آئین کے ماہر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل فلی نریمن نے ایک انٹرویو میں آرٹیکل 370 اور جموں و کشمیر سے متعلق سپریم کورٹ کے گیارہ دسمبر کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
کرن تھاپر اور فلی نریمن۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی:ہندوستان میں آئین کے سرکردہ ماہر اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ فلی نریمن نے ایک انٹرویو میں آرٹیکل 370 اور جموں و کشمیر سے متعلق سپریم کورٹ کے 11 دسمبر کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پوری طرح سے ناقص اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ
بات کرتے ہوئےنریمن نے کہاکہ آئینی طور پر یہ حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے کہ وہ کسی ریاست کا درجہ گھٹا کراس کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کر دے، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 3 اسے یہ اختیار نہیں دیتا۔
نریمن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے دو مخصوص پہلو – آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے کو برقرار رکھنے اور جموں و کشمیر کی تنظیم نو (درجے کو تبدیل کرنا) میں الگ الگ غلطیوں کی نشاندہی کی۔
تاہم، نریمن نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسی کوئی مثال قائم کرتا ہے جو مغربی بنگال، کیرالہ یا تمل ناڈو جیسی ریاستوں کے مستقبل یا وفاقیت کے تصور– جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، کو متاثر کر سکتا ہے۔
انہوں نے
دی ہندو کے اس ایڈیٹوریل کو قبول کیا، جس میں کہا گیا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ‘غیرمنطقی فیصلہ ہے کہ جب کوئی ریاست صدر کے ماتحت ہوتی ہے ، توپارلیامنٹ ریاستی مقننہ کی جانب سے کسی بھی طرح کاناقابل تبدیل کام کر سکتی ہے۔’
سب سے اہم نکتہ، جسے نریمن نے بات چیت کے دوران دو یا تین بار دہرایا، وہ یہ ہے کہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ ‘پوری طرح سے غلط اور قانون کے نظریے سے بدتر’ ہے۔
تاہم، انٹرویو کے آخر میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے یہ باتیں ‘عدالت کے حوالے سے’ کہی ہیں، یعنی ان کا اس تنقید کے توسط سے سپریم کورٹ کی توہین کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
پوری بات چیت یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔