کشمیر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے ایک کشمیر یونیورسٹی نے ایم اے انگلش کے نصاب سےآغا شاہد علی کی تین نظمیں اور بشارت پیر کی ایک یادداشت کو ہٹا دیا ہے۔ وہیں کلسٹر یونیورسٹی سری نگر نے بھی علی کی دو نظموں کو نصاب سے باہرکر دیا ہے۔
(بائیں سے) بشارت پیر، کشمیر یونیورسٹی اور آغا شاہد علی۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/فیس بک/یوٹیوب اسکرین گریب)
کشمیر کی دو ممتاز یونیورسٹیوں نے بغیر کسی وضاحت کے اپنے نصاب سے دو معروف کشمیری مصنفین کی تخلیقات کو ہٹا دیا ہے۔
کشمیر کے اعلیٰ تعلیمی ادارے کشمیر یونیورسٹی (یو او کے)نے انگریزی کے پوسٹ گریجویٹ پروگرام سے کشمیری نژاد امریکی شاعر آغا شاہد علی کی تین نظموں کے ساتھ ساتھ بشارت پیر کی یادداشت کو نصاب سے ہٹا دیا ہے۔
شاہد کی معروف نظمیں – ‘پوسٹ کارڈ فرام کشمیر’، ‘ان عربک’ اور ‘دی لاسٹ سیفرن’ – اور پیر کی ‘کرفیوڈ نائٹ’ یونیورسٹی میں ماسٹرز آف آرٹس (انگریزی) کورس کے تیسرے سمیسٹر میں پڑھائی جاتی تھیں۔
یونیورسٹی ذرائع نے بتایا، ‘یہ تخلیقات اس سال سے نصاب کا حصہ نہیں ہوں گی۔’انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر کے دفتر نے’ مشاورت کے بعد ‘متعلقہ اتھارٹی’ کو ‘زبانی طور پر’ اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
یونیورسٹی نے اپنی ویب سائٹ سے دو سالہ پوسٹ گریجویٹ پروگرام (ماسٹرز پروگریس) کا نصاب بھی ہٹا دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نصاب ‘اپ ڈیٹ ہونے کے بعد’ دستیاب ہوگا۔
ہٹائے جانے کے بارے میں پوچھے جانے پریو او کےکی وائس چانسلر پروفیسر نیلوفر خان نے کہا کہ ،’وہ ایک میٹنگ میں ہیں’ اور انہوں نے بعد میں بات کرنےکا وعدہ کیا۔ تاہم، انہوں نے بعد میں فون کال کا جواب نہیں دیا۔
بتایا گیاہے کہ شاہد کی دو نظموں ‘آئی سی کشمیر فرام نیو ڈلہی ایٹ مڈ نائٹ’ اور ‘کال می اسماعیل ٹونائٹ’ کو ہٹائے جانے جیسا فیصلہ کلسٹر یونیورسٹی سری نگر (سی یو ایس) نے بھی لیا ہے۔
‘آئی سی کشمیر فرام نیو ڈلہی ایٹ مڈ نائٹ’ نوے کی دہائی کے اوائل میں مسلح شورش کے آغاز کے بعد سے کشمیر کے لوگوں کو درپیش جدوجہد کو موضوع بنانے والی انتہائی اہم تخلیقات میں سے ایک ہے۔ اس میں تشدد، ‘گولیوں سے چھلنی’ جسم اور ‘کرفیو والی راتوں’ کے بارے میں بتایا گیا ہے، جو شورش کے دنوں میں کشمیریوں کی زندگیوں میں عام ہو گئے تھے۔
‘کال می اسماعیل ٹو نائٹ’ مبینہ طور پرتوہین مذہب/رسالت کے مندر جات والی جذباتی غزل ہے، جس میں شاہد خود کو مذہب اور کشمیر کے تنازعے کے دائرے میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس غزل میں شورش کے آغاز کے بعد وادی میں کچھ ہندو مندروں کے انہدام کا بھی ذکر ہے۔
دونوں نظمیں سی یو ایس کے ‘ انٹیگریٹڈ ماسٹرز ان انگلش’ پروگرام کے تیسرے سمیسٹر میں پڑھائی جا رہی تھیں۔ اس کورس میں جن دیگر شاعروں کی تخلیقات شامل ہیں ان میں فیض احمد فیض بھی شامل ہیں ۔ پانچ سالہ کورس کے نصاب کو ابھی تک اپ ڈیٹ نہیں کیا گیا ہے اور اس کواب بھی یونیورسٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ان دونوں معاملات میں کوئی آفیشل وضاحت نہیں دی گئی اور نہ ہی کوئی حکم جاری کیا گیا۔ سی یو ایس کے وائس چانسلر پروفیسر قیوم حسین سے ردعمل کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا۔
کشمیر یونیورسٹی کے ایک سابق اکیڈمک نے کہا کہ شاہد ایک ‘سیکولر شاعر تھے جن کے دل میں کشمیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے درد تھا ہے۔’انہوں نے کہا،’اگرچہ ان کا کام کشمیر کی جدوجہد کو موضوع بناتاہے، لیکن ان تینوں نظموں (یونیورسٹی میں پڑھائی جانے والی) کا کوئی سیاسی مفہوم نہیں ہے۔’
آغا شاہد علی: ایک منفرد آواز
انگریزی میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کشمیری ادیبوں میں سے ایک شاہد کا 2001 میں منظر عام پر آیا شعری مجموعہ ‘رومز آر نیور فنشڈ’ نیشنل بک ایوارڈ کے لیے فائنلسٹ تھا۔ اس باوقار امریکی ادبی انعام کے فاتحین میں 1949 کے نوبل انعام یافتہ ولیم فالکنر اور پلتزر انعام یافتہ فلپ روتھ اور جان اپڈائیک شامل ہیں۔
نئی دہلی میں پیدا ہوئے اور امریکہ میں پرورش پانے والے شاہد کشمیر یونیورسٹی کے سابق طالبعلم تھے، جنہوں نے ڈی یو، پرنسٹن یونیورسٹی اور ہیملٹن کالج سمیت دیگر اہم اداروں میں پڑھایا تھا۔ 2001 میں برین کینسر کے باعث 52 سال کی عمر میں امریکہ میں ان کا انتقال ہوگیا۔
امریکی شاعری کی ایک اہم انتھالوجی، دی امریکن الفابیٹس: 25کنٹمپریری پوئٹس، میں شاہد کو ‘دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے غیر معمولی شاعروں’ میں سے ایک بتایا گیا ہے۔
امیتاو گھوش نے ‘دی گھاٹ آف دی اونلی ورلڈ’ میں ان کے بارے میں لکھا ہے، ‘میں نے ایسی آواز پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ بیک وقت مترنم اور انتہائی نظم و ضبط کی حامل، کہیں گویا، اور پھر کہیں روح کی گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی… غزل کی رسمیات کو انگریزی کے شعری آداب میں ڈھالنا شاہد کا غیر معمولی کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔’
شاہد کے انتقال کے بعدگھوش کا اپنے کشمیری دوست کو پیش کیا گیا یہ خراج تحسین سی بی ایس ای کے 11ویں جماعت کے نصاب کا حصہ ہے، جو ملک بھر کے 27000 سے زیادہ اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
انتظامیہ کی ناراضگی کے خوف سےنام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرکشمیر یونیورسٹی کے ایک اسٹاف نےکہا، ‘یہ افسوسناک ہے۔ ملک بھر کے طالبعلم آغا شاہد علی کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن کشمیر میں اب یہی بات ناقابل قبول ہے۔
بشارت پیر: ‘انتہائی ایماندار’
پیر کی ‘کرفیوڈ نائٹ’ تشدد زدہ کشمیر میں بڑے ہونے کی ایک انتہائی شخصی اور طبع زادیادداشت ہے، جسے خطے کے تنازعے کی عکاسی کے لیے کافی سراہا گیا تھا۔
جب یہ یادداشت 2008 میں منظر عام پر آئی تو اس نے کشمیر کی انگریزی دنیا میں طوفان برپا کردیا تھا۔
خوشونت سنگھ نے اسے ‘انتہائی ایماندار اوربصیرت آموز نکات سے پُر’ قرار دیا تھا، جبکہ دی گارڈین نے لکھا تھاکہ یہ ‘کشمیر تنازعہ کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی بیان بازی کی حدود سے باہر کشمیریوں کی زندگیوں سے جوڑتا ہے۔’
لندن میں مقیم کشمیری مصنف اور ناول نگار مرزا وحید کہتے ہیں کہ نصاب سے ان دو مصنفین کو ہٹانے کا فیصلہ اس خیال کو ‘تقویت’ دیتا ہے کہ جموں و کشمیر کوعقل شعور سے عاری اور سوچ سے خالی انتظامیہ چلا رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے خیال میں ان دنوں یونیورسٹیوں کو چلانے والوں کی سی وی پر یہ لکھا ہونا اچھا لگے گا کہ انہوں نے اپنے کیمپس سے ایک خوبصورت شاعر کو نکال دیا۔’
قابل ذکر ہے کہ صوبےکے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا ان یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں۔
وحید کہتے ہیں،’یہ انتہائی مذموم اور خوفناک فیصلہ ہے، جو ‘نیا کشمیر’ بنانے کی اس وسیع تر کوشش کا حصہ ہے جس کا مطلب ہے تاریخ کو مٹا نا – کہ ہم اپنی تاریخ، اپنے سیاسی اور ثقافتی ورثے، اپنے شاعروں کو بھول جائیں۔ یہ جنگ یادوں کے خلاف ہے۔’
وحید نے کہا کہ یونیورسٹی ‘علم و دانش اور ادب کے ساتھ تنقیدی مباحثے کی جگہ ہوتی ہے جو طلبا کو بیرونی دنیا میں جانے کے لیے تیار کرتی ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘شاہد کی شاعری کشمیر اور دنیا بھر میں کافی عرصے سے پڑھی جا رہی ہے اور آگے بھی پڑھی جائے گی۔ بشارت کی یادداشت پچھلی چند دہائیوں کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ آپ شاہد کو ذہن سے تو نہیں نکال سکتے۔آپ ‘کرفیوڈ نائٹ’ کو غائب نہیں کر سکتے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)