لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مساجد میں اذانیں تو ہو رہی ہیں، مگر آپ نماز اور افطار کے لیے باہر نہیں جاسکتے ہیں۔لاک ڈاؤن سے یقیناًکائنات کی رنگینیاں پھیکی پڑ گئی ہیں، مگر گھروں کے اندر کا رمضان پھر بھی تہاڑ جیل کے روزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔
تہاڑ جیل، دہلی (فوٹو : رائٹرس)
کورونا وائرس نے لاک ڈاؤن کے ذریعے پوری دنیا کو ایک قید خانہ میں تبدیل کردیا ہے۔ جنہوں نے کبھی جیل نہیں دیکھا ہو یا آزاد ممالک کی آزاد فضاؤں میں ہی سانسیں لی ہوں، ان کو قید و بند کی زندگی کا احساس کروانا اور ایک قیدی کی نفسیات کا ادراک کروانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔اس کا مجھے بارہا تجربہ ہوچکا ہے۔ جن معمولات کی طرف کبھی ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا ہے، قیدی کے لیے وہ ایک بڑی نعمت ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ کا دل چاہے آپ کھڑے ہوسکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں۔ قیدی اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کرسکتا ہے۔ اس بار لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان کے معمولات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ مساجد میں اذانیں تو ہو رہی ہیں، مگر آپ نماز اور افطار کے لیے باہر نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ چہل پہل، بچوں کا شور، افطاری کی تیاریاں، انواع واقسام کے کھانے اور خریداری سب کچھ تھم گیا ہے۔ سب رونقیں چھن گئی ہیں۔
سال 2020کے اس کورونا وائرس سے متاثر رمضان کے دوران مجھے رہ رہ کر 2002میں دہلی کے تہاڑ جیل میں گزارے روزوں کی یاد آرہی ہے۔ ان دنوں رمضان نومبر کے ماہ میں وارد ہوا تھا۔ پچھلے سات مہینوں سے ہائی سکیورٹی وارڈ کی قید تنہائی او ر پھر دیگر وارڈوں میں زندگی گزارنے کے بعد رمضان سے چند روز قبل مجھے تہاڑ کی جیل نمبر تین کے وارڈ نمبر 11میں منتقل کیا گیاتھا۔ اس وارڈ میں اکثر ان ہی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، جو اندار اگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اس وارڈ میں کئی کلاس رومز اور ایک لائبریری موجود ہے۔ دیگر وارڈوں کے مقابلے یہاں تعلیم یافتہ قیدیوں کی اکثریت تھی۔ گو کہ بندشوں میں کوئی کمی نہیں تھی، مگر چونکہ اکثر قیدی اشرافیہ طبقہ سے تھے، اس لیے یہاں نسبتاً ہاسٹل جیسا ماحول تھا۔ وہائٹ کرائم میں ملوث افراد کو بھی اسی وارڈ میں رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ دیگر وارڈوں میں سینئر قیدی یا گینگ ان سے خاصا برا سلوک کر کے ان کو اذیتیں دےکر پیسے وصول کرتے تھے۔
یہ پیسے یا تو جیل ہی میں وصول کئے جاتے یا اگر بڑی رقم ہو تو باہر ان کے رشتہ داروں سے وصول کی جاتی تھی۔ اس وارڈ میں میرے پڑوسیوں میں کوئی اربو ں کے اسکیم میں ملوث صنعت کار تو کوئی اعلیٰ سرکاری ملازم تو کوئی بینک ڈائریکٹر تھا۔ یعنی ایک طرح سے بڑی ہی متاثر کن کمپنی تھی۔
خیر رمضان کی آمد سے قبل جیل حکام نے اعلان کیا کہ جن قیدیوں کو روزے رکھنے ہیں وہ اپنے آپ کو رجسٹر کروالیں۔ کیونکہ سحری کے لیے لنگر سے خصوصی انتطام کرنا تھا اور لنچ سے ان کے نام کاٹنے تھے۔ افطارکے لیے انتظام کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیونکہ اسی وقت پوری جیل میں ڈنر تقسیم ہوتا تھا۔ گو کہ جیل میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریکارڈ نہیں رکھا جاتا ہے۔ مگر اس رجسٹریشن کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ جیل میں اس وقت کتنے مسلمان قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 2002میں مجھے یاد ہے کہ جیل کی کل آباد ی کا 30فیصد مسلمان تھے۔
چند روز قبل پتہ چلا کہ اس سال جیل کی کل دس ہزار کی آبادی میں سے 2500قیدیوں نے روزہ کے لیے رجسٹر کیا ہواہے۔ یعنی مسلمانوں کی آبادی 25فیصد سے زائد ہے، جبکہ دہلی میں مسلمانوں کی آبادی 12فیصد سے زائد نہیں ہے۔ پولیس کی طرف سے مسلم نوجوانوں کو فرضی کیسوں میں بند کرنے کے علاوہ مجھے ادراک ہوا کہ معمولی جرائم نیز اسمگلنگ، جعلی دستاویزات، چوری چکاری اور جیب تراشی کے پیشوں میں بھی مسلمانوں کاتناسب خاصا زیادہ ہے۔ قیدیوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 78فیصد نچلے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ یعنی غریبی اور جرائم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دوسرا ہندوستان کے عدالتی نظام کا کما ل ہے۔ اگر ایک ہی کیس میں ہندو اور مسلمان ملوث ہیں، تو ہندو کو جلد ہی ضمانت ملتی ہے اور مسلمان ماہ و سال جیل کی زینت بنایا جاتا ہے۔
خیر رمضان کا اعلان ہوگیا۔ جیل نمبر 3کے سپرنٹنڈنٹ اےکےکوشل قیدیوں کا حال چال پوچھنے آئے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ کیا تراویح کی نماز کا انتظا م ہوسکتا ہے؟ انہوں نے جیل مینول کا حوالہ دےکر کہا کہ جیل میں اجتماعی عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہندو تہوار اس پابندی سے مبرا تھے۔ میں نے ان سے سوال کیا کہ موجودہ جیل نظا م میں قیدی کی اصلاح نہ کہ سزا کو فوقیت حاصل ہے اور آپ کے پاس اصلاح کے کیا اوزار ہیں؟ایک اڑیل قیدی بھی جیل میں آکر پشیمانی میں اپنے گناہوں کی معافی کےلیے سربسجود ہوجاتا ہے۔
تہاڑ جیل کی سابق سربراہ اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ پانڈیچری کی موجودہ لیفٹنٹ گورنر کرن بیدی نے اس کا خاطر خواہ استعمال کرکے قیدیوں کو مصروف رکھ کر جیل کے اندر ان کے ذریعے قانون شکنی کی کسی گنجائش کو ختم کر دیا تھا۔ کوشل صاحب راضی ہوگئے۔ وارڈ کی ایک بیرک جو کلاس روم کے لیے استعمال ہوتی تھی میں تراویح ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ جیل میں پانچ بجے ڈنر تقسیم ہوتا ہے اور اس کے بعد اسکول کی طرز پر وی شانتا رام کی ایک مشہور فلم کا نغمہ اے مالک تیرے بندے ہم۔ بطور اجتماعی دعا پڑھ کر شام کی گنتی ہوجا تی تھی اور قیدیوں کو بیرکوں میں بند کردیاجاتا تھا۔
اس رات بیرکوں سے نکال کر جیل حکام اور سپاہیوں کے سخت پہرہ میں ہم نے تراویح ادا کی۔ اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی صاحب نے امامت کی اور نماز کے بعد رقت آمیز دعا کی۔ مگر اگلے روز بتایا گیا کہ تراویح کی اجازت واپس لی گئی ہے، مگر الگ الگ بیرکوں میں گنتی اور مقفل ہونے کے بعد نماز ادا کرنے کی اجازت ہے۔ معلوم ہوا کہ اعلیٰ حکام نے سپرنٹنڈنٹ کی سرزنش کی تھی اور دیگر وارڈوں کے قیدیوں نے بھی باجماعت تراویح ادا کر نے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہماری بیرک میں بند کل 50قیدیوں میں سات یا آٹھ کے قریب مسلمان تھے۔
بیرک کے دروازے پر چرس رکھنے کے الزام میں بند ایک بڑے میاں نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ ان کی ایک ٹانگ پولیس والوں نے انٹروگیشن کے دوران ناکارہ بنائی تھی۔ انہوں نے جوتے وغیرہ سلیقے سے غسل خانہ میں رکھوا کر نماز کے لیے جگہ خالی کروائی۔ اس دن مجھے معلوم ہوا کہ بیرک میں ہمارا ایک ساتھی حافظ قرآ ن ہے۔ اس کی کسی بھی حرکت سے حافظ قرآن ہونا تو دور مسلمان ہونے میں بھی شک ہوتا تھا۔ اس کا شماربیرک کے دبنگ اور سینئر قیدیوں میں ہوتا تھا۔نئے قیدیوں کی ریگنگ کرنااور نئی گالیاں تخلیق کرنے میں ان کو ملکہ حاصل تھا۔ بیرک کی اگلی قطاریں جو سینئر قیدیوں کے لیے مخصوص ہوتی تھیں، وہاں پر وہ رات بھر جوا کھیلتے اور نشہ کرتے رہتے تھے۔
بڑے میاں نے تراویح کی امامت کرنے کے لیے ان کو راضی کروایا۔ معلوم ہوا کہ وہ کسی مدرسے کے فارغ تھے، مگر بعد میں بری صحبت کا شکار ہوکر منشیات کا کاروبار کرنے لگے۔ خیر پورے رمضان کے مہینے انہوں نے امامت سنبھالی۔ واقعی نہ صرف وہ حافظ قرآن تھے، بلکہ خوش الحان قاری بھی تھے۔ ان کی قرأت دلوں کو دستک دےکر مخمور کردیتی تھی۔ ان کی اقتدا میں لگتا تھا کہ جیسے واقعی نماز عشق ادا ہو رہی ہے۔مگر 29 رمضان کی شام جونہی خبر ملی کہ چاند دیکھا گیا ہے اور اگلے دن عید ہے، تو بیرک مقفل ہوتے ہی، امام صاحب چادر اور ٹوپی اتار کر واپس اپنی جگہ لوٹ گئے اور اگلی قطار یں جو ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے سونی ہوچکی تھیں، پھر آباد ہوگئیں۔ وہاں ایک بار پھر جوئے اور نشے کی بساط بچھ گئی۔ واہ رے مولا تیرے رنگ۔
رمضان کے مہینے میں اپنی روش کے برعکس جیل حکام نے روزہ داروں کا خاص خیال رکھا۔ اس پورے ماہ ان کو وارڈ، بیرک، غسل خانے صاف کرنے، لنگر ڈیوٹی اور دیگر کاموں سے مستثنیٰ رکھا گیا۔ تہاڑ جیل میں نان ویجی ٹیرین کھانے پر پابندی عائد ہے۔ سبزی اور دال پر گزارہ کرنا ہوتا تھا۔ پانی میں دال اور سبزی ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنی پڑتی تھی۔ مگر رمضا ن کے دوران سحری کے وقت جو کھانا تقسیم ہوتا تھا، اس میں تڑکا لگا ہوتا تھا اور نسبتاً اچھی طرح سے پکایا ہوتا تھا۔ اکثر سویابین کی سبزی بھی ملتی تھی، جس سے گوشت کی طلب کسی حد تک کم ہوجاتی تھی۔
اس کھانے کو دیکھ کر ہی لگتا تھا کہ لنگر میں اس کو پکانے والے مسلمان ہی ہیں، جوروزہ داروں کو صحیح کھانا کھلا کر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح اسکول میں بچوں کا ایک گروپ سا بنتا ہے، اسی طرح بیرک میں بھی قیدیوں کا ایک گروپ بنتا ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کام تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی کورٹ میں تاریخ ہے، تو اس کے حصہ کا کھانا لنگر سے وصول کرنا اور بیرک و وارڈ کی صفائی کے لیے بھی باری باری نام دینا وغیرہ۔ میرے گروپ میں ایک کشمیری پنڈت کمپیوٹر انجینیر اروند مکو، دہلی یونیورسٹی کا ایک طالب علم انل کمار اور میرٹھ کے کسی دیہات کا مکین احتشام الدین تھے۔ پنڈت جی کھانے پینے کے بڑے شوقین تھے۔
جب اگلے روز سحری کے کھانے کی میں نے تعریف کی، تو اروند مکو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ آؤ نہ دیکھا تاؤ، اس نے بھی جیل آفس جاکر اپنا نام روزہ داروں میں لکھوا دیا۔ سحری میں تڑکے والا کھانا کھا کر تو وہ سو گیا۔ مگر صبح سویرے چائے نہ ملنے سے وہ خاصا مضطرب تھا۔ دوپہر ہوتے ہوتے اس کی حالت خاصی خراب ہوچکی تھی۔ وہ اب اس وقت کو کوس رہا تھا، جب وہ اپنا نام روزہ داروں کی فہرست میں لکھوا کر آیا تھا۔ اس دوران اس کو جیل آفس سے بلاوا آگیا۔ مسلم قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ایک ہندو قیدی کا روزہ رکھنا، جیل کے لیے پبلسٹی اور حکومت کے لیے ہندو مسلم رواداری کی علامت تھی۔
ابھی چند روز قبل بھی تہاڑ جیل کی پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ ڈیڑھ سو کے قریب غیر مسلم روزہ رکھ رہے ہیں۔ واپسی پر پنڈت جی کی حالت نہایت خستہ تھی۔ ابھی افطار میں کئی گھنٹے باقی تھی۔ بس ہم نے اس کو پانی اور کچھ بسکٹ کھلاکر کہا کہ بچپن میں ہم بھی ایسے ہی روزے رکھتے تھے۔ سحری کرنے کے بعد دادی ہمیں دوپہر کا کھانا کھلا کر اس کو بچوں کا افطار کہتی تھی۔ مکو صاحب یہ یقین ہی نہیں کر پا رہے تھے کہ ہم پورا دن کھائے پیے بغیر گزارتے ہیں۔ مگر اب اس کے ساتھ ایشو تھا کہ چونکہ اس کا نام روزہ داروں کی فہرست میں درج کیا گیا تھا،اس کو ناشتہ اور لنچ نہیں دیا جاسکتا تھا۔
روزہ داروں کی فہرست سے نام نکلوانے میں اس کو اگلے دو تین دن دانتوں پسینہ آگیا۔ معلوم ہوا کہ لین دین کے بعد ہی مذکورہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ نے کسی طرح اس کو دوبارہ عام قیدیوں کی فہرست میں شامل کردیا۔ مگر رمضان ختم ہونے تک میں اور احتشام سحری کے تڑکے والے کھانے میں سے کچھ بچا کر اس کے لئے رکھتے تھے۔
رمضان کے دوران تو جیل حکام نے جس طرح تعاون کیا، وہ عید کے دن مفقود تھا۔ عید سے چند روز قبل ہم نے جیل حکام کو مشورہ دیا کہ عیدکے روز لنگر سے سوئیو ں کا انتظام کیا جائے۔ طے ہوا کہ قیدی چندہ کرکے خود سوئیاں منگوائیں۔ چونکہ جیل ڈائٹ کے مطابق ہفتے میں دو بار قیدیوں کو کھیر ملتی تھی، جیل حکام نے کہا کہ اس کے لیے جو دودھ آتا ہے، اس سے اس ہفتے سوئیاں بنائی جائیں گی۔ یعنی اس ہفتے اب کھیر نہیں ملے گی۔
قیدیوں نے تقریباً 12ہزار روپے کی رقم جمع کرکے جیل حکام کے حوالے کی۔ اس رقم سے سوئیاں ور خشک میوے خریدنے تھے۔ احتشام نے دیگر وارڈوں میں سوئیوں کا لالچ دےکر رقم جمع کی تھی۔ مگر عید کے روز جب سوئیاں تقسیم ہونے کے لیے آئی، تو دیکھا کہ وہ پانی میں ابال کر تیار کی گئی تھیں۔ خشک میووں و دودھ کا نام و نشا ن بھی نہیں تھا۔ اس ہفتے کھیر بھی نہیں ملی۔
جیل حکام نے دودھ اور قیدیوں سے وصول چندہ کی پیشتر رقم اپنے جیبوں میں ڈالی تھی۔ پانی میں ابلی ہوئی بغیر شکر کے بے ذائقہ سوئیاں زبردستی کھلائی گئیں۔ کورونا کے لاک ڈاؤن سے یقیناًکائنات کی رنگینیاں پھیکی پڑ گئی ہیں، مگر گھروں کے اندر کا رمضان پھر بھی تہاڑ جیل کے روزوں سے بدرجہا بہتر ہے۔