور جامع ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔

گوپال کرشن گاندھی کی کتاب ‘دی انڈائنگ لائٹ’۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

گاندھی نے سیاست میں اخلاقیات اور عدم تشدد کو متعارف کرایا۔ نہرو نے سائنس، جمہوریت اور سیکولرازم کو عوام الناس تک پہنچایا۔ امبیڈکر نے ملک کو ذات پات کے خاتمے اور سماجی مساوات کے لیے تیار کیا۔ مولانا آزاد نے تکثیریت اور تعلیمی فروغ کو ترقی کا نیا فلسفہ قرار دیا۔ یہ احساس انگریزوں سے نفرت سے پیدا نہیں ہوا بلکہ تمام تر تنوع اور تضادات کے باوجود ہندوستان اور اس کے لوگوں سے بے پناہ محبت کے جذبےسے پیدا ہوا تھا۔

موجودہ ہندوستان کے بہت سے مسائل بلاشبہ مختلف ہیں – لیکن سرسری نظر سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات اور تعصب تحریک آزادی کے وعدوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن ہمارے آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے اتحاد کو تیزی سے خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اختلاف رائے کی توہین اور جمہوری اصولوں کی تنزلی جدوجہد سے پیدا ہونے والے ہمارے متحرک سیاسی کلچر کو کچل رہی ہے۔ اور حالیہ برسوں کی ’شارٹ کٹ قوم پرستی‘ اکثر تحریک آزادی کی شدیداور اقدار پر مبنی قوم پرستی کو حاشیے پر ڈال رہی ہے۔


ہندوستان کی روح جو کبھی ایثاروقربانی، بحث اور آئیڈیل ازم سے عبارت تھی، آج مایوسی، بے حسی اور صارفیت کے بوجھ تلے دبی  جا رہی ہے۔ تحریک آزادی کی اقدار – سچائی، قربانی، مکالمہ، جامعیت اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت – لازوال ہیں۔ اس جذبے کو دوبارہ بیدار کرنے کا مطلب ماضی کی طرف مراجعت نہیں ہے بلکہ آج کے بحران اور مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے اخلاقی توانائی حاصل کرنا ہے۔


سچائی کے لیے کھڑے ہونے کے لیے آج ہمیں گاندھی کی ہمت کی ضرورت ہے، خواہ وہ غیر مقبول ہی کیوں نہ ہو۔ گاندھی کو ہندوستانی سماج اور سیاست کے اخلاقی سمت نما کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے ہندوستانی سیاست میں روحانیت اور تبدیلی کا ایک شاندار امتزاج لانے کی کوشش کی۔ انہوں نے استعمار کو صرف مزاحمت کی خاطر نہیں بلکہ سچائی اور عدم تشدد پر مبنی اخلاقی مزاحمت کے ساتھ چیلنج کیا۔

ہمیں سماجی ناانصافی پر سوالات اٹھانے اور حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے امبیڈکر کے شعلےکی ضرورت ہے۔ انہوں نے ذات پات کے ڈھانچے میں پھنسے معاشرے کے اخلاقی کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا۔ امبیڈکر کے لیے سیاسی آزادی سماجی اور معاشی آزادی کے بغیر بے معنی تھی۔ انہوں نے ہندوستان کو اس کا آئین دیا، ایک زندہ دستاویز جو آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے نظریات کی عکاس ہے۔ قدامت پسندی کا مقابلہ کرنے کی ان کی ہمت اور آئینی اخلاقیات پر ان کے بے مثال بھروسےکی آج پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

آج ہمیں جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے اور تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کے لیے نہرو کے وژن کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔  وژنری، نہرو مستقبل کی طرف دیکھتے تھے، سائنس، سیکولرازم، تعقل پسندی اور صنعتی ترقی سے چلنے والے ہندوستان کا تصور کیا کرتے تھے۔ وہ فکر و عمل میں جمہوریت پسند تھے، فرد سے زیادہ اداروں پر یقین رکھتے تھے۔ جہاں گاندھی جذبات کے سہارے عوام تک پہنچے، نہرو نے خیالات کا ایک فریم ورک تیار کیا، جس نے ہندوستان کی پارلیامانی جمہوریت، سائنسی تحقیق اور منصوبہ بندی کے نظام کی بنیاد رکھی۔

اور اسی روایت میں شکستہ قومی نفسیات کو تکثیریت اور رواداری سے درست کرنے کے لیے مولانا آزاد کی فہم ودانش کی ضرورت ہے۔ مجاہد آزادی اور دانشور مولانا آزاد ہندوستان کی جامع ثقافت کی علامت تھے۔ ایک روایتی مسلمان اور پرعزم قوم پرست ہونے کے ناطے وہ دو قومی نظریہ کے خلاف ڈٹے رہے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد، سیکولرازم اور تعلیم کو قوم کی تعمیر میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر قائم کیا۔ آزاد نہ صرف ایک سیاسی رہنما تھے بلکہ تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان ایک فکری پل بھی تھے، جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ حقیقی قوم پرستی تکثیریت سے ہم آہنگی کا تقاضہ کرتی ہے، یکسانیت نہیں، او  ان جیسے پلوں کی آج بھی اشد ضرورت ہے۔

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد ایک مشترکہ خواب تھا اور آج کے تناظر میں اس مشترکہ خواب کو ایک اجتماعی ذمہ داری کے طور پر زندہ کرنا ضروری ہے، خاص طور پر اس دور میں جب شخصیت پرستی کا غلبہ ہے اور اجتماعی شعور سکڑتا جا  رہا ہے۔

ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آزادی وہ شے نہیں ہے جو 1947 میں ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حاصل کی گئی ہو۔ یہ مسلسل چوکسی کا عمل ہے۔ تحریک آزادی ایک اخلاقی اور جذباتی انقلاب تھا – ہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب تاریخ کی کتابوں میں دفن نہیں ہوتے۔ وہ ان لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں جو نتائج کی پرواہ کیے بغیر آئینی اقدار پر سوال اٹھانے اور بحال کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

آج کے سیاسی ماحول میں، جہاں پولرائزیشن اکثر تکثیریت کو زیر کر لیتی ہے، اور بیان بازی دلیل کی جگہ لے لیتی ہے، ایسی جامع شخصیت کا تصور کرنا صرف ایک رومانوی خیال نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ضرورت ہے۔ اس طرح کی فکرمندی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قیادت کیسی ہونی چاہیے: جارحانہ نہیں بلکہ اصول پرست، تفرقہ انگیز نہیں بلکہ جامعیت پسند، نرگسیت پسند نہیں بلکہ انسانیت پر مرکوز ۔ گاندھی، نہرو، امبیڈکر اور آزاد کی جامع شخصیت کوئی خیال نہیں ہے۔ یہ ایک بنچ مارک ہے – ایک جامع آئینہ جو ہندوستان کے ضمیر، عقل، انصاف اور روح کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ ہم ایک شخص میں ان چارسرکردہ شخصیات کی کامل ترکیب کبھی نہیں پا سکتے ہیں، لیکن ہم ایسی قیادت کی خواہش  توکر ہی  سکتے ہیں جو ان کی مشترکہ میراث کی عکاسی کرے۔ ہندوستان کا خواب – سیکولر، جمہوری، منصفانہ اور جامعیت پسندی – اس سے کم  کچھ نہیں مانگتا۔

(منوج کمار جھا راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔)

Next Article

شہریت کا ثبوت دینے کے باوجود بنگلہ دیش بھیجے گئے چار ہندوستانی، مغربی بنگال پولیس انہیں  واپس لے کر آئی

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے چار افراد کو مہاراشٹر پولیس نے ہندوستانی شہری ہونے کے باوجود غیر قانونی بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں حراست میں لیتے ہوئے  بی ایس ایف کے حوالے کر دیا تھا، جس نے انہیں بنگلہ دیش بھیج دیا تھا۔ بنگال پولیس نے بتایا کہ انہیں مطلع  کیےبغیر ہندوستانی شہریوں کوبنگلہ دیش بھیج دیا گیا تھا۔

مرشد آباد کے جن لوگوں کو بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا تھا، انہیں مغربی بنگال پولیس واپس لے آئی۔ (تصویر: مغربی بنگال پولیس)

نئی دہلی: مغربی بنگال پولیس سوموار(16 جون) کو چار افراد کو واپس لے آئی ہے، جنہیں ہندوستانی حکام نے اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں، بنگلہ دیش  بھیج دیا تھا ۔ ان میں مرشد آباد ضلع کے تین مستقل باشندے اور بردھمان کے ایک رہائشی شامل ہیں۔

ان افراد کو حال ہی میں مہاراشٹر پولیس نے غیر قانونی بنگلہ دیشی ہونے کے شبہ میں حراست میں لیا تھا اور بعد میں انہیں بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کر دیا گیا تھا، جس نے انہیں سرحد پار بنگلہ دیش بھیج دیا تھا۔

سوموار کو مرشد آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے ان افراد کی ہندوستانی شہریت کے تعین کے لیے مقامی تحقیقات کیں۔ تصدیق کے بعد متعلقہ دستاویز اور شہریت کا ثبوت بی ایس ایف کے حوالے کر دیا گیا۔

مرشد آباد پولیس نے ایک بیان میں کہا،’بی ایس ایف نے بی جی بی (بارڈر گارڈ بنگلہ دیش) کے ساتھ ایک فوری فلیگ میٹنگ کی اور آخر کار چاروں افراد کو بنگلہ دیش سے لایا اور چند گھنٹے قبل انہیں ہندوستانی سرحد پر کوچ بہار پولیس کے حوالے کر دیا۔ انہیں واپس لانے کے لیے مرشد آباد ضلع پولیس کی ایک ٹیم پہلے ہی روانہ کر دی گئی ہے۔ امید ہے کہ چاروں افراد بحفاظت وطن واپس لوٹ آئیں گے۔’

جن چار افراد کو واپس لایا گیا ہے ان کی شناخت- محبوب شیخ، ناظم الدین منڈل، منارالشیخ اور مصطفیٰ کمال شیخ کے طور پر ہوئی ہے۔

اس سے قبل انڈین ایکسپریس نے اطلاع دی تھی کہ مغربی بنگال پولیس اور مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈنے چار میں سے ایک – 36 سالہ محبوب شیخ – کی شہریت کا ثبوت پیش  کیا تھا، اس  کے باوجود اسے مہاراشٹر پولیس کے حوالے کرنے کے بعد بی ایس ایف نے بنگلہ دیش کی سرحد کے پار بھیج دیا تھا۔

شیخ کی  بیوی اور تین بچے ہیں، جو مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے بھاگابنگولا کے مہیستھلی گرام پنچایت علاقے کے حسین نگر گاؤں میں رہتے ہیں۔

انہوں نے مغربی بنگال حکومت کو مطلع کرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی

مغربی بنگال مائیگرنٹ ویلفیئر بورڈ کے چیئرمین سمیر الاسلام نے کہا، ‘شیخ کے اہل خانہ نے ہم سے رابطہ کیا، جس کے بعد ہم نے مہاراشٹرا پولیس سے رابطہ کیا۔ تمام (مطلوبہ) دستاویزات انہیں بھیجے گئے۔ انہوں نے مغربی بنگال حکومت کو مطلع کرنے کی زحمت تک نہیں کی اور شیخ کو بی ایس ایف نے بنگلہ دیش بھیج دیا۔’

شیخ کے بھائی مجیب نے اخبار کو بتایا کہ وہ گزشتہ دو سالوں سے مہاراشٹر میں کام کر رہے تھے۔ مجیب نے کہا، ‘جب وہ چائے پی رہے تھے،  توپولیس نے اسے بنگلہ دیشی ہونے کے شبے میں اٹھالیا اور کنکیہ پولیس اسٹیشن لے گئی۔’

خاندان کے لوگوں نے بتایا کہ انہوں نے تمام دستاویزات بشمول شیخ کا ووٹر شناختی کارڈ، آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور اس کے خاندانی شجرہ نسب کو، جن کی تصدیق پنچایت نے نسلوں سے کی ہے، مہاراشٹر پولیس کو بھیج دی ہے۔

سنیچر (14 جون) کو شیخ نے اپنے اہل خانہ کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ بی ایس ایف نے انہیں صبح 3.30 بجے بنگلہ دیش بھیج دیا ۔

ان کے بھائی مجیب نے بتایا،’اس نے کہا کہ اسے بی ایس ایف نےسنیچر کی صبح تقریباً 3.30 بجے بنگلہ دیش بھیجا تھا۔ انہوں نے ایک گاؤں میں پناہ لی جہاں سے انہوں  نے فون کیا تھا۔ وہ رو رہے تھے۔’

مہاراشٹر پولیس نے اپنا دفاع کیا

اپنی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے مہاراشٹر پولیس نے کہا کہ شیخ اپنی قومیت ثابت کرنے کے لیے دستاویز پیش کرنے میں ‘ناکام’ رہے تھے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے آدھار اور پین کارڈ پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان کی ‘پش بیک’ پالیسی کے تحت سینکڑوں مشتبہ غیر قانونی تارکین وطن کو مشرقی سرحد کے راستے بنگلہ دیش بھیجا گیا ہے۔ ملک بھر میں پولیس غیر قانونی تارکین کی شناخت کے لیے مہم چلا رہی ہے۔

وہیں، بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس سے پہلے 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط بھیجا تھا ، جس میں ‘لوگوں کو ملک میں ایسے دھکیلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور ہندوستانی حکومت سے ملک بدری کے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’