اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے سے پہلےتمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا کہ مرکز کو این پی آر اور این سی آرکی تیاری سے متعلق اپنی پہل کو بھی پوری طرح سے روک دینا چاہیے۔شہریت قانون کےخلاف قرارداد پاس کرنے والا تمل ناڈو ملک کا آٹھواں صوبہ بن گیا ہے۔
تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کےا سٹالن۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:تمل ناڈاسمبلی نے بدھ کو ایک قرارداد منظور کرکےمرکز سےشہریت قانون (سی اے اے)2019 کو رد کرنے اور اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کےتحفظ اورآئین میں درج سیکولر اصولوں کو بنائے رکھنے کی گزارش کی۔
وزیر اعلیٰ ایم کےاسٹالن نے قرارداد پیش کرنے سے پہلے کہا کہ مرکز کواین پی آر اوراین آرسی کی تیاری سےمتعلق اپنی پہل کو بھی پوری طرح سے روک دینا چاہیے۔
سی اے اے کے خلاف تجویز پاس کرنے والا تمل ناڈو آٹھواں صوبہ ہے، جبکہ شہریت پرمرکز کے 2019 کے ترمیم شدہ قانون کے خلاف جانے والا کیرل پہلا صوبہ اور پڈوچیری پہلا یونین ٹریٹری تھا۔ پڈوچیری میں تب کانگریس کی سرکار تھی۔
اسٹالن نے کہا کہ سی اے اےسری لنکائی تمل مہاجرین کے ساتھ بڑا دھوکہ تھا، کیونکہ اس نے ان کے ایک طبقہ کے حقوق کو چھین لیا، جو واپس جانے کی خواہش نہیں رکھتے تھے اور ہندوستان میں بسنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا،‘اگر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مہاجر آ سکتے ہیں تو سری لنکا سے آنے والوں پر پابندی کیوں ہے؟ یہ سری لنکائی تمل مہاجرین کے ساتھ ایک بڑادھوکہ ہے۔’
انہوں نے کہا کہ تمل مہاجرین کے بارے میں فکرمند ہونا تو دور، مرکزی حکومت نے حقیقت میں ان کے ساتھ امتیاز کیا اور اس لیے اس قانون کی مخالفت کرنی پڑی۔
اسٹالن نے کہا کہ مہاجرین کو صرف ساتھی انسانوں کی شکل میں دیکھا جانا چاہیے اور کسی بھی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے، چاہے وہ مذہب، نسل یا ان کا آبائی ملک ہو اور صرف یہی صحیح نظریہ ہو سکتا ہے۔
سی اے اے کےخلاف اسٹالن کی جانب سےدی گئی دلیل میں کہا گیا کہ یہ آئین کےبنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے اور لوگوں کو تقسیم کرتا ہے۔
اسٹالن کی طرف سے پیش تجویز میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں پارلیامنٹ کے ذریعے پاس سی اے اے، ہمارے آئین میں درج سیکولرازم کےاصولوں اورہندوستان میں موجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بھی موافق نہیں ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ جمہوری اصولوں کے مطابق، کسی ملک کو سماج کے تمام طبقوں کےتوقعات اورخدشات پر غور کرتے ہوئے حکومت کرنی چاہیے۔
قرارداد میں کہا گیا،‘لیکن یہ واضح طورپر دیکھا گیا ہے کہ سی اے اے کو اس طرح سے پاس کیا گیا تھا کہ یہ مہاجرین کو ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے ان کی حمایت نہیں کرتی ہے، بلکہ ان کےمذہب اور ان کے آبائی ملک کے مطابق ان کے ساتھ امتیاز کرتا ہے۔اس لیےاس ملک میں اتحاداورفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کو یقینی بنانے اور ہندوستان کے آئین میں درج سیکولرازم کے اصولوں کو بنائے رکھنے کے لیے،یہ پارلیامنٹ مرکزی حکومت سے شہریت ایکٹ2019 کو رد کرنے کی گزارش کرنے کا عزم لیتا ہے۔’
قراردادکو قبول کر لیا گیا۔ اپوزیشن پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کےکےممبرقراردادپاس کیے جانے کے دوران ایوان میں نہیں تھے۔ انہوں نے وقفہ صفر کے دوران کچھ مدعے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ایسا نہیں ہونے پر ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
قراردادکی مخالفت کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی )کے ایم ایل اے نے بھی ایوان سےواک آؤٹ کیا اور بعد میں پارٹی کے رہنما نینار ناگیندرن نے میڈیا سے کہا کہ سی اے اے کا مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
بتا دیں کہ گزشتہ جون میں تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا تھا کہ اسمبلی کے آئندہ بجٹ سیشن میں مرکز کےزرعی قانون اورشہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف قرارداد پاس کیے جائیں گے۔
اسٹالن نے کہا تھا کہ چونکہ سی اے اے نے ملک بھر کے اقلیتوں کےمفاد کو متاثر کیا ہے اور ان کے بیچ خوف وہراس پھیل گیا ہے، اس لیے مرکز سے اس قانون کو بھی واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے بجٹ سیشن میں ایک قرارداد پاس کی جائےگی۔
معلوم ہو کہ11 دسمبر 2019 کو پارلیامنٹ سے سی اے اے پاس ہونے کے بعد سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرےہوئے تھے۔ صدر کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ بل قانون بن گیا۔
اس کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی طور پر ہراسانی کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام ہے، بشرطیکہ یہ31دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے ہوں۔
سال2019 میں جب سی اے اے نافذ ہوا تو ملک کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرہ ہوا اور انہی احتجاجی مظاہروں کے بیچ 2020 کی شروعات میں دہلی میں دنگے ہوئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)