سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرد اسکول ٹیچر کا کلاس میں ایک نابالغ طالبہ کو پھول دینا اور اسے دوسروں کے سامنے اسے قبول کرنے کے لیے مجبور کرنا پاکسو ایکٹ کے تحت جنسی ہراسانی ہے اور اس کے لیے سخت ہدایات دی گئی ہیں۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کے ایک مرد ٹیچر کا کلاس میں ایک نابالغ طالبہ کو پھول دینا اور دوسروں کے سامنے اسے قبول کرنے کے لیے مجبور کرنا جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ یعنی پاکسو ایکٹ کے تحت جنسی ہراسانی ہے اور اس کے لیے سخت رہنما اصول ہیں۔
تاہم، عدالت نے ملزم ٹیچر کی ساکھ پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کو دیکھتے ہوئے شواہد کی سخت جانچ پڑتال کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس دیپانکر دتا، کے وی وشوناتھن اور سندیپ مہتہ کی بنچ نے پایا کہ مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بننے والی نابالغ طالبہ اور گواہوں کی طرف سے دیے گئے ثبوت متضاد تھے اور انہوں نے تمل ناڈو ٹرائل کورٹ اور مدراس ہائی کورٹ کے فیصلوں کو پلٹ دیا، جس نے ٹیچر کو تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔
جسٹس دتا نے فیصلہ لکھتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکسو کی سخت دفعات اس وقت لاگو ہوتی ہیں جب اسکول جیسے عوامی مقامات پر ایسا واقعہ پیش آتا ہے، لیکن عدالتوں کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب کسی استاد کی ساکھ داؤ پر لگی ہو تو انہیں نابالغ لڑکیوں کو بدنام کرنے کے لیے مہرے کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اساتذہ کا کردار معاشرے میں لڑکیوں کو محفوظ رکھنے کی طرح ہی اہم ہے۔
سپریم کورٹ نے ٹیچر کے خلاف ذاتی شکایات کو حل کرنے کے لیے لڑکی کو مہرے کے طور پر استعمال کیے جانے کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ عدالت نے پایا کہ ممکن ہے کہ ماضی میں طالبہ کے رشتہ داروں اور ٹیچر کے درمیان ہوئے جھگڑے سے متعلق کوئی معاملہ ہو۔
ملزم ٹیچر کو بری کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ‘ہم ریاست کے سینئر وکیل کی دلیلوں سے پوری طرح متفق ہیں کہ کسی بھی ٹیچر کے ذریعہ ایک طالبہ (جو کہ نابالغ بھی ہے) کو جنسی طور پر ہراساں کرنا سنگین نوعیت کے جرائم کی فہرست میں کافی اوپر آئے گا کیونکہ اس کے بہت دور رس نتائج ہوتے ہیں، جوکارروائی میں شامل فریقین سے کہیں زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔’