پانچ مئی کو ریلیز ہونے والی فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ کی تشہیر کے دوران یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ریاست سے 32000 خواتین لاپتہ ہوئیں اور پھر انہیں دہشت گردانہ کارروائیوں میں شامل ہونے کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا۔ جب اس حوالے سے سوال اٹھائے گئے تو اب فلم کے نئے ٹیزر میں ایسی خواتین کی تعداد تین بتائی گئی ہے۔
نئی دہلی: فلم ‘دی کیرالہ سٹوری’ پر بڑھتے ہوئے تنازعہ کے درمیان فلمسازوں نے منگل کو یوٹیوب پر جاری اپنے نئے ٹیزر میں فلم کاتعارف (انٹروڈکشن)پیش کرنے والے الفاظ میں تبدیلی کر دی ہے۔
اکنامکس ٹائمز کے مطابق، پہلے کیرالہ سے 32000 خواتین کے لاپتہ ہونے کا ذکر کیا گیا تھا۔ اب نئے ورژن میں کہا گیا ہے کہ ‘تین خواتین نے برین واش کے بعد مذہب تبدیل کیا اور انہیں ہندوستان اور بیرون ملک دہشت گردی کے مشن پر بھیجاگیا’۔
آئندہ 5 مئی کو ریلیز ہونے والی اس فلم میں اداکارہ ادا شرما نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 32000 خواتین کے ریاست چھوڑنے کے دعوے نے ایک بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ جیسے ہی فلم کا ٹیزر ریلیز ہوا، حکمران سی پی آئی (ایم) اور یو ڈی ایف کی قیادت میں بائیں بازو کی تنظیموں نے فلم کے ٹیلی کاسٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اپوزیشن لیڈر وی ڈی ستیشن نے کہا کہ ان کا موقف واضح ہے اور وہ کسی کو بھی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جھوٹی افواہیں پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس سے مناسب طریقے سے نمٹا جائے گا اور فلم پر پابندی کا مطالبہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب منگل کو کیرالہ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں فلم کی نمائش پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ وہیں،
بار اینڈ بنچ کے مطابق منگل کو ہی فلم کی ریلیز کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے، جس میں فلم کو ہیٹ اسپیچ کو بڑھاوادینے والا قرار دیا گیا ہے۔
کچھ تنظیموں نے فلم میں کیے گئے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے پر نقد انعامات کا اعلان بھی کیا ہے۔ کیرالہ اسٹیٹ کمیٹی آف مسلم یوتھ لیگ نے فلم میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے والے کو ایک کروڑ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔
وہیں ، ایک ہندوتوا کے کارکن اور ہندو سیوا کیندر کے بانی پرتیش وشوناتھ نے بھی یہ ثابت کرنے پر 10 کروڑ کے انعام کا اعلان کیا ہے کہ کیرالہ سے کوئی بھی آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے سیریا نہیں گیا۔
فلم کے ہدایت کار سدیپتو سین ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ فلم میں کیرالہ کی چار طالبات کی کہانی دکھائی گئی ہے جو اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کا حصہ بن گئیں۔
تاہم، درخواست کو ایڈوکیٹ نظام پاشا نے جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگ رتنا کی
بنچ کے سامنے فوری طور پر سپریم کورٹ میں درج کرنے کے لیے پیش کیا تھا کیونکہ یہی بنچ نفرت انگیز تقریر سے متعلق دیگر معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔
جسٹس جوزف نے تاہم ریمارکس دیے کہ اس معاملے کو پہلے سے زیر التوا معاملے میں عبوری درخواست کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ موجودہ معاملہ ایک قانونی اتھارٹی سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) کی جانب سے فلم کو سرٹیفکیٹ دینے سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے ایک الگ پٹیشن دائر کرنی پڑے گی، اور یہ بھی کہا کہ پہلے متعلقہ ہائی کورٹ میں جانا چاہیے۔
جسٹس جوزف نے کہا کہ آپ پہلے متعلقہ ہائی کورٹ کیوں نہیں جاتے۔ دیکھیے بورڈ (سی بی ایف سی) نے اسے ایک پروسس کے ذریعے سرٹیفکیٹ دیا ہے۔