بی جے پی آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کے ذریعےکسانوں کے احتجاج کی ایڈیٹیڈ کلپ ٹوئٹ کیے جانے کے ایک دن بعد ٹوئٹر نے اسے ‘مینیپولیٹیڈ میڈیا’ کے طور پر نشان زد کیا ہے،جس کا مطلب ہے کہ اس ٹوئٹ میں شیئر کی گئی جانکاری سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔
نئی دہلی: بی جے پی کے آئی ٹی سیل چیف امت مالویہ کے ذریعے کسانوں کے احتجاج کی ایڈیٹ کی ہوئی کلپ ٹوئٹ کیے جانے کے ایک دن بعد ٹوئٹر نے اسے مینیپولیٹیڈ میڈیا یعنی چھیڑ چھاڑ کئے ہوئے موادکے طور پر نشان زد کیا ہے۔
یہ پہلی با ر ہے جب ٹوئٹر نے ہندوستانی شخصیات کے خلاف پابندی عائد کرنے والی کارروائی کی ہے۔یہ کارروائی ٹوئٹر کے اس قدم کے بعد کی گئی ہے جس میں پلیٹ فارم پر غلط جانکاریوں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اپنی پالیسیوں میں کچھ اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
ٹوئٹر نے نومبر 2019 میں چھیڑ چھاڑ کئے گئے میڈیامواد(تصویریں، ویڈیو وغیرہ )کی تشہیر سے لڑنے کی سمت میں اپنے شروعاتی پالیسی کا مسودہ تیار کیا تھا۔
اس کا دائرہ فیس بک سے بڑا تھا۔ جہاں فیس بک پالیسی ڈیپپ فیکس[deepfakes] یعنی چھیڑ چھاڑ کیے گئے ویڈیو اور پوری طرح سے فیک ویڈیو پر مرکوز ہے، وہیں ٹوئٹر نے اس میں صارف کی جانب سے دیے گئے فیڈبیک کو بھی جوڑا، جہاں ان کی جانب سےکہا گیا تھا کہ وہ پوری طرح سے ویڈیو کو ہٹا دینے کے حق میں نہیں ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اور
سیاق وسباق یا جانکاری جوڑی جائیں۔
یہ ضابطہ جس پہلے سیاسی شخص پر لاگو ہوئے، وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ تھے۔ جون 2020 میں ٹرمپ نے دو چھوٹے بچوں سے متعلق نسلی تعصب کا ایک ویڈیو پوسٹ کیا تھا، جس کو ٹوئٹر نے مینیپولیٹیڈ میڈیا کے طور پر ٹیگ کیا تھا۔
حالانکہ، ابھی امت مالویہ نے ویڈیو ٹوئٹ کیا تھا، اس میں چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی تھی، لیکن سچائی کو جھٹلانے کے لیے ایڈیٹ کیا گیا تھا۔دراصل، سوشل میڈیا پر ایک فوٹو وائرل ہوا تھا، جس میں کسان مظاہرہ کے دوران ایک پولیس اہلکار ایک بزرگ کسان پر اپنا ڈنڈا تانے ہوا تھا۔
اس کے بعد عوام سے لےکر کانگریس کے سابق صدرراہل گاندھی نے پرامن مظاہرہ کر رہے کسانوں کے خلاف پولیس بھیجنے کے سرکار کے قدم کی مذمت کی تھی۔مالویہ نے ٹوئٹ کیے گئے ایڈیٹیڈ ویڈیو میں کہا تھا کہ فوٹو میں اٹھایا گئے بیٹن سے اصل میں کسان کو نہیں مارا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے تشدد کی بات صرف سرکار کے خلاف کیا جا رہا پروپیگنڈہ ہے۔
اس بیچ
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز نے بتایا کہ مظاہرہ کے دوران کسانوں پر لاٹھی چارج کے کئی واقعات رونماہوئے اور اس کا جواب پتھربازی سے دیا گیا۔کئی میڈیا تنظیموں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پولیس کی گھیرا بندی توڑنے کے جواب میں پولیس نے کسانوں پر آنسو گیس چھوڑی اور لاٹھی چارج بھی کیا۔
جس ‘چھیڑ چھاڑ’کو ٹوئٹر نے قابل اعتراض بتایا ہے، وہ ہے دھوکہ دینے کے مقصد سے کیا گیا فوٹیج کا استعمال۔
ان کی‘سنتھیٹک اینڈمینیپولیٹیڈ میڈیا پالیسی’ کی دفعہ2 کہتی ہے، ‘ہم اس بارے میں بھی سوچتے ہیں کہ کیا جس تناظرمیں میڈیا کو شیئریا گیا ہے وہ فریب یا غلط فہمی پیدا کر سکتا ہے یا لوگوں کو مواد کی نوعیت یا اصلیت کے بارے میں دھوکہ دینے کے لیےجان بوجھ کر مشورہ دیتا ہے۔مثال کے طور پر جھوٹے دعویٰ کرتے ہوئے اسے حقیقی بتایا جائے۔’
ٹرمپ جیسے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے پالیسیوں میں کی گئی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگوں نے ٹوئٹر کی تعریف کی تھی لیکن اس کی پالیسیاں ابھی بہ مشکل ہی لاگو ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر آخری بار کسی سیاسی رہنما کے خلاف سنتھیسائزڈ یا مینیپولیٹیڈ میڈیا کے اہتمام کا استعمال ستمبر 2019 میں ہوا تھا، جب ٹوئٹر نے کیوبا میں صدر کے ایک خطاب کے بعد صحافیوں اور سرکاری اکاؤنٹ کے ٹوئٹ کو بین کر دیا تھا۔
کیوبن صدر نے اس خطاب میں امریکی نمائندوں کی وجہ سے توانائی بحران کی وارننگ دی تھی۔ حالانکہ، کیوبا کے صحافیوں کے یونین یوپی ای سی نے ایک بیان جاری کر اسے سینسرشپ بتایا تھا اور
تشویش کا اظہار کیا تھا کہ کیا ٹوئٹر امریکی خارجہ پالیسی کے نقادوں کو بین کر رہا ہے۔
حالانکہ، ٹوئٹر کے ترجمان نے تب کہا تھا کہ پلیٹ فارم مینیپولیشن پالیسیاں صارفین کو مصنوعی طریقے سے کئی اکاؤنٹس کا استعمال کرکے کنورسیشن کو بڑھا چاکر دکھانے یا رکاوٹ ڈالنے سے پابندی عائد کرتی ہیں۔
حالانکہ، ٹوئٹر اس پیمانے پر ہندوستان میں کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس سال کی شروعات میں
ریڈیٹ پر ایک انام کو ڈر (راجیش) کے ذریعےکیے گئے مطالعہ میں پایا گیا تھا کہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کے لیے فیک نیوز پھیلانے کے کام میں ہزاروں ‘فیک اکاؤنٹ’ لگے ہیں۔
اس رپورٹ میں راجیش نے ایسے 17779 اکاؤنٹس کی پہچان کی تھی، جو ‘سیڈ اکاؤنٹ’(ایک طرح سے فرضی اکاؤنٹ) کے خانے میں آتے ہیں۔ ان سبھی اکاؤنٹس کو بی جے پی کے وزیروں اور عہدیداروں کے ذریعے فالو کیا گیا تھا۔
ٹوئٹر کو تب بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس نے سرکار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
لگ بھگ 10 لاکھ ایسے ٹوئٹس ڈی لٹ کئے تھے، جن میں کشمیر مدعے پر حکومت ہند کی تنقیدکی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہندوستان میں کشمیری اکاؤنٹس کو بین کیا گیا تھا۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)