جو عوام  آج عمر کو دہشت گرد کہہ ر ہی ہے، وہ انہی  کے لیے کام کرنا چاہتا تھا…

04:54 PM Dec 24, 2020 | کوشک راج

دہلی پولیس نے لکھا ہے کہ عمر خالد سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے۔آپ کو بھی یہی لگتا ہے تو کم سے کم یہ مطالبہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس کے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکار کو پہچان لیتے ہیں۔

عمر خالد، ٖفوٹو بہ شکریہ: فیس بک

آج 23 دسمبر کو عمر خالد کی گرفتاری کے 100 دن مکمل ہو گئے۔

اپنی گرفتاری سے 10 دن پہلے عمر نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ کچھ ایسے نوجوانوں کو ایک ساتھ جوڑنا چاہتا ہے جو سوشل میڈیا پر نفرت کی سیاست پر لگام لگا سکیں اور عوام  کے ضروری مدعوں پر بات کر سکیں۔جو عوام آج عمر کو دہشت گرد کہہ رہی ہے، عمر اسی عوام  کے لیے کام کرنا چاہتا تھا۔ ایمانداری سے بتاؤں تو کبھی کبھی مجھے اس کی اس امید پر ہنسی آتی ہے، مگر فخربھی ہوتا ہے۔

ویسے آج میں عمر کے سیاسی نظریات کے بارے میں بات کرنے والا ہوں اور اس کے لیے میں نے عمر سے ہوئی نجی بات چیت اور اس کے بعض مضامین  کا سہارا لیا ہے۔عمر سے میری پہلی ملاقات کسی سرکار مخالف مظاہرہ  میں نہیں ہوئی بلکہ دہشت گرد مخالف مظاہرہ  میں ہوئی۔ اپریل 2019 میں سری لنکا میں چرچ پر دہشت گردانہ  حملہ ہوا تھا، جس میں 250 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

حملے کے ایک دن بعد ‘یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ’ نام کے ادارےنے دہلی کے ‘سیکریڈ ہارٹ کیتھیڈرل’ چرچ کے باہر سری لنکا کے عیسائیوں کے ساتھ اتحادکا مظاہرہ کرنے کے لیے ہیومن چین  بنانے کی اپیل کی تھی۔ عمر بھی اس ہیومن چین  میں آئے تھے۔

مگر دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں عمر کو ‘اسلامی شدت پسند’ کہا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ کون سی شدت پسند تنظیم  دہشت گردی  کے خلاف ہیومن چین  بنانے کی ٹریننگ دیتی ہے۔شاید اسی کے جواب میں دہلی پولیس نے آگے یہ بھی لکھا ہے کہ عمر سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا تھا۔ یہ ممکن ہے کہ عمر یہاں بھی سیکولر اور انسان دوست ہونے کی اداکاری  کرنے آیا ہو۔

عمر اپنے اس کردار میں اس قدر ڈوب چکا تھا کہ اس نے کشمیر میں کشمیری پنڈت اجے پنڈتا کے قتل کے خلاف بھی آواز اٹھائی اور ٹوئٹ کرکے کہا کہ دنیا بھر میں اقلیتوں  پر حملے بند ہونے چاہیے۔دہلی پولیس کے چشمے سے اسے نہ دیکھیں، تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ عمر کسی مذہب کے خلاف نہیں، بلکہ ظلم کے خلاف ہے۔

عمر کی‘لیفٹ شدت پسندی’

دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں عمر کو ‘لیفٹ کے نظریے کا شدت پسند’ بھی بتایا ہے۔ میں نے پہلا شدت پسند لیفٹسٹ دیکھا ہے جو عوامی طور پر اپنے کئی خطابات میں لوگوں کو مہاتما گاندھی کے راستے پر چلنے کے لیے کہتا ہے!

عمر کے جس خطاب کو دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں بھڑکاؤ بتایا ہے اس میں بھی عمر نے ستیاگرہ اور عدم تشدد کے راستے پر چلنے کی اپیل کی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر گاندھی وادی ہے یا اس کوگاندھی سے اندھی عقیدت ہے۔ عمر عوامی طور پر خود کو لیفٹسٹ بتاتا رہا ہے۔ مگر عمر کی خاصیت ہی یہی ہے کہ اس کے اندر کسی بھی نظریے کو لےکر شدت پسندی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ٹیکسٹ بک سیاست کرتا ہے۔

اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ وہ گاندھی کی کمیوں کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ عمر اُن لیفٹسٹ میں سے نہیں ہے جو اس سچائی سے منھ موڑ لے کہ آزادی کے بعد اگر کسی نے زمین پر اتر کر ہندوؤں سے کہا تھا کہ یہ ملک صرف ان کا نہیں، بلکہ مسلمانوں کا بھی ہے تو وہ گاندھی تھے۔

عمر نے اپنی ایک تقریر میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ بٹوارے کے بعد گاندھی فساد متاثرہ  علاقوں میں جاکر دنگے ختم  کراتے تھے اور انہوں نے اپنا آخری ستیاگرہ بھی دہلی میں آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم  کے خلاف کھڑے ہوکر ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا تھا۔

اسی ستیاگرہ کے کچھ دنوں بعد آر ایس ایس کے ناتھورام گوڈسے نے گاندھی کا قتل  کر دیا تھا۔

عمر کی مذہبی  پہچان

عمر کی گرفتاری کے بعد اس کے بارے میں ایک تصور جو نمایاں ہو کر آئی، وہ یہ تھی کہ عمر خداکو نہیں مانتا ہے اور اپنی مسلم پہچان کو اتنا ظاہر نہیں کرتا ہے جتنا کرنا چاہیے۔مجھے لگتا ہے عمر کے خیالات کے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی کچھ نہیں ہو سکتی۔ شاید یہ لوگ یہ بھول رہے ہیں کہ عمر نے #ProphetOfCompassion ٹوئٹر ٹرینڈ میں حصہ لیا تھا۔

اس وقت میں نے عمر سے کہا بھی تھا کہ اس کے لیفٹسٹ دوست اس کی بہت تنقیدکر رہے ہیں۔ تب عمر نے مجھے جواب دیا تھا کہ اسے یہ پتہ تھا کہ کون لوگ اس کی تنقید کریں گے، پھر بھی اس نے یہ کیا کیونکہ اسے یہ سہی لگا۔

بھگوان یا اللہ پر یقین رکھنا کسی کا نجی فیصلہ ہے۔ مگر اللہ پر یقین کرنے والوں پر ظلم ہو رہا ہے یہ سمجھنے کے لیے اللہ پر یقین رکھنا ضروری نہیں ہے۔ مجھے بھی ناستک ہوتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔

عمر نے اپنے ایک مضمون  میں یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس نے ایک لیفٹسٹ ہوتے ہوئے بھی اس ٹوئٹر ٹرینڈ میں حصہ کیوں لیا۔عمر نے لکھا کہ جب رائٹ ونگ #مسلموں_کا_سمپورن_بہشکار جیسا ٹرینڈ چلا رہے تھے تو اس کے جواب میں اسے یہی سہی لگا کہ اسلام کے امن کاپیغام دیا جائے۔

مذہبی  پہچان کی بنیاد پر ہونے والی ہراسانی پر روشنی  ڈالتے ہوئے عمر نے لکھا کہ 2016 میں ایک ساتھ تین لوگوں کی گرفتاری ہوئی مگر فرضی طریقے سے پاکستان سے صرف اسے جوڑا گیا۔ اس کی لیفٹسٹ پہچان بھی اسے اس مذہبی ہراسانی  سے بچا نہیں سکی۔

اسی بات پر زور دیتے ہوئے عمر نے لکھا کہ اس وقت ہندستان میں کوئی مسلمان مذہبی  ہو یا ملحد مگر اس پر حملہ اس کی  مذہبی  پہچان کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔آپ کو لگتا ہے کہ یہ بات کوئی ایسا انسان لکھ سکتا ہے جسے اپنی مذہبی  پہچان اور اس سے جڑی ہراسانی  کا احساس نہ ہو؟


یہ بھی پڑھیں:عمر خالد ’دہشت گرد‘ ہے کہ نہیں؟


شہریت قانون کی مخالفت میں ہونے والے مظاہرےکے دوران بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا مظاہرہ کی فطرت  مذہبی  ہونی  چاہیے۔جب اس بارے میں میری عمر سے بات ہوئی تب عمر نے یہ کہا کہ مظاہرہ اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہیے جو شاہین باغ  کی خواتین  دکھائیں اور ان کا جو بھی فیصلہ ہو وہ ہمیں قبول کرنا چاہیے۔ اس مظاہرہ  کو لےکر عمر کیا سمجھ رکھتا ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو شاہین باغ پر عمر کےمضمون  کو پڑھنا چاہیے۔

عمر نے اس مضمون  میں لکھا کہ شاہین باغ  کےذریعے مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ووٹ بینک کے چنگل سے آزاد ہوکر اپنی قیادت خود قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اس مظاہرے کے مقصدپر روشنی ڈالتے ہوئے عمر نے لکھا کہ اس کے ذریعے مسلمان صرف سیکولرازم ہی نہیں بچا رہے ہیں، بلکہ یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں برابر کے شہری ہیں۔

تصورات کو توڑنے والا

شاید عمر کی تنقید کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمر اپنی پہچان سے اوپر اٹھتے ہوئے ان مسئلوں پر بھی اپنی رائے رکھتا ہے جن پر رائے رکھنے کی امیدیہ سماج مسلمانوں سے نہیں کرتا ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار بات چیت کے دوران عمر نے یہ کہا تھا کہ اکثریتی  سماج نے مسلمانوں کو ایک بندھن میں باندھ دیا ہے کہ مسلمان ان مدعوں پر بول سکتا ہے اور ان پر نہیں۔

عمر نے آگے مجھ سے پوچھا کہ وہ ایک مسلمان ہوکر تعلیم پر، صحت پر، روزگار پر کیوں نہیں بول سکتا۔ کیا یہ مسلمانوں کے مسئلے نہیں ہیں؟عمر کا یہ ماننا ہے کہ مسلمان اپنے وجودکی لڑائی لڑ سکتے ہیں اور سیکولر پارٹیوں کی  یہ ذمہ  داری  ہے کہ وہ  مسلمانوں کے لیے تعلیم ، صحت اور روزگار بھی یقینی  بنائے۔

اسی تناظر میں عمر نے 2019 میں مشرقی  دہلی سے عام آدمی پارٹی کی امیدوار آتشی سے پوچھتے ہوئے ایک مضمون  میں عام آدمی پارٹی کے دوہرے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ پوچھا تھا کہ آخر کیاوجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی دوسرے علاقوں میں تو تعلیم اور صحت کے نام پر ووٹ مانگتی ہے مگر مسلم علاقوں میں صرف یہ مشتہر کرتی ہے کہ بی جے پی کو ہرانا ہے تو انہیں ووٹ دیں۔

عمر نے یہ بھی پوچھا کہ کیا عام آدمی پارٹی کو یہ پتہ ہے کہ اوکھلا میں محلہ کلینک کی حالت قابل رحم  ہے، ایک اسکول تک نہیں ہے، یہاں تک کہ کئی گھروں میں پینے کے پانی کی سپلائی بھی نہیں ہے۔عمر کی اس سوچ کا نجی طور پر مجھے احساس تب ہوا جب لاک ڈاؤن کے شروعاتی دنوں میں مظاہرہ کو جاری رکھنے کے مدعے پر عمر سے بات ہوئی۔

میرا یہ ماننا تھا کہ شہریت  قانون اور مجوزہ  این آرسی کے خلاف اسی طرح  سے سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہرہ  جاری رکھنا چاہیے۔تب عمر نے جواب دیا کہ بی جے پی کے ان بانٹنے والے قوانین کی مخالفت تو ہم جاری رکھیں گے ہی لیکن ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ کورونا کے دور میں ملک کی عوام  کے سامنے سب سے بڑا مدعا طبی خدمات کا ہے۔

اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے عمر نے پورے لاک ڈاؤن کے دوران ڈاکٹروں کے لیے پی پی ای کٹ اور عام لوگوں کے لیے بہترطبی سہولیات کی مانگ کرتے ہوئے آواز اٹھائی۔

ساتھ کھڑے لوگوں سے اختلاف کرنے والا

اختلاف کرنا اور سوال پوچھنا عمر کی سیاست کے جڑ میں ہے۔ عمر نے اپنے لیفٹسٹ دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ  اٹھاتے ہوئے پیغمبر محمد کے بھائی چارے کاپیغام  لوگوں تک پہنچایا۔ٹھیک اسی طرح عمر نے اپنے مسلمان دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ  اٹھاتے ہوئے ترکی میں ہی صوفیہ چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی۔

کتنی دلچسپ بات ہے کہ ایک مسلمان چرچ کو مسجد میں بدلے جانے کی مخالفت کرنے کے باوجود اسلامی شدت پسند کہلایا جا رہا ہے مگر کچھ ہندوتوادی رہنما کھلے عام ایک مسجد گراکر بھی عدالت سے بری قرار دیے گئے!بہرحال، میں نے تب بھی عمر سے کہا کہ کچھ مسلمان اس کی بہت تنقید کر رہے ہیں۔ تب بھی عمر نے یہی کہا کہ اسے پتہ تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، پھر بھی اس نے ایسا کیا کیونکہ اسے یہ سہی لگا۔

نجی طور پر عمر سے میرے اختلافات شروعاتی دنوں کی دوستی میں ہی ابھر کر سامنے آ گئے تھے۔سال 2019 کے عام انتخابات کے بعد تمام لوگوں کی طرح میری بھی یہی سوچ تھی کہ بی جے پی  کو ووٹ دینے کی  واحد وجہ  نفرت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ  ممکن ہی نہیں ہے۔

میں نے اسی تناظرمیں ایک نظم لکھی، جس میں میں نے عوام  کو جم کر نشانے پر لیا۔ عام طور پر عمر میرا لکھا ہوا سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتا تھا، مگر وہ نظم عمر نے شیئر نہیں کی۔میں نے جب اس کی وجہ  پوچھی تب عمر نے یہ صاف کر دیا کہ وہ میری نظم سے اتفاق  نہیں رکھتا۔ عمر نے صاف کہا کہ ہم ملک  کے اندر نئی عوام  تو نہیں لا سکتے، اور کل تک یہی عوام  دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا کرتی تھی اس لیے اپوزیشن  کو عوام  کو قصوردینے کے بجائے ان کا اعتماد پھر سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حالانکہ عمر نے یہ بھی کہا کہ عوام  میں نفرت تو بڑھی ہی ہے مگر ووٹ دینے کی  صرف یہی وجہ نہیں ہوتی ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ عمر اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کے تصورات سے بھی الگ ہوکر آزادانہ خیال رکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

جس طرح سے عمر اختلافات کرتا ہے ایسا لگتا ہے مانو عمر اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر مدعے پر ایک جیسا سوچیں، مگر پھر بھی فاشزم کے خلاف لڑائی میں متحد ہو سکتے ہیں۔

آخرمیں یہی کہوں گا کہ آپ نے دیکھا کہ عمر کے اندر ہر ترقی پسند خیال کا تال میل  ہے، مگر کسی نظریے کو لےکر شدت پسندی نہیں ہے۔ یہ کہنا سہی ہوگا کہ عمر کے اندر وقت کی ضرورت کے حساب سے اپنے خیالات کو ڈھال کر ایک ترقی پسند سیاسی اتحاد بنانے کی عملی   صلاحیت ہے۔

اس کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ عمر اداکاری  کر رہا تھا تو کم سے کم آپ یہ مانگ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس میں بیٹھے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکارکو پہچان لیتے ہیں۔انہیں عمر کو اپنی فلموں میں مرکزی رول  ادا کرنے کا موقع بھی دینا چاہیے کیونکہ عمر اگر ابھی تک اداکاری  کر رہا تھا تو اس سے بہترین اداکار تو کوئی ہو نہیں سکتا!

(مضمون نگار دہلی میں انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹ اور شاعرہیں۔)