تمل ناڈو حکومت نے مارچ مہینے میں تبلیغی جماعت کےاجتماع میں شامل ہوئے ایشیا، یورپ اور افریقی ممالک کے کل 129غیرملکی شہریوں کو ایک سینٹرل جیل میں رکھا ہے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جارہا ہے، وہیں وکیلوں کا ماننا ہے کہ یہ کارروائی غیرقانونی ہے۔
پوجھل سینٹرل جیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: وکی میڈیا کامنس)
اس سال مارچ کے پہلے ہفتے میں مختار اور ان کی بیوی فیدیا اتھیوپیا سے نئی دہلی آئے تھے۔دونوں نے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں کچھ دن قیام کا منصوبہ بنایا تھا، اس کے بعد یہ لوگ تمل ناڈو جانے والے تھے اور انہیں مارچ کے اواخرمیں اتھیوپیا لوٹنا تھا۔
مختار(25)تیسری بار ہندوستان آئے تھے جبکہ فیدیا پہلی بار ہندوستان آئی تھیں۔ وہ تھوڑی نروس تھیں کیونکہ وہ اپنے تین سالہ بیٹے محمد مختار سے دور دوسرے ملک میں تھیں۔ان کی غیرموجودگی میں بیٹے کو دادا دادی کی دیکھ بھال میں رکھا گیا تھا لیکن یہ چار ہفتے کاسفر ان دونوں کے لیے جی کا جنجال بن گیا۔
اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے کو رونا وائرس کے مدنظرعجلت میں ملک بھرمیں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد کو رونا پھیلانے کو لےکر
تبلیغی جماعت پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے، جس کے بعد دونوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔مختار اور فیدیا ان 129غیرملکی شہریوں میں سے ہیں، جنہیں جبراً حراستی کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ ایشیائی، افریقی اور یورپی ممالک سے ہیں۔
انہیں سب سے پہلے چنئی کے پوجھل سینٹرل جیل میں رکھا گیا، اس کے کچھ ہفتوں بعد سیداپیٹ کی جیل میں اور پھر بورسٹل اسکول میں رکھا گیا، جس کو جلدبازی میں حراستی کیمپ بنا دیا گیا تھا۔وہیں، اتھیوپیا کے ادیس ابابا میں مختار کے اہل خانہ فکرمند ہیں ، وہ ہرذرائع سے دونوں کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مختار کی بہن فوزیہ کہتی ہیں کہ ہمیں ان کی آواز سنے ہوئے بھی تین مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
فوزیہ ادیس ابابا سے فون پر بتاتی ہیں،‘ہمیں نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ کتنی دیر تک وہاں رہیں گے۔ان کا بچہ اپنے والدین کو یاد کرتا رہتا ہے اور اب ہمارے پاس اسے بہلانےپھسلانے کے بہانے ختم ہو گئے ہیں۔ یہ سفر ہمارے لیے مصیبت لےکر آئی ہے۔’
وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق،ملک کے الگ الگ حصوں میں 35 ممالک کے 3500 سےزیادہ غیرملکی شہری پھنسے ہوئے ہیں۔ان میں کئی حاملہ خواتین اور بزرگ بھی ہیں، جنہیں فوراً میڈیکل کیئر کی ضرورت ہے لیکن تمل ناڈو میں 129غیرملکی شہریوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔
ان میں 12خواتین ہیں، جن میں سے کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جن کے بچے بےحد چھوٹے ہیں۔ تمل ناڈو حکومت نے اپریل میں ریاست میں 15 ایف آئی آر درج کی اور کئی جوائنٹ انٹرڈسٹرکٹ آپریشن شروع کرکےغیرملکی شہریوں کو جیل میں ڈالنا شروع کیا۔
ان میں سے اکثر لوگوں کو الگ الگ مسجدوں اور نجی رہائش سے اٹھایا گیا، جہاں انہوں نے خود کو کورنٹائن کیا تھا۔
حکومت کے خصوصی اڑانوں میں سوار ہونے سے کچھ منٹوں پہلے ہی ملیشیا کے 10شہریوں کو حراست میں لیا گیا۔تب سے جیلوں میں بند ان غیرملکی شہریوں نے خود کو باہر نکالنے کے لیے موجود ہر قانونی جوازسے کام لینےکی کوشش کی، لیکن ریاستی حکومت ایسا ہونے نہیں دے رہی۔
ایک نیا ‘حراستی کیمپ’
ان کی گرفتاری سے لگ بھگ ایک مہینے بعد مدراس ہائی کورٹ نے چھ مئی کو تھائی لینڈ کے چھ شہریوں کو ضمانت دی۔ حالانکہ تمل ناڈو حکومت نے ان کی رہائی کا انتظام کرنے کے بجائے سرکاری احکام جاری کرکے انہیں حراست میں رکھ لیا۔گورنر بنواری لال پروہت کی جانب سے آٹھ مئی کو جاری آرڈر میں کہاگیا، ‘غیرملکی ایکٹ 1946 کی دفعہ 3(2)کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تمل ناڈو کے گورنرنے یہ حکم دیا ہے کہ یہ غیرملکی شہری چنئی کے پوجھل میں بنے خصوصی کیمپ میں رہیں گے۔’
اس آرڈرکے ساتھ تمل ناڈو ملک کی واحد ایسی ریاست بن گئی، جس نے وبا کے دوران غیرملکی ایکٹ کے تحت حراستی سینٹر بنایا ہے۔یہاں تک کہ وہ ریاست جہاں پہلے سے حراستی کیمپ ہیں، انہوں نے بھی ان کا استعمال نہیں کیا ہے۔ وہیں، تمل ناڈو حکومت نے بورسٹل اسکول کو حراستی سینٹر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ریاستی حکومت نے اس کی عارضی کیمپ کے طور پرزمرہ بندی کی ہے، نہ کہ حراستی سینٹر کے طور پر لیکن وکیلوں اور کارکنوں نے اس کو گمراہ کن بتایا ہے۔پچھلے سال کے اواخرمیں جب کرناٹک اور مہاراشٹرسمیت کئی ریاستی حکومتوں نے ہندوستان آنے والے غیر قانونی مہاجرین کے لیے حراستی کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس وقت تمل ناڈو حکومت نےاس طرح کا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔تمل ناڈو میں پہلے سے ہی حراستی سینٹر کی طرز پر ترچی میں
انٹر میڈیٹ کیمپ بن چکا تھا، جہاں زیادہ تر سری لنکائی شہریوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔لیکن وکیلوں کا کہنا ہے کہ اس نئےسرکاری احکام کے ساتھ تمل ناڈو ان ریاستوں میں شامل ہو گیا ہے، جو مذہبی اقلیتوں کوہراساں کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وکیلوں کا کہنا ہے کہ اس نئے احکام سے حراست میں رکھے گئے غیرملکی شہریوں کی محفوظ رہائی کے لیے مدرئی اور چنئی کی عدالتوں میں طویل عرصےسے چل رہی کوششوں کو بھی شدیدجھٹکا لگا ہے۔تمل ناڈو میں ایک غیرملکی شہری کی رہائی کو لےکر کام کر رہے ایک وکیل کےایم عاصم شہزاد نے کہا، ‘جیسے ہی ہمیں تھائی لینڈ کے چھ شہریوں کی ضمانت کے آرڈر ملے، ہم ان کی رہائی کے لیے پوجھل سینٹرل جیل گئے لیکن ہمیں بتایا گیا کہ آٹھ مئی کو جاری سرکاری احکام کے بعد سے اب انہیں سیداپیٹ کی جیل بھیجا جائےگا۔’
شہزاد کا الزام ہے کہ ضمانت کے آرڈر اورسرکاری آرڈر کے بیچ ہی تمل ناڈو حکومت نے غیرقانونی طورپر چھ لوگوں کو حراست میں لیا۔دفاعی وکیلوں نے غیرقانونی طورپر جیل میں رکھے جانے کے خلاف مدراس ہائی کورٹ میں حبس بےجا یعنی ‘ہیبیس کارپس’کی عرضی دائر کی تھی۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ کسی دوسری ریاست نے اس طرح کا قدم نہیں اٹھایا۔
ایسے 3500 سے زیادہ غیرملکی شہری ہیں، جن پر مبینہ طور پر ویزاضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے غیرملکی ایکٹ کے تحت معاملے درج ہیں۔انہوں نے کہا، ‘صرف تمل ناڈو حکومت نے ہی جارحانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’
غیرملکی شہریوں کو حراستی کیمپ میں رکھنے کا تمل ناڈو حکومت کا آرڈر۔
پوجھل سینٹرل جیل سے جڑے بورسٹل اسکول میں 38 لوگوں کو رکھنے کی صلاحیت ہے لیکن اس کے بجائے یہاں 129 لوگوں کو رکھا گیا ہے۔بورسٹل اسکول کا دورہ کر چکے وکیلوں نے د ی وائر کو بتایا کہ کیمپ کے اندر کی حالت رہنے لائق نہیں ہے۔ایک وکیل نے بتایا،‘ہم جب بھی ہم وہاں جاتے ہیں وہ(غیرملکی شہری)ہم سے اپنی وطن واپسی کے بارے میں پوچھتے۔ ان میں سے اکثر ہندوستانی کھانوں سے متعارف نہیں ہیں اور عام طور پر بھوکے رہتے ہیں۔ انہوں نے مہینوں سے اپنے اہل خانہ سے بات نہیں کی ہے۔’
سابق ایم ایل اے اور منی تھنییا مکل کاچی پارٹی کے رہنما ایم ایچ جواہراللہ حراست میں رکھے گئے ان لوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور ان کی لیگل ٹیم سے تال میل بنائے ہوئے ہیں۔وہ ان اکثر اہل خانہ کے لیے رابطے کا واحد ذریعہ ہیں، جوسیاسی دخل اندازی کے باوجود اپنے رشتہ داروں سے رابطہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
ان میں سے اکثر فیملی سے دی وائر نے بات کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں اپریل سے ہی چنئی حراستی کیمپ میں بند اپنے رشتہ داروں کی کوئی کھوج خبر نہیں ہے۔حسین بن حسن اپنے 26 سالہ بیٹے محمد امیرالحافظ کے بارے میں جاننے کے لیے ہندوستان میں ملیشیا کے سفارت خانے سے یا ہندوستان میں اپنے جاننے والوں کے رابطہ میں رہتے ہیں۔
حسن نے دی وائر کو بتایا،‘میرا11 اپریل کو اس سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ہر دن ویڈیو کال کرتا تھا۔’ حسن کا کہنا ہے کہ امیرل کا یہ چوتھا اور سب سے برا ہندوستان دورہ رہا۔ملیشیا کے نیگیری سیمبلن کے رہنے والے حسن نے کہا، ‘میرے داداکے وقت سے ہی ہم ہندوستان کا دورہ کرتے رہے ہیں اور تبلیغی جماعت کے اجتماع میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ ہمارا استقبال کیا ہے لیکن ہمیں نہیں پتہ تھا کہ چیزیں اتنی بگڑ جائیں گی۔’
مارچ میں جب کورونا وائرس کے معاملے لگاتار بڑھنے لگے اور نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے کچھ ممبر کوروناسے متاثر پائے گئے۔اس وقت بی جے پی، کئی حکومت حامی میڈیا گھرانوں اور سوشل میڈیا حامیوں نے بڑھ چڑھ کر فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑ کانے کا کام کیا۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نظام الدین مرکزمیں منعقداجتماع میں حصہ لینے والے ہندوستانی اور غیرملکی مسلمانوں پر اکثر ریاستوں میں کئی ایف آئی آر درج کی گئی۔ایک یا دو معاملوں کو چھوڑکر حراست میں لیا گیا ہر شخص کو روناسے متاثر پایا گیا، لیکن ان کی گرفتاری کے بعد سے ہی انہیں پوجھل جیل میں رکھا گیا ہے، جہاں کورونا کے
کم سے کم 40 معاملے سامنے آ چکے ہیں۔
کیا ہیں الزام
ان پر آئی پی سی اور وبائی امراض سے متعلق ایکٹ کے تحت مختلف دفعات میں معاملے درج کئے گئے۔ غیرملکی شہریوں پر مبینہ طور پر ویزاضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے غیرملکی ایکٹ کے ساتھ ساتھ یکساں دفعات میں معاملے درج کیے گئے۔استغاثہ نے ویزا ضابطوں کے کلاز15 کا حوالہ دیا ہے، جو غیرملکی شہریوں کو تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل ہونے سے روکتا ہے۔ اس کلاز میں حالانکہ مذہبی مقامات پر جانے اور مذہبی اجتماع میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
ہندوستانی ویزا کے لیے وضع کیے گئے جنرل پالیسی کے علاوہ تبلیغی لفظ کی نہ توتعریف کی گئی ہے اور نہ ہی یہ کسی دوسرے سرکاری دستاویز میں درج ہے۔وکیل شہزاد کہتے ہیں کہ حکومت نے اس لفظ کامطلب واضح کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ وہیں وکیلوں نے مذہب کی تبلیغ کی زوردار تردیدبھی کی ہے۔
شہزاد کہتے ہیں،‘یہ جاننااہم ہے کہ ان میں سے اکثرغیرملکی انگریزی یا دوسری مقامی زبان نہیں جانتے تو ایسے میں بنامقامی لوگوں سے بات کیے بغیرکوئی مذہب کی تبلیغ کیسے کر سکتا ہے۔’ٹھیک اسی طرح ویزاضابطوں کی خلاف ورزی اور سماجی دوری کے ضابطوں کی پیروی نہیں کرنے کے آئی پی سی کی دفعات کی خلاف ورزی کرنے کے الزام لگاکر غیرملکی شہریوں کو دوسری ریاستوں میں حراست میں رکھا گیا۔
حالانکہ ایسی چھ الگ الگ مثالیں ہیں، جہاں ضلع عدالتیں پہلے ہی ریاست کے دعووں کو پلٹ چکی ہیں۔کچھ معاملوں میں گرفتار کئے گئے، ایک مقام پر اکٹھا اور سماجی دوری کے لیے حکومت کے احکامات کی تعمیل نہیں کرنے کے الزام میں قصوروار بھی ٹھہرائے گئے تھے لیکن عدالتوں نے ان الزامات کو سنگین نہیں مانتے ہوئے انہیں بری کرنے کا فیصلہ کیا۔
تبلیغی جماعت کےاجتماع میں شرکت کرنے والے مہاراشٹر، ہریانہ اور اتر پردیش میں لگ بھگ 100 غیرملکی شہریوں کو اب تک رہا کیا جا چکا ہے۔عدالت کے آرڈر کے باوجود کئی غیرملکی سفارت خانوں نےتصدیق کی ہے کہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کیا گیا لک آؤٹ نوٹس واپس نہیں لیا گیا ہے، جس سے ان کی واپسی لگ بھگ ناممکن ہے۔
ہندوستان میں پھنسے اور انتظامیہ کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے اور دس سالوں کے لیے ہندوستان میں آمدپر پابندیوں کا سامنا کر رہے کئی غیرملکی شہریوں کی عرضی پر 29 جون کو شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا، ‘اگر ان غیرملکی شہریوں کے ویزا رد کر دیےگئے ہیں تو یہ ابھی تک ہندوستان میں کیوں ہیں؟’
بنچ نے کہا، ‘آپ انہیں ملک بدر کریں۔ ساتھ میں ہمیں یہ بھی بتائیں کہ ان کا ویزا رد کرنے یا انہیں بلیک لسٹ کرنے کی جانکاری یا عام احکامات جاری کر دی گئی یا ان میں سے ہر کسی کو نجی طور پر دی گئی۔’
کیا یہ حراست غیرقانونی ہے؟
بتا دیں کہ ان سبھی 129 غیرملکی شہریوں کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ غیرملکی ایکٹ کے تحت ریاستوں کے پاس ملزم غیرملکی شہریوں کو بری کرنے یا انہیں ان کے ملک بدر کرنے تک ان پر پابندی لگانے کا اختیار ہے۔مدراس ہائی کورٹ کی مدرئی بنچ کے جسٹس جی آر سوامی ناتھن نے 12 جون کو انسانی نظریہ اپناتے ہوئے کہا کہ حراست میں رکھے گئے یہ غیرملکی شہری پہلے ہی بہت تکلیف برداشت کر چکے ہیں۔
جج نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 21(زندگی کا حق)ان عرضی گزاروں پر بھی نافذ ہوتا ہے بھلے ہی یہ غیرملکی شہری ہوں۔عدالت نے اپنے آرڈر میں ریاست کوہدایت دی کہ وہ بورسٹل اسکول میں حراست میں رکھے گئے غیرملکی شہریوں کو ایسے مقام پرمنتقل کریں جو جیل کے اندر نہ ہو۔
عدالت
ماڈل حراستی سینٹر/ہولڈنگ سینٹر/کیمپ ضابطے کاذکر کر رہی تھی، جس کے بارے میں وزارت داخلہ نے نو جنوری 2019 کو ہر ریاست کومطلع کیا تھا۔ضابطہ کے باب چار میں درج لازمی39 سہولیات میں سے جیل کیمپس کے بار کیمپ بنانا پہلا معیار ہے۔حالانکہ جواہراللہ کہتے ہیں کہ ریاستی حکومت اس میں فرق کرنے میں ناکام رہی ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘شروعات سے ہی حراست میں لیے گئے لوگوں کو جیل کے اند رکھا گیا ہے اور ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد بھی اس میں تبدیلی نہیں کی گئی۔’
اسی طرح دوسرے اہتماموں میں فیملی کے ساتھ مستقل رابطہ، کھانا بنانے کے لیے الگ جگہ، پانی تک پہنچ شامل ہیں۔وہ بتاتے ہیں، ‘ایک بھی ضرورت کو پورا نہیں کیا گیا۔دراصل دوسرے قیدیوں کے مقابلے ان کے (غیرملکی شہریوں) ساتھ بے حد برا برتاؤ کیا گیا۔’
اس بیچ چنئی کے جامعہ قاسمیہ عربی کالج نے حراست میں رکھے گئے غیرملکی شہریوں کو رہائش مہیا کرانے کی پیشکش کی لیکن ریاستی حکومت نے اس پیشکش کو نظراندازکر دیا۔دفاعی وکیل اپنی ہیبیس کارپس کی عرضی پر ہائی کورٹ کی دخل اندازی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وکیل سرکاری احکامات کو چیلنج دیے جانے کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔
اس بیچ ان غیرملکی شہریوں کے اہل خانہ ان کے واپس لوٹنے کا انتظار کر رہے ہیں اور حکومت ہندسے فرقہ وارانہ سیاست نہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔حسن حکومت ہندسےفریاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘ہم نے ہمیشہ ہندوستان سے پیار کیا ہے۔ برائے مہربانی ہمیں آپ کے ملک کو اس کی خوبصورتی اور مہمان نوازی کے لیے یاد رکھنے دیجیے۔ ہمارے بچوں کے ساتھ کیے جا رہے اس غیر انسانی سلوک کو بند کیجیے۔’