سال 2018 میں بھیما کورے گاؤں میں ہونے والے تشدد کے لیے ایلگار پریشد کی تقریب کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد اس کے کچھ شرکاء سمیت کئی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ معاملے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کے سامنے ایک پولیس افسر نے اپنے حلف نامے میں تشدد میں ایلگار پریشد کی تقریب کے کسی بھی طرح کے رول سے انکار کیا ہے۔
بھیما کورے گاؤں تشدد کے دوران متاثرہ علاقے میں پولیس اہلکار۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
یکم جنوری 2018 کو بھیما کورے گاؤں میں دلتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کی تحقیقات کرنے والے ایک سینئر پولیس افسر نے اپنے حلف نامہ میں قبول کیا ہے کہ پونے شہر میں 30 کلومیٹر دور منعقد ایلگار پریشد کے پروگرام کا اس تشدد میں کوئی رول نہیں تھا۔
تشدد کی تحقیقات کرنے والے دو رکنی عدالتی کمیشن کے سامنے سب ڈویژنل پولیس افسر گنیش مورے کے اس اہم انکشاف نے پونے پولیس اور بعد میں ایک الگ معاملے میں گرفتار کیے گئے 16انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکیلوں کے خلاف قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے کیے گئے دعووں کی پول کھول دی ہے۔
این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ ان 16 لوگوں نے بھیما کورے گاؤں میں جمع ہونے والی بھیڑ کو اپنی تقریروں سے ‘اکسانے’ اور بھیما کورے گاؤں کی لڑائی کی 200 ویں سالگرہ کی تقریبات میں تشدد کو بھڑکانے میں سرگرم رول ادا کیا تھا۔ ان میں سے تین افراد کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے اور ایک شخص – فادر اسٹین سوامی کی حراست میں موت ہوچکی ہے۔ باقی 12 ممبئی کی جیلوں میں ہیں۔
معاملے میں درج کی جارہی گواہیاں – جو اس سال اپریل میں شروع ہوئی تھیں – میں حال ہی میں ریٹائر ہوئے مورے نے قبول کیا کہ زیادتی کے نو معاملے، جو ان کے دائرہ اختیار میں درج کیے گئے تھے اور جن کی تفتیش انہوں نے کی – میں ایلگار پریشد کی تقریب کا کوئی کردار نہیں پایا گیا۔
بتادیں کہ 31 دسمبر 2017 کو ایلگار پریشدپروگرام ذات پرست برہمن پیشوا کی حکومت والی مراٹھا سلطنت کے خلاف شنیوار واڑہ میں منعقد کیا گیاتھا، جو برہمنوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
تشدد کے ایک گواہ کی طرف سے پیش ہوئےایڈوکیٹ راہل مکھارے کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مورے نے جواب دیا، کوئی ایسی جانکاری یا مواد نہیں ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یکم جنوری 2018 کو ہوئے فسادات اس سے ایک دن پہلے31 دسمبر 2017 کو شنیوارواڑہ ، پونے میں منعقدہ ایلگار پریشد کا نتیجہ تھے۔
یہ شاید پہلا موقع ہے جب حکومت کے کسی نمائندے نے یہ قبول کیا ہے کہ ایلگار پریشدکے واقعہ کا تشدد میں کوئی رول نہیں تھا۔
یہ انکشاف دو وجوہات کی بنا پر اہم ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے لوگوں کو دراصل الزام سےبری کرتا ہے، وہیں یہ بنیادی سوال پر بھی قائم کرتا ہے کہ بھیما کورے گاؤں کے تشدد کے پیچھےاصل میں کون تھا؟
مکھارے کہتے ہیں،ہم سب نے ان شواہد کی طرف اشارہ کیا ہے جو تشدد میں ملند ایکبوٹے اور منوہر کلکرنی عرف سنبھاجی بھیڑے کے براہ راست کردار کو واضح طور پرظاہر کرتے ہیں۔ متاثرین کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر بھی ان کے کردار اور بھیما کورے گاؤں علاقے میں کئی سالوں سے کام کر رہی ان کی تنظیم سے وابستہ لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لیکن حکومت نے اس ثبوت کو دبا دیا۔
غورطلب ہے کہ ایف آئی آر کے بعد دو بنیاد پرست برہمن رہنماؤں- ملند ایکبوٹے اور سنبھاجی بھیڑے پر دلتوں پر تشدد بھڑکانے میں ان کے براہ راست کردار کے لیے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایکبوٹے کو 2018 میں کچھ دنوں کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، لیکن بھیڑےاس سے بچے رہے۔
ملند ایکبوٹے اور سنبھاجی بھیڑے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
جہاں متاثرین نے حکومت اور عدلیہ دونوں کے سامنے بار باراپنی بات رکھی، وہیں پولیس ایلگار پریشد تقریب کے ارد گرد منڈلاتی رہی، منتظمین اور کچھ شرکاء پر تشدد کا الزام لگاتی رہی۔ کئی لوگ جن کا اس واقعے میں کوئی رول نہیں تھا، ان پربھی تشدد کو بھڑکانے کا الزام لگایا گیا۔
بھیما کورے گاؤں سے صرف 3.5 کلومیٹر کی دوری پر ودھو بدروک گاؤں ہے۔ یہ گاؤں 17ویں صدی کی اپنی تاریخ کے لیے مشہور ہے، جب مغل بادشاہ اورنگ زیب کے ڈرسے کئی لوگ آگے آنے میں ناکام رہے،تب راجہ سنبھاجی کے آخری رسومات کی ادائیگی ایک دلت بابا گووند گوپال گائیکواڑنے ادا کی تھیں۔ یہاں کے لوگوں نے بھیڑے اور ایکبوٹے پر ماحول کو خراب کرنے اور گائکواڑ کی وراثت کو بھگوا رنگ میں رنگنے کا الزام لگایا ہے۔
بھلے ہی بھیما کورے گاؤں میں امبیڈکر کے پیروکاروں کی بھیڑ جمع ہوئی تھی، لیکن بھیڑے کے لوگ بھگوا جھنڈے لے کر گاؤں میں اکٹھا ہوئے تھے اور بھیڑے کے لکھے ہوئے ‘پریرنا منتر’سنا رہے تھے، جس میں ‘ہندوؤں کو اپنے عقیدے کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے اکسایا گیا تھا۔
گاؤں والوں کا دعویٰ ہے کہ ایسادلتوں کے خلاف مبینہ بااثر ذاتوں، خصوصاً مراٹھوں کو اکسانے کے لیے کیا گیا تھا۔ تاہم، جب مورے سے اس مبینہ منتر اور اس کے گانے کے ارادے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ وہ ‘نہیں بتا سکتے کہ یہ مواد قابل اعتراض تھا یا نہیں۔’
دو رکنی عدالتی کمیشن – جس کی سربراہی کلکتہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جے این پٹیل کر رہے تھے، اور مہاراشٹر کے سابق چیف سکریٹری سمت ملک دوسرے رکن تھے– نے 2018 کے اوائل میں سماعت شروع کی تھی۔ کمیشن نے اس کے بعد سے کئی بارتوسیع کی درخواست کی ہے اور پونے اور ممبئی میں باقاعدہ سماعتیں کر رہی ہے، جہاں متاثرین کے ساتھ ساتھ پولیس اور انٹلی جنس سمیت سرکاری ایجنسیوں نے اپنے حلف نامے داخل کیے ہیں۔
اعلیٰ افسر کا حلف نامہ بعد میں سوچے ہوئے منصوبےکی طرف اشارہ کرتا ہے
ایک اور گواہ حال ہی میں ریٹائر ہوئے آئی پی ایس افسر رویندر سینگاوکر ہیں، جو تشدد کے وقت پونے سٹی پولیس کے ایڈیشنل کمشنر (ساؤتھ زون) تھے اور جن سے گزشتہ چند ہفتوں میں کمیشن کے سامنے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔
غور طلب ہے کہ 31 دسمبر 2017 کو ایلگار پریشد کے پروگرام میں کی گئی تقریروں کی نوعیت کے بارے میں پوچھے جانے پر سینگاوکر نے کہا کہ تقریریں ‘اشتعال انگیز’ تھیں اور مقررین، خاص طور پر طلبہ کے حقوق کے کارکن عمر خالد، ڈونتا پرشانت، گجرات کے کانگریس ایم ایل اے جگنیش میوانی اور صحافی اور ذات مخالف کارکن سدھیر دھاولے (مقدمہ میں گرفتار) کے خلاف کارروائی ہونی چاہیےتھی۔
سینگاوکر کا دعویٰ ہے کہ تقریر اشتعال انگیز تھی اور تقریر کے مکمل ہونے کے فوراً بعد اس کے بارے میں پتہ چلا تھا، لیکن انہوں نے تسلیم کیاکہ پولیس نے ‘فوراً ایف آئی آر درج نہیں کی تھی۔’
سینگاوکر کا یہ تبصرہ بہت اہم ہے کیونکہ ایلگار پریشد کیس میں دفاعی وکلاء نے ہمیشہ یہ بات کہی ہے کہ حقوق کارکنوں کے خلاف درج معاملہ ایک ‘ بعد میں سوچا گیا منصوبہ’ تھا اور اس کا مقصد صرف انسانی حقوق کے کارکنوں کو غلط طریقے سے پھنساناتھا۔
ایلگار پریشد کیس میں گرفتار ہونے والوں میں مصنف اور ممبئی کے دلت حقوق کےکارکن سدھیر دھاولے، گڑھ چرولی کےنوجوان کارکن مہیش راوت، جنہوں نے نقل مکانی پر کام کیا، شوما سین، جو ناگپور یونیورسٹی میں انگریزی کی پروفیسراور صدر شعبہ تھیں، ایڈوکیٹ ارون فریرا اور سدھا بھاردواج، مصنف وراورا راؤ، کارکن ورنن گونجالوس، قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رونا ولسن، یو اے پی اے کے ماہر اور ناگپور کےوکیل سریندر گاڈلنگ، آدی واسی حقوق کے کارکن آنجہانی فادر اسٹین سوامی، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہینی بابو، ماہر تعلیم اور کارکن آنند تیلتمبڑے، کارکن گوتم نولکھا، اور ثقافتی گروپ کے کبیر کلا منچ کے اراکین،: ساگر گورکھے، رمیش گائچور اور جیوتی جگتاپ کے نام شامل ہیں۔
ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن۔ (تصویر: دی وائر)
آنند تیلتمبڑے، سدھا بھاردواج اور وراورا راؤ ضمانت پر باہر ہیں، لیکن گزشتہ سال مبینہ طور پر حکومت کی لاپرواہی اور مناسب طبی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے فادر اسٹین سوامی کی موت ہوگئی تھی۔
ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کئی ملزمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل مہر دیسائی نے پولیس افسران کے ان انکشافات کو ‘اہم’ قرار دیا ہے۔
انہوں نے دی وائر کو بتایا،کمیشن کے سامنے پیش کیے گئے شواہد کو ٹرائل کورٹ میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، لیکن پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کا یہ قبول نامہ یقینی طور پر دفاعی فریق کے مقدمے کو مضبوط کرتاہے اور ہم سماعت کے وقت اس کی جانچ کا کوئی طریقہ تلاش کریں گے۔
ایک اور دفاعی وکیل نہال سنگھ راٹھورڑکا کہنا ہے کہ کمیشن کو فوراً بامبے ہائی کورٹ سے مورے کے بیان کا نوٹس لینے کو کہنا چاہیے۔
راٹھوڑ نے کہا، ایک سینئر پولیس افسر، جو تحقیقات سے واقف تھے ، کا یہ قبول نامہ ایلگارمعاملے کی جڑ پر حملہ کرتا ہے۔ ایسے بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر 16 افراد کو جیل بھیج دیا گیا۔ ایک کو جیل میں سڑتے ہوئے جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس طرح کی گواہی پر دھیان دیا جانا چاہیے اور ہائی کورٹ کی طرف سے کارروائی کی جانی چاہیے۔
تشدد کے بعد متاثرین کی طرف سے درج کروائی گئی تقریباً 25 ایف آئی آرز میں دائیں بازو کے لوگوں کا نام لیا گیا ہے، جو بنیادی طور پر ایکبوٹے کی سمست ہندو اگھاڑی اور بھیڑے کے شیو پرتشٹھان ہندوستان سے وابستہ ہیں۔غور طلب ہے کہ ان میں سے کسی بھی معاملے میں متاثرین نے ایلگار پریشد کی تقریب پر تشدد بھڑکانے کا الزام نہیں لگایا ہے۔
کمیشن کے سامنے زیر التوا گواہوں میں آئی پی ایس افسر رشمی شکلا، شیواجی پوار اور سوویز حق شامل ہیں۔ یہ افسران فسادات کو سنبھالنے اور بعد میں تشدد کے معاملات کی تفتیش میں شامل رہے ہیں۔ پوار جنوری 2020 تک ایلگار پریشد کیس میں تفتیشی افسر تھے، جب یہ کیس این آئی اے کو سونپا گیا تھا۔ توقع ہے کہ وہ اگلے ماہ کے آخر تک ممبئی میں کمیشن کے سامنے پیش ہوں گے۔
(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)