ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ 2020 میں ہی ہندوستان میں 8.30 لاکھ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔دی رپورٹرز کلیکٹو کے ایک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان اندازوں کو حقائق سے پرے قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے مرکزی حکومت نے جن اعداد وشمار کا استعمال کیا ، ان کی صداقت مشتبہ ہے۔
15 اپریل2021 کو سورت کے ایک شمشان میں کووڈ 19 سے جان گنوانے والوں کی لاشیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے کووڈ 19 کے 2020 کےاندازوں کی تردید کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے جن اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں بے شمار خامیاں ہیں۔ اس امر کی تصدیق موت کے سرکاری اعداد و شمار اور حال ہی میں جاری کیے گئے ایک سرکاری سروے کے بغور مطالعے سے ہوتی ہے۔ دی رپورٹرز کلیکٹو نے ان اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے۔
پانچ مئی 2022 کو ڈبلیو ایچ او نے اندازہ لگایا کہ 2020 میں ہندوستان میں 100.51 لاکھ لوگوں کی موت ہوئی۔ ادارے کےاندازے کے مطابق، ان میں سے
8.30 لاکھ اموات کووڈ سے متعلق تھیں۔
کووڈ کی روک تھام کے سلسلے میں شاندارکام کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اکثراپنی پیٹھ تھپتھپانےوالی مرکزی حکومت نے ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کو مسترد کردیا۔
پانچ مئی کو
اپنی پریس ریلیز میں مرکزی وزارت صحت نے ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کی تردید کرتے ہوئے کہا، ہندوستان میں پیدائش اور اموات کے رجسٹریشن کا ایک مضبوط نظام ہے، جس کا ایڈمنسٹریشن دہائیوں پرانے طریقہ کار اور قانونی فریم ورک یعنی پیدائش اور اموات کے رجسٹریشن ایکٹ، 1969سے ہوتا ہے۔
حکومت نے دعویٰ کیا کہ 2020 میں ہونے والی تمام اموات کا 99.9 فیصدی موت ریکارڈ کیا گیا تھا اور اس سال کل 81.20 لاکھ افراد ہلاک ہوئے، جو کہ 2019 میں ہونے والی اموات کی تعداد سے بھی کم ہے، جس وقت کوئی وبائی بیماری نہیں تھی۔
وزارت کے بیان کا لب لباب تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ کووڈ-19 کی وجہ سے 8.30 لاکھ اضافی اموات ہوئی ہوں گی۔ اس نے ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کوحقائق سے پرے قرار دے کر مسترد کرنے کے لیے ان اعداد وشمار کا استعمال کیا۔
لیکن وزارت صحت کی غلطی کا فرق بہت نمایاں تھا اور یہ بات اس سال کی شروعات میں شائع ہونے والی
ایک قومی رپورٹ میں اس کے اپنے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتی ہے۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) نام کی یہ رپورٹ اموات کی رجسٹریشن کی شرح کا ایک اور سرکاری تخمینہ پیش کرتی ہے۔
سال 2019-21 کے لیے پانچویں اور تازہ ترین این ایف ایچ ایس رپورٹ کے مطابق، 2016 سے 2020 کے دوران ہوئی اموات میں سے اوسطاً 70.80 فیصد اموات کا ہی رجسٹریشن ہوا۔ موت کے رجسٹریشن کی سطح پر اعدادوشمار کو شامل کرنے والی یہ این ایف ایچ ایس کی پہلی رپورٹ تھی۔
این ایف ایچ ایس کے ڈیتھ رجسٹریشن کی شرح اور ملک کے سول رجسٹریشن سسٹم (سی آر ایس) کے تحت درج کی گئی اموات کی حقیقی تعداد کے لحاظ سے 2020 میں 114.07 لوگوں کی موت ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اس اعداد و شمار کے مطابق، ڈبلیو ایچ او کی کل اموات کا تخمینہ حکومت ہند کے اپنے اعداد و شمار کے قریب پہنچ جاتا ہے اور حکومت ہند کی طرف سے اپنے حق میں دیے گئے دلائل کی ہوا نکال دیتاہے۔
99.9 فیصدی کا اسرار
تو سوال یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے حکومت ہند نے جس اعداد وشمار کا استعمال کیا، وہ اس کو ملا کہاں سے؟ جواب ہے؛ حکومت کے اعداد و شمار اکٹھاکرنے اور اندازہ لگانے کی دو قواعد سے۔
ان ذرائع میں سے ایک سی آر ایس ہے، جو ہندوستان کے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں لوگوں کی درج اموات کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ ہر سال ہونے والی تمام اموات درج نہیں کی جاتی ہیں۔ صرف ویسی ہی موتیں، جن کو دستاویز کیا جاتا ہے،انہی کو سی آر ایس میں شمار کیا جاتا ہے۔
ہر سال ہونے والی اموات کی کل تعداد کا تخمینہ ایک سالانہ سیمپل سروے - سیمپل رجسٹریشن سروے (ایس آر ایس) کے نتائج کا استعمال کرتے ہوئے لگایا جاتا ہے۔
اس سروے میں افسرایک طے شدہ تعداد کے گھروں میں جا کر یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اس سال کتنے خاندانوں میں کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد پر رجسٹرار جنرل کا دفتر ہر ریاست کے لیے اور پھر پورے ملک کے لیے شرح اموات کا حساب لگاتا ہے (فی 1000 افراد پر اموات کی تعداد)۔ خیال رہے یہ ایک اندازہ ہے۔
حکومت اندازے پر مبنی اس شرح اموات کو ملک کی آبادی سے ضرب کرکے کسی سال میں مرنے والوں کی کل تعداد تک پہنچتی ہے۔
حکومت نے یہ مشق 2020 کے لیے بھی کی اور ڈبلیو ایچ او کے دعوے کی تردید کرتے ہوئےاسی کی بنیاد پر دعویٰ کیا کہ ملک میں ہوئی اموات کی کل تعداد صرف 81.20 تھی۔ (ذیل میں جدول دیکھیں)۔
سال 2020 کے لیے، جو وبائی مرض کا سال تھا، ملک میں ہونے والی کل اموات کا یہ سرکاری تخمینہ 2019 میں اندازے پر مبنی کل اموات سے کم ہے، جب کوئی وبائی بیماری نہیں تھی۔
یہ اعداد و شمار ابھی تک کووڈ سے متعلق اضافی اموات کے حوالے سے شائع ہونے والے تمام سائنسی ماڈل کے برعکس ہے۔
سال 2020 کی سی آر ایس رپورٹ کم از کم ایک دہائی کے عرصےمیں پہلی رپورٹ تھی، جس میں اندازے پر مبنی کل اموات یا رجسٹریشن کی سطح جیسے اہم ڈیٹا شامل نہیں کیے گئے تھے۔ مرکزی وزارت صحت نے اموات کی 99.9 فیصد رجسٹریشن کے دعوے کی اشاعت ایک پریس ریلیز میں کی۔
سی آر ایس کے مطابق، 81.15 لاکھ رجسٹرڈ اموات کی بنیاد پر وزارت نے یہ دعویٰ کر ڈالا کہ 2020 میں 81.2 لاکھ لوگوں کی موت ہونے کا اندازہ ہے۔ 25 مئی 2022 کو جاری کیے گئے ایس آر ایس کے اعداد و شمار اس دعوے کے مطابق تھے۔
ایس آر ایس کے اعداد و شمار کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اموات کی مجموعی تعداد کےجس اندازےپر حکومت بھروسہ کر رہی ہے، وہ انتہائی ناقابل اعتبار ہے۔
غلطی کہاں ہوئی
ایس آر ایس کے کل موت کےاندازےمیں بہت سی غلطیاں ہیں۔ اگر ہم ایس آر ایس کے اندازوں کے حساب سے چلیں تو 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (یونین ٹریٹری)میں سے 20 میں جتنے لوگوں کی موت کا اندازہ لگایا گیا ہے،اس سے زیادہ اموات کا وہاں رجسٹریشن ہے۔یہ ناممکن ہے۔
چندی گڑھ کا ہی معاملہ لے لیں۔ ایس آر ایس کے مطابق، موت کے رجسٹریشن کی کل تعداد 2020 میں فوت شدہ لوگوں کے کل اندازے سے تقریباً چار گنا (394.82 فیصد) تھی۔ دہلی میں رجسٹرڈ اموات کی تعداد 2020 میں اندازے پر مبنی اموات کی تعداد سے تقریباً دوگنی (196.42 فیصد) تھی۔ اعداد و شمار کا یہ تضاد دوسری جگہوں پر بھی نظر آتا ہے۔
حکومتی شماریات دان یہ وارننگ دیتے ہیں کہ چھوٹی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے ایس آر ایس کی موت کا اندازہ غلط ہو سکتا ہے۔
ایس آر ایس رپورٹ تیار کرنے والوں کےمطابق، چھوٹی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیے شرح اموات اور بچوں کی شرح اموات کے لیے کانفیڈنس لمٹ (اعتماد کی حد) کو چھوٹے سیمپل سائز اور اَپراورلوور ٹالرنس لمٹ کے درمیان کافی بڑے فرق کی وجہ سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔
دوسرے لفظوں میں کہیں تو، ہم چھوٹی آبادی والی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لیےاندازوں پر یقین نہیں کر سکتے۔
لیکن بڑی آبادی والی کئی بڑی ریاستوں میں حکومت کی غلطیاں صاف نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، تمل ناڈو میں ریکارڈ کی گئی اموات کی کل تعداد ایس آر ایس کے تخمینوں کا 148.14 فیصد تھی۔ آندھرا پردیش میں رجسٹرڈ اموات اندازے پر مبنی اموات کا 137.56 فیصد تھی۔
ایس آر ایس میں خامیاں
رپورٹرز کلیکٹو نےشرح اموات (ایس آر ایس ) کا اندازہ لگانے کے لیے سیمپل سروے کرانے اور ملک کی ڈیتھ رجسٹری (سی آر ایس) کو سنبھالنے والے رجسٹرار جنرل کے دفتر کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے بات کی۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا، رجسٹرڈ اموات کا اندازے پر مبنی اموات کی تعداد سے زیادہ ہونا غیرفطری نہیں ہے۔ سی آر ایس کے برعکس، ایس آر ایس ایک سیمپل پر مبنی سروے ہے۔
انہوں نے یہ سمجھانے کے لیے کہ کسی ریاست میں رجسٹرڈ اموات کی تعداد اندازے پر مبنی اموات کی تعداد سے زیادہ ہو سکتی ہے، اس کے لیے ایک وجہ بتائی : نقل مکانی
انہوں نے وضاحت کی،اگر کوئی علاج کے لیے دہلی جاتا ہے اور وہاں اس کی موت ہو جاتی ہے، تو موت کا رجسٹریشن وہاں ہوگا، جو سی آر ایس ڈیٹا میں نظر آئے گا۔ ایس آر ایس صرف عام رہائشیوں کو شمار کرتا ہے، لہذا ایس آر ایس رہائش کی جگہ پر ہوئی موت کو شامل کرے گا۔
دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو، ایسی ریاستوں میں جہاں نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے،سیمپل سروے میں ان کی موت کو ان کی اصل رہائش والے صوبے میں درج کیا جائے گا - جبکہ سی آر ایس ان کی موت کو ا ن ریاستوں میں درج کرے گا جہاں وہ ہجرت کر گئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ویسی ریاست جہاں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہاں رجسٹرڈ اموات کی تعداداندازے پر مبنی اموات سے زیادہ ہوگی اور اسی طرح سے جس ریاست سے زیادہ نقل مکانی ہو رہی ہے، وہاں رجسٹرڈ اموات کی تعداد کم ہوگی، لیکن اندازے پر مبنی اموات کی تعداد زیادہ ہو گی۔
یہ شاید اس بات کی وضاحت ہے کہ دہلی یا چنڈی گڑھ، جہاں بہت سی ریاستوں سے لوگ کام کے لیے آتے ہیں، میں اموات کے زیادہ رجسٹریشن کیوں ہوتے ہیں۔
لیکن پھر سوال یہ ہے کہ 36 ریاستوں میں سے 20 ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تخمینے سے زیادہ اموات کا رجسٹریشن کیسے کر پائے اور اس میں اتنانمایاں فرق کیوں ہے؟
رپورٹرز کلیکٹو نے رجسٹرار جنرل کے دفتر کو ایک مفصل سوالنامہ بھیجا ہے، اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
لندن کی مڈل سیکس یونیورسٹی کے ریاضی دان مراد باناجی کے مطابق، جو وبائی امراض کے دوران اموات کی شرح پر نظر رکھے ہوئے ہیں، دہلی اور چنڈی گڑھ کے معاملے میں ' ریاست کے باہر' رجسٹریشن واضح طور پر ایک مسئلہ ہے، جہاں لوگ علاج کرانے یا کام کی تلاش میں آتے ہیں۔ لیکن آندھرا پردیش اور کرناٹک میں رجسٹرڈ اموات کی تعداد اتنی زیادہ کیوں ہے یہ فہم سے بالا تر ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں، یہ دکھانے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ کچھ ریاستوں میں رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ نقل مکانی کی وجہ سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ اضافی رجسٹریشن 'ریاست سے باہر' ہونے والے رجسٹریشن ہیں، تو اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ڈیٹا فراہم کرنے کی ذمہ داری ان کی ہے۔
صحت عامہ کے ماہر اور مرکزی حکومت کے نیشنل ہیلتھ سسٹم ریسورس سینٹر کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ٹی سندررمن نے کہا، آپ اتر پردیش کی کچھ اموات کےدہلی میں جانے کی امید کر سکتے ہیں، لیکن آپ اضافی رجسٹریشن والی تمام ریاستوں میں ایسا ہونے کی امید نہیں کر سکتے - یہ سب ایک ہی پیٹرن کے تحت نہیں آتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں، اضافی اموات اس لیے ہو رہی ہیں، کیونکہ ایس آر ایس کی شرح اموات کم کرکے لگائے گئے اندازے ہیں۔
دہلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر دیپا سنہا کا کہنا ہے،ہاں، نقل مکانی کےاس فرق کا ایک حد تک رول ہوسکتا ہے، لیکن زیادہ تر نقل مکانی کرنے والے افراد اس عمر کے ہیں جس میں آپ کو اموات کی شرح زیادہ نظر نہیں آئے گی۔اور آپ اتنی ساری ریاستوں میں اتنے بڑے فرق کو نہیں دیکھیں گے۔
باناجی اور دیگر نے بھی یہی باتیں کہتے ہوئے
بعض مطالعات پیش کیے ہیں۔
اگلی بات، ایس آر ایس کے سروےڈرافٹ اور سیمپلنگ کےطریقے میں ہر دس سال کے بعد نئی مردم شماری رپورٹ کے آنے کے بعد
ترمیم کی جاتی ہے۔ یہ کام 2014 میں کیا گیا تھا۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 100فیصدی سے زیادہ موت کے رجسٹریشن والی ریاستوں میں رجسٹرڈ اموات کی تعداد اور ایس آر ایس کی جانب سے اندازے پر مبنی اموات کی تعدادمیں فرق 2014 کے بعد سے بڑھتا ہی گیا ہے۔
خامیوں کو دور کرنے کی کوشش
باناجی اور ان کےمعان آشیش گپتا - جو ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈیوڈ ای بیل فیلو ہیں - نے اپنی ریاضیات میں ایس آر ایس موت کے تخمینے میں اس تضاد اور خامی کو ایڈجسٹ کیا ہے۔ایسی ریاستوں کے معاملے میں، جن میں موت کےرجسٹریشن کی اصل تعداد ایس آر ایس کی تعداد سے زیادہ تھی، وہاں انہوں نے رجسٹرڈ اموات کی اصل تعداد کو اس سال اس ریاست میں ہونے والی اموات کی تعداد کے طور پر لیا۔
حکومت کے سی آر ایس ڈیٹا کو ایس آر ایس کے اندازوں کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی روایت کی بنیاد پر انہوں نے ایسا کیا۔
جب بھی حکومت کے پاس رجسٹرڈ موت کی تعداد انداز ے پر مبنی موت کی تعداد سے زیادہ ہوتی ہے، یہ رجسٹریشن کی شرح کو 100فیصدی قرار دیتی ہے - اس کے پیچھے دلیل یہ ہے کہ ڈیتھ رجسٹریشن کے اعداد و شمار کو موت کے کم اندازے کی بنیاد پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب بات کل موت کی آتی ہے تو یہ اندازے پر مبنی موت کی کم تعداد پر اڑی رہتی ہے۔
مثال کے طور پر، 2018 میں حکومت نے پایا کہ آندھرا پردیش میں 3.76 لاکھ رجسٹرڈ اموات ہوئیں، جبکہ اس کا ایس آر ایس کا تخمینہ 3.53 لاکھ (6.42 فیصد زیادہ) تھا۔ اس بنیاد پراس نے کہا کہ ڈیتھ رجسٹریشن100 فیصدی ہے۔ لیکن ہندوستان میں موت کی کل تعداد کا حساب لگانے کے لیے حکومت نے آندھرا پردیش کی اندازے پر مبنی موت کی کم ترین تعداد 3.53 لاکھ کا استعمال کیا!
سی آر ایس 2018 ہائی لائٹ کی گئی ریاستوں میں 100فیصدی رجسٹریشن فرض کرتا ہے (اوپر کی جدول میں زرد رنگ میں ہائی لائٹ)، لیکن اندازے پر مبنی اموات کی تعداد رجسٹرڈ لوگوں کی تعداد سے کم ہے۔ (زرد ہائی لائٹ، نیچے دیے گئے جدول میں) ماخذ: سی آر ایس 2018
اپنی تحقیق میں اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے باناجی اور گپتا رجسٹرڈ اموات کی تعداد کو اس سال مرنے والے تمام لوگوں کی اصل تعداد کے طور پر لیتے ہیں۔
رپورٹرز کلیکٹو نے 2020 اور اس سے پہلے کے 9 سالوں میں کل سالانہ اموات کا حساب لگانے کے لیے ان کے طریقہ کار پر عمل کیا۔ 2020 کے لیے اموات کی کل تعداد 91.8 لاکھ ہوگی، جس کا مطلب ہے کہ سی آر ایس کے ذریعے موت کا رجسٹریشن 88.4 فیصد ہے نہ کہ 99.9 فیصد جیسا کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے۔
[[graph: CRS v. our calculation]]
بیس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے اعداد و شمار کو جزوی طور پر درست کرنے کے بعد پائی گئی یہ تعداد بھی این ایف ایچ ایس کے اندازے پر مبنی موت کے رجسٹریشن کی شرح کے مقابلے میں کم کرکے کیا گیا اندازہ ہی نظر آتا ہے۔
این ایف ایچ ایس کے اندازوں پر بھروسہ کیوں کریں؟
اگر ہم آزاد آبادیاتی ماہرین اور دوسرے ماہرین کے تجزیے کو چھوڑ دیں تو ہم سالانہ اموات کی تعداد کے بارے میں حکومت کے اپنے این ایف ایچ ایس تخمینوں پر واپس جا سکتے ہیں۔
ایس آر ایس طریقہ کے برعکس، این ایف ایچ ایس سرویئر سروے کیے گئے ہر گھر سے ایک سال میں خاندان میں ہونے والی اموات کی تعداد کے ساتھ ساتھ ان اموات کے لیے رجسٹریشن کی تعداد کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں۔
این ایف ایچ ایس کرانے والے مرکزی حکومت کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز کے ڈائریکٹر کے ایس جیمز نے وضاحت کی، 99.9 فیصد موت کے رجسٹریشن کا ڈیٹا ڈیتھ رجسٹریشن اورسیمپل رجسٹریشن سسٹم کےاندازے پر مبنی موت کے درمیان موازنے پرمشتمل ہے۔
ایس آر ایس کی بنیاد پر دی گئی شرح اموات میں بھی درستگی ہو سکتی ہے اور بعض اوقات ان کا اندازہ بھی کم ہوسکتا ہے۔ یہ ایس آر ایس سیمپل کی کوریج پر منحصر ہے۔ سیمپل پر مبنی ہونے کی وجہ سےیہ مسئلہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ این ایف ایچ ایس نے 2016-2020 کی مدت کے لیے 2019-2021 کے درمیان دو مرحلوں میں ڈیٹا مرتب کیا، اس لیے اوسطاً موت کے رجسٹریشن کی شرح اس مدت کے دوران سامنےآئے فرق کو ظاہرکرے گا۔
سال 2020 میں اتر پردیش اور تلنگانہ جیسی بڑی ریاستوں نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا کہ ان کے یہاں موت کےرجسٹریشن میں کووڈ-19 کی وجہ سےخلل پڑا ہے، جس کا نتیجہ کم رپورٹنگ کے طور پر نکلا ہے۔
سال 2020 میں 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے 31 کے لیے این ایف ایچ ایس ڈیتھ رجسٹریشن کا اندازہ اور ایس آر ایس اور سی آر ایس کے ذریعے حاصل کی گئی رجسٹریشن کی شرح سے کم تھا۔ اس سےپہلے کے پچھلے چار سالوں کے لیے کم از کم 19 ریاستوں میں یہ مسلسل کم رہا ہے۔
مجموعی طور پر، این ایف ایچ ایس سروے کے نتائج نےحکومت ہند کے کووڈ کے سلسلے میں مؤثر انتظامات کے دعووں پر ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، اور کووِڈ سے متعلقہ اموات کےلیے ڈبلیو ایچ او کےاندازوں کے خلاف اس کے دلائل کہیں بھی نہیں ٹھہرتے۔ لہٰذا، حکومت نے اپنا موقف پیش کرنے کے لیےناقابل اعتبارایس آر ایس تخمینوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔
(شری گیریش جلیہل اور تپسیا رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)