ٹوئٹرنے دہلی پولیس کے‘ٹول کٹ’جانچ معاملے میں اس کے دفاتر میں آنے کو ‘ڈرانے دھمکانے کی چال’بتایا تھا۔ اسے لےکر مودی سرکار نے کہا ہے کہ ٹوئٹر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر اپنی شرطیں تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہیں دہلی پولیس نے کمپنی کے بیان کو سچائی سے پرے بتایا ہے۔
ٹول کٹ معاملے کو لےکرہندوستان میں ٹوئٹر کے دفتر پہنچی دہلی پولیس۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ٹوئٹر معاملے میں گزشتہ جمعرات کو الزام تراشیوں کا دور تیز ہو گیا۔ سرکار نے پولیس کے ذریعے ڈرانے دھمکانے سے متعلق ٹوئٹر کے الزام کی سخت مذمت کی اور اسے پوری طرح بے بنیاداور غلط بتایا۔سرکار نے کہا کہ کمپنی ہندوستان کی امیج خراب کرنے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر اپنی شرطیں تھوپنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس پورے تنازعہ کی شروعات ٹوئٹر کے بیان سے ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کمپنی نے دہلی پولیس کے‘ٹول کٹ’جانچ معاملے میں اس کے دفاترمیں آنے کو ‘ڈرانے دھمکانے کی چال’بتایا تھا۔حالانکہ سرکار نے اسے پوری طرح بے بنیاد، غلط اور ہندوستان کی امیج خراب کرنے والا بتایا، وہیں دہلی پولیس نے کمپنی کے بیان کو سچائی سے پرے اور قانونی تفتیش میں رکاوٹیں ڈالنے کے ارادے والا بتایا۔
قابل ذکر ہے کہ ٹوئٹر نے کووڈ 19 مہاماری کی روک تھام کے طریقوں کو لےکر سرکار کو نشانہ بنانے کے لیےاپوزیشن پارٹی کے
مبینہ ٹول کٹ پر مقتدرہ بی جے پی رہنماؤں کے کئی ٹوئٹ کو ‘توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا’(
مینی پولیٹیڈ میڈیا) بتایا۔ اس کے بعد پولیس گزشتہ سوموار کو کمپنی کے
دفاتر میں گئی تھی۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے کہا کہ وہ ہندوستان سے اپنی وابستگی کے لیے پوری طرح سے پرعزم ہے کیونکہ یہ اس کے لیے ایک اہم بازار ہے۔ لیکن آئی ٹی کے نئے قانون اور ضابطےکی تنقید کرتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ اس سے آزادانہ اور کھلے عوامی مشورےکی آزادی کو درپیش خطرے کو لےکرفکرمند ہیں۔
کمپنی نے ہندوستان میں کام کر رہے اپنےملازمین کی حفاظت کو لےکر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ شفافیت کے اصولوں اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے کام کرتی رہےگی۔اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد دہلی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ ٹوئٹر سروس شرطوں کی آڑ میں جانچ اور فیصلہ سنانے والی اتھارٹی دونوں بننا چاہتی ہے لیکن ان میں سے اسے کسی کے لیے بھی قانونی منظوری نہیں ہے۔
دہلی پولیس نے کہا ہے وہ کانگریس پارٹی کے ذریعے‘ٹول کٹ’کو جعلی بتائے جانے کی شکایت کو لےکرمعاملے کی جانچ کر رہی تھی۔پولیس کے مطابق وہ ٹوئٹر کےہندوستانی سربراہ سے جانچ میں تعاون کے لیے کہنے ان کے دفتر گئی تھی، کیونکہ ایسا جان پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی کے پاس یہ جانکاری ہو سکتی ہے جس کی بنیاد پر اس نے ‘ٹول کٹ’کو توڑمروڑکر پیش کیا گیا میڈیا قرار دیا تھا۔
اس کے فوراً بعد آئی ٹی کی وزارت نے بیان جاری کر کہا کہ ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی اور جمہوری سرگرمیوں کی صدیوں پرانی روایت رہی ہے۔
وزارت نے سوشل میڈیا سائٹ سے کہا کہ گھما پھر کر بات نہ کریں اور ملک کے قوانین پر عمل کریں۔ وزارت نے کہا، ‘ٹوئٹر کا بیان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر اپنی شرط تھوپنے کی کوشش ہے۔ ٹوئٹر اپنے اس قدم کے ذریعے جان بوجھ کر حکم پر عمل نہیں کرکے ہندوستان کے نظم ونسق کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔’
بیان کے مطابق ٹوئٹر نے نئے ڈیجیٹل ریگولیشن کی تعمیل سے انکار کر دیا ہے۔ اس میں اعتراض والے پیغام کے بارے میں جانکاری اور شکایت کے حل کے لیے افسر کی تقرری کے اہتمام شامل ہیں۔مرکز نے الزام لگایا کہ امریکی کمپنی کی ہندوستان کو لےکروابستگی نہ صرف کھوکھلی لگتی ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اسے صرف خود کی فکر ہے۔
وزارت نے قبل میں اٹھائے گئے خدشات کا بھی ذکر کیا۔ اس نے کہا کہ لداخ کے کچھ حصوں کو چین کا حصہ دکھایا گیا، کسانوں کے احتجاج کے دوران ‘قتل عام کے منصوبے’کے نام سےچلائے گئے پیغامات کو ‘بلاک’کرنے کو لے کر ہچکچاہت کا اظہار کیا گیا، ہندوستان کو لےکر فرضی اور نقصاندہ مواد کھلے عام نشر کیے گئے اور جب کورونا وائرس کو ‘انڈین ویرینٹ’ کہا گیا ہے، تب اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
سرکار نے ٹوئٹر کے بیان کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور پوری طرح بے بنیاد، غلط اور ہندوستان کی امیج کو خراب کرنے والا بتایا۔
بیان میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان میں ٹوئٹر کا ایک بڑا صارف بیس ہے، یہ یہاں سے اہم ریونیوحاصل کرتی ہے۔ لیکن جب ہندوستان میں شکایت کا ازالہ کرنے والے افسراور مکینزم،چیف کمپلائنس افسراور نوڈل افسر کی تقرری کرنے کی بات آ رہی ہے، تو وہ اس کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے، جس میں اس کے خود کے صارف کسی قابل اعتراض ٹوئٹ کو لےکر شکایت کر سکتے ہیں۔’
وزارت نے یہ بھی کہا کہ ٹوئٹر سمیت تمام سوشل میڈیا کمپنیوں کے اسٹاف ‘ہندوستان میں ہمیشہ سے محفوظ ہیں اور رہیں گے’ اور ‘ان کے ذاتی تحفظ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔’اس سے پہلے، ٹوئٹر نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ تھا کہ دہلی پولیس کا اس کے دفتروں میں آنا ‘ڈرانے دھمکانے والی چال’ ہے۔
سوشل میڈیا کمپنی نے یہ بھی کہا کہ وہ ہندوستان میں ملازمین کی سکیورٹی اور اظہار رائے کی آزادی پر ممکنہ خطرے کو لے کرفکرمند ہے۔کمپنی کے دہلی اور گروگرام دفتروں میں دہلی پولیس کے جانے کے بعد یہ اس کا پہلا بیان آیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ ٹوئٹر نے کووڈ 19 مہاماری کی روک تھام کے طریقوں کو لےکرسرکار کو نشانہ بنانے کے لیےاپوزیشن پارٹی کےمبینہ ٹول کٹ پرمقتدرہ بی جے پی رہنماؤں کے کئی ٹوئٹ کو ‘توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا’ بتایا۔
کمپنی نے یہ بھی کہا کہ وہ ملک میں اپنی خدمات جاری رکھنے کے لیے ہندوستان میں نافذ قانون پر عمل کرنے کی کوشش کرےگی۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ ان ضابطوں میں آزاد، کھلے اور عوامی مشورے میں آڑے آنے والے عناصرمیں تبدیلی کی وکالت بھی کرےگی۔
کمپنی نے کہا کہ ‘ہم حکومت ہند کے ساتھ تخلیقی بات چیت کو جاری رکھیں گے۔ ہم تعاون کرنےوالا رخ اپنانے میں یقین رکھتے ہیں۔ منتخب عہدیداروں ، صنعتوں اورشہری سماج کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مفادات کے امور کے تحفظ کو یقینی بنائیں ۔’
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اس کے پلیٹ فارم پر ڈالے جانے والے موادکو لےکر ایک شخص(تعمیلی افسر)کو مجرمانہ طور پر جوابدہ بنانے کے اہتمام کو لےکرفکرمند ہے۔ اس کے ساتھ ہی فعال طریقے سے نگرانی کرنے اور اس کے صارفین کے بارے میں جانکاری مانگے جانے کے حق کو لےکر بھی فکرمند ہے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ سب جمہوری اہتماموں کے اصول کے مطابق نہیں ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اپنے صارفین اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے ان کی شکایتیں اپنے موجودہ شکایت کے ازالے کے لیے چینل سے قبول کرتی رہےگی۔
اس بیچ گھریلو مائکروبلاگنگ پلیٹ فارم نے کہا کہ اس نے وزارت کی جانب سے مانگی گئی پوری جانکاری‘ضروری تفصیلات’کے ساتھ دستیاب کرا دی ہے۔
بتا دیں کہ سرکار نے نئے ڈیجیٹل ضابطوں کا دفاع کرتے ہوئے گزشتہ بدھ کو کہا تھا کہ وہ پرائیویسی کے حق کااحترام کرتی ہے اور وہاٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کو نئے آئی ٹی ضابطوں کے تحت نشان زد پیغامات کے بنیادی ماخذ کی جانکاری دینے کو کہنا پرائیویسی کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
اس کے ساتھ ہی سرکار نے سوشل میڈیا کمپنیوں سے نئے ضابطوں کو لےکر تعمیلی رپورٹ مانگی ہے۔
نئے ضابطوں کا اعلان25 فروری کو کیا گیا تھا۔ اس نئے ضابطے کے تحت ٹوئٹر، فیس بک، انسٹاگرام اور وہاٹس ایپ جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز(جن کے ملک میں 50 لاکھ سے زیادہ صارف ہیں)کو اضافی طریقہ اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ اس میں چیف کمپلائنس آفیسر، نوڈل افسر اورہندوستان واقع شکایت افسرکی تقرری وغیرہ شامل ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)