ظہران ممدانی کی جیت پر ڈونالڈ ٹرمپ کا تلخ تبصرہ، انہیں ’سو فیصد کمیونسٹ پاگل‘ کہا

04:39 PM Jun 26, 2025 | دی وائر اسٹاف

نیویارک میئر الیکشن کی ڈیموکریٹک پرائمری میں ظہران ممدانی کی جیت نے امریکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ نے انہیں ‘کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے تو برنی سینڈرز نے ان کی تعریف کی ہے۔ نیویارک سٹی کے مرکزی میئر کے انتخابات (عام انتخابات) نومبر 2025 میں ہونے والے ہیں۔

ظہران ممدانی اور ڈونالڈ ٹرمپ (فوٹو: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری  میں ظہران ممدانی نے کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ممدانی اب ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نیویارک کے میئر کے انتخاب کے لیے امیدوار بن گئے ہیں۔ جمعرات (26 جون) کو ممدانی کی جیت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی اب تمام حدیں پار کر چکی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر پوسٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے ممدانی کو ‘سوفیصد کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ میئر بننے  کی سمت میں ان کا اقدام’مضحکہ خیز’ہے۔

ٹرمپ کی پوسٹ میں ممدانی کے بارے میں یہ بھی کہا گیاہے؛

اس کا چہرہ بے حد خراب ہے، آواز اچھی نہیں ہے، دماغ بھی تیز نہیں ہے، اس کے ساتھ اے او سی+3 (الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور اس کے ترقی پسند اتحادی) جیسے احمق لوگ  کھڑے ہیں۔

ظہران ممدانی ہندوستانی نژاد فلمساز میرا نائر کے بیٹے ہیں۔ وہ ایک 33 سالہ سوشلسٹ ہیں، اور انہیں ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ(ڈی ایس اے) پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ان کی امیدواری کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

نیویارک سٹی کے عام انتخابات نومبر 2025 میں ہوں گے۔ اگر ممدانی یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ نیویارک شہر کے پہلے مسلمان میئر بن جائیں گے۔ اب وہ اس عہدے کے قریب ہیں اور ان کے حریف نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔

ڈیموکریٹک پرائمری جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں ممدانی نے حامیوں سے کہا، ‘آج رات ہم نے تاریخ رقم کی۔’ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے بعد ممدانی نے طنزیہ انداز میں لکھا، ‘ہاں، یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک بڑا لمحہ ہے!’

یوگانڈا میں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی نیویارک کی اسٹیٹ اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ اکثر اسرائیل اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر تنقید کرتے رہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ممدانی کے سب سے بڑے حریف 67 سال کے اینڈریو کوومو ہیں جو نیویارک کے سابق گورنر رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس کافی وسائل اور مقبولیت تھی، لیکن ان کی امیج پر 4 سال پرانے جنسی ہراسانی کے الزامات کا سایہ تھا۔ نیویارک کے میئر کے عہدے کا انتخاب ان کی واپسی کی کوشش تھی۔

تاہم، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 95فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد کوومو کو صرف 36فیصد ووٹ ملے جبکہ ممدانی کو 43فیصد ووٹ ملے۔ اس کے بعد کوومو نے کہا کہ انہوں نے اپنے حریف کو فون کرکے شکست قبول کرلی ہے۔

ممدانی کی جیت پر پارٹ کا ردعمل

جہاں ظہران ممدانی کی امیدواری کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے، وہیں ڈیموکریٹک پرائمری میں ان کی جیت نے پارٹی کے اندر کچھ دراڑیں بھی کھول دی ہیں۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں وزیر خزانہ رہے لارنس سمرز نے ممدانی کی جیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتکا ہوں۔’

تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی رہنما ممدانی کی تعریف  بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں رہنے کے اخراجات کو کم کرنے کو اپنی مہم کا اہم مسئلہ بنایا تھا۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا؛

کئی معنوں میں ممدانی کی مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو کس سمت جانا چاہیے – ارب پتیوں کی فکر چھوڑ کر عام محنت کشن  لوگوں کی فکر کرنی چاہیے۔

سینڈرز نے پارٹی کے اندر ممدانی پر تنقید کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ریپبلکن  پارٹی کو متنبہ کیا کہ ظہران ممدانی ان کے لیے’سب سے بڑا درد سر’ بن سکتے ہیں۔