لوک سبھا میں مرکزی حکومت نے ایک حالیہ جواب میں بتایا تھا کہ سال 2016-2019 کے بیچ یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں میں سے محض 2.2 فیصدی میں سزا ہوئی ہے۔
نئی دہلی: لوک سبھا میں وزارت داخلہ کی جانب سے دستیاب کرائے گئے اعدادوشمار کے مطابق،یو اے پی اے کے تحت سال 2015 کے مقابلے سال 2019 میں 72 فیصدی زیادہ گرفتاریاں ہوئیں۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،وزارت نے بتایا کہ یو اے پی اے کےتحت 2019 میں ملک بھر میں درج کیے گئے 1226 معاملوں میں 1948 لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے ایک تحریری جواب میں کہا، ‘سال2015 اور 2018 کے بیچ 897، 922، 901 اور 1182 معاملے درج کیے گئے تھے اور 1128، 999، 1554 اور 1421 لوگ گرفتار کیے گئے۔’اعدادوشمار کے مطابق، سال 2019 میں سب سےزیادہ معاملے منی پور میں درج کیے گئے۔ اس کے بعد تمل ناڈو میں 270،جموں کشمیر میں 255، جھارکھنڈ میں 105 اور آسام میں 87 معاملے درج کیے گئے۔
حالانکہ، سال 2019 میں یو اے پی اے کے تحت سب سے زیادہ498 لوگوں کی گرفتاری اتر پردیش میں ہوئی۔ اس کے بعد منی پور میں 386،تمل ناڈو میں 308، جموں کشمیر میں 227 اور جھارکھنڈ میں 202 لوگوں کو گرفتار کیا۔
دی ہندو کے مطابق، وزیر نے کہا کہ یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں کی جانچ ریاستی پولیس یااین آئی اے نے کی۔ جہاں تک این آئی اے کی بات ہے تو دہشت گردی سے متعلق معاملوں کی فوراً سنوائی کے لیے ملک بھر میں اب تک 48خصوصی عدالتیں بنائی جا چکی ہیں۔
بتا دیں کہ یو اے پی اے کے تحت ضمانت پانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور جانچ ایجنسی کے پاس چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے 180 دن کا وقت ہوتا ہے۔
یو اے پی اے کی دفعہ43-ڈی (5) میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک ملزم کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جائےگا،اگر عدلیہ کیس ڈائری کے تجزیہ یا سی آر پی سی کی دفعہ173 کے تحت بنائی گئی رپورٹ پراپنی رائے کا اظہار کرتی ہے کہ یہ ماننے کے لیے صحیح بنیاد ہے کہ اس طرح کے شخص کے خلاف الزام لگانابادی النظر میں صحیح ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے طے شدہ اصول کے برعکس یو اے پی اے معاملوں میں ضمانت کے استثنیٰ ہونے کی وجہ سے اس قانون کے تحت الزامات کا سامنا کرنے والوں نے
اس عمل کو ایک سزابتایا ہے۔حالانکہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں اس بات کی امید کی گئی ہے کہ قانون کے تحت ملزمین کے پاس ضمانت پانے کا موقع ہوتا ہے۔
لوک سبھا میں سرکار نے ایک حالیہ جواب میں کہا تھا کہ سال 2016-2019 کے بیچ یو اے پی اے کے تحت درج معاملوں میں سے
محض 2.2 فیصدی میں سزا ہو پائی۔