دہلی پولیس نے لکھا ہے کہ عمر خالد سیکولرازم کا نقاب اوڑھ کر شدت پسندی کو بڑھاوا دیتا ہے۔آپ کو بھی یہی لگتا ہے تو کم سے کم یہ مطالبہ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس کے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکار کو پہچان لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عمر خالد ’دہشت گرد‘ ہے کہ نہیں؟
شہریت قانون کی مخالفت میں ہونے والے مظاہرےکے دوران بھی یہ سوال اٹھا تھا کہ کیا مظاہرہ کی فطرت مذہبی ہونی چاہیے۔جب اس بارے میں میری عمر سے بات ہوئی تب عمر نے یہ کہا کہ مظاہرہ اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہیے جو شاہین باغ کی خواتین دکھائیں اور ان کا جو بھی فیصلہ ہو وہ ہمیں قبول کرنا چاہیے۔ اس مظاہرہ کو لےکر عمر کیا سمجھ رکھتا ہے یہ جاننے کے لیے آپ کو شاہین باغ پر عمر کےمضمون کو پڑھنا چاہیے۔ عمر نے اس مضمون میں لکھا کہ شاہین باغ کےذریعے مسلمان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے ووٹ بینک کے چنگل سے آزاد ہوکر اپنی قیادت خود قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس مظاہرے کے مقصدپر روشنی ڈالتے ہوئے عمر نے لکھا کہ اس کے ذریعے مسلمان صرف سیکولرازم ہی نہیں بچا رہے ہیں، بلکہ یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی اس ملک میں برابر کے شہری ہیں۔ تصورات کو توڑنے والا شاید عمر کی تنقید کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عمر اپنی پہچان سے اوپر اٹھتے ہوئے ان مسئلوں پر بھی اپنی رائے رکھتا ہے جن پر رائے رکھنے کی امیدیہ سماج مسلمانوں سے نہیں کرتا ہے۔مجھے یاد ہے ایک بار بات چیت کے دوران عمر نے یہ کہا تھا کہ اکثریتی سماج نے مسلمانوں کو ایک بندھن میں باندھ دیا ہے کہ مسلمان ان مدعوں پر بول سکتا ہے اور ان پر نہیں۔ عمر نے آگے مجھ سے پوچھا کہ وہ ایک مسلمان ہوکر تعلیم پر، صحت پر، روزگار پر کیوں نہیں بول سکتا۔ کیا یہ مسلمانوں کے مسئلے نہیں ہیں؟عمر کا یہ ماننا ہے کہ مسلمان اپنے وجودکی لڑائی لڑ سکتے ہیں اور سیکولر پارٹیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے تعلیم ، صحت اور روزگار بھی یقینی بنائے۔ اسی تناظر میں عمر نے 2019 میں مشرقی دہلی سے عام آدمی پارٹی کی امیدوار آتشی سے پوچھتے ہوئے ایک مضمون میں عام آدمی پارٹی کے دوہرے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ پوچھا تھا کہ آخر کیاوجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی دوسرے علاقوں میں تو تعلیم اور صحت کے نام پر ووٹ مانگتی ہے مگر مسلم علاقوں میں صرف یہ مشتہر کرتی ہے کہ بی جے پی کو ہرانا ہے تو انہیں ووٹ دیں۔ عمر نے یہ بھی پوچھا کہ کیا عام آدمی پارٹی کو یہ پتہ ہے کہ اوکھلا میں محلہ کلینک کی حالت قابل رحم ہے، ایک اسکول تک نہیں ہے، یہاں تک کہ کئی گھروں میں پینے کے پانی کی سپلائی بھی نہیں ہے۔عمر کی اس سوچ کا نجی طور پر مجھے احساس تب ہوا جب لاک ڈاؤن کے شروعاتی دنوں میں مظاہرہ کو جاری رکھنے کے مدعے پر عمر سے بات ہوئی۔ میرا یہ ماننا تھا کہ شہریت قانون اور مجوزہ این آرسی کے خلاف اسی طرح سے سوشل میڈیا کے ذریعے مظاہرہ جاری رکھنا چاہیے۔تب عمر نے جواب دیا کہ بی جے پی کے ان بانٹنے والے قوانین کی مخالفت تو ہم جاری رکھیں گے ہی لیکن ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ کورونا کے دور میں ملک کی عوام کے سامنے سب سے بڑا مدعا طبی خدمات کا ہے۔ اسی کو دھیان میں رکھتے ہوئے عمر نے پورے لاک ڈاؤن کے دوران ڈاکٹروں کے لیے پی پی ای کٹ اور عام لوگوں کے لیے بہترطبی سہولیات کی مانگ کرتے ہوئے آواز اٹھائی۔ ساتھ کھڑے لوگوں سے اختلاف کرنے والا اختلاف کرنا اور سوال پوچھنا عمر کی سیاست کے جڑ میں ہے۔ عمر نے اپنے لیفٹسٹ دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ اٹھاتے ہوئے پیغمبر محمد کے بھائی چارے کاپیغام لوگوں تک پہنچایا۔ٹھیک اسی طرح عمر نے اپنے مسلمان دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ اٹھاتے ہوئے ترکی میں ہی صوفیہ چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی۔ کتنی دلچسپ بات ہے کہ ایک مسلمان چرچ کو مسجد میں بدلے جانے کی مخالفت کرنے کے باوجود اسلامی شدت پسند کہلایا جا رہا ہے مگر کچھ ہندوتوادی رہنما کھلے عام ایک مسجد گراکر بھی عدالت سے بری قرار دیے گئے!بہرحال، میں نے تب بھی عمر سے کہا کہ کچھ مسلمان اس کی بہت تنقید کر رہے ہیں۔ تب بھی عمر نے یہی کہا کہ اسے پتہ تھا کہ ایسا ہونے والا ہے، پھر بھی اس نے ایسا کیا کیونکہ اسے یہ سہی لگا۔ نجی طور پر عمر سے میرے اختلافات شروعاتی دنوں کی دوستی میں ہی ابھر کر سامنے آ گئے تھے۔سال 2019 کے عام انتخابات کے بعد تمام لوگوں کی طرح میری بھی یہی سوچ تھی کہ بی جے پی کو ووٹ دینے کی واحد وجہ نفرت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ممکن ہی نہیں ہے۔ میں نے اسی تناظرمیں ایک نظم لکھی، جس میں میں نے عوام کو جم کر نشانے پر لیا۔ عام طور پر عمر میرا لکھا ہوا سوشل میڈیا پر شیئر کر دیتا تھا، مگر وہ نظم عمر نے شیئر نہیں کی۔میں نے جب اس کی وجہ پوچھی تب عمر نے یہ صاف کر دیا کہ وہ میری نظم سے اتفاق نہیں رکھتا۔ عمر نے صاف کہا کہ ہم ملک کے اندر نئی عوام تو نہیں لا سکتے، اور کل تک یہی عوام دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا کرتی تھی اس لیے اپوزیشن کو عوام کو قصوردینے کے بجائے ان کا اعتماد پھر سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حالانکہ عمر نے یہ بھی کہا کہ عوام میں نفرت تو بڑھی ہی ہے مگر ووٹ دینے کی صرف یہی وجہ نہیں ہوتی ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ عمر اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کے تصورات سے بھی الگ ہوکر آزادانہ خیال رکھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جس طرح سے عمر اختلافات کرتا ہے ایسا لگتا ہے مانو عمر اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ہر مدعے پر ایک جیسا سوچیں، مگر پھر بھی فاشزم کے خلاف لڑائی میں متحد ہو سکتے ہیں۔ آخرمیں یہی کہوں گا کہ آپ نے دیکھا کہ عمر کے اندر ہر ترقی پسند خیال کا تال میل ہے، مگر کسی نظریے کو لےکر شدت پسندی نہیں ہے۔ یہ کہنا سہی ہوگا کہ عمر کے اندر وقت کی ضرورت کے حساب سے اپنے خیالات کو ڈھال کر ایک ترقی پسند سیاسی اتحاد بنانے کی عملی صلاحیت ہے۔ اس کے بعد بھی آپ کو لگتا ہے کہ عمر اداکاری کر رہا تھا تو کم سے کم آپ یہ مانگ تو کر ہی سکتے ہیں کہ دہلی پولیس میں بیٹھے افسروں کو فلم ہدایت کار بن جانا چاہیے کیونکہ وہ لوگوں کے اندر چھپے اداکارکو پہچان لیتے ہیں۔انہیں عمر کو اپنی فلموں میں مرکزی رول ادا کرنے کا موقع بھی دینا چاہیے کیونکہ عمر اگر ابھی تک اداکاری کر رہا تھا تو اس سے بہترین اداکار تو کوئی ہو نہیں سکتا! (مضمون نگار دہلی میں انجینئرنگ کے اسٹوڈنٹ اور شاعرہیں۔)