سپریم کورٹ ہیٹ اسپیچ کو روکنے سے متعلق متعدد عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔ اس کڑی میں ہریانہ کے نوح ضلع میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد دہلی اور این سی آر میں منعقد مظاہروں کے حوالے سے ایک عرضی پر اس نے کہا کہ پولیس کو ان جرائم کے بارے میں حساس ہونے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ پولیس کو ہیٹ اسپیچ سے متعلق جرائم کے بارے میں حساس ہونے کی ضرورت ہے اور کہا کہ اگرچہ ہیٹ اسپیچ کی تعریف پیچیدہ ہے، لیکن بڑا مسئلہ زمینی سطح پر عملدرآمد کا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق، ہیٹ اسپیچ پر روک لگانےوالی کئی عرضیوں پر سماعت کر رہی عدالت نے اس سلسلے میں مرکز اور ریاستوں سے بھی مدد طلب کی اور معاملے کو دو ہفتے بعد سماعت کے لیے لسٹ کر دیا۔
سماعت کے دوران جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی کی بنچ نے کہا، ‘اس کا حل لازمی طور پرتلاش کیا جانا چاہیے۔ ان معاملات میں عدالت نہیں آتے رہنا چاہیے۔
عدالت ہریانہ کے نوح ضلع میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد دہلی اور این سی آر میں منعقد مظاہروں سے متعلق 2 اگست کو دائر کی گئی عرضی پر غور کر رہی تھی۔ عدالت نے بدھ کو مرکز اور ریاستوں کے حکام کو ہدایت دی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان احتجاجی جلسوں کے مقامات پر تشدد یا ہیٹ اسپیچ نہ ہو۔
وکیل نظام پاشا نے عدالت میں ایک نئی عرضی دائر کی اور کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ہریانہ، اتر پردیش اور دہلی میں احتجاجی ریلیوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔
عدالت نے کہا، ‘معاملے کا ایک پہلو ہیٹ اسپیچ کی تعریف ہے – کیا ہیٹ اسپیچ ہے اور کیااظہار رائے کی آزاد ی ہے – جو خود پیچیدہ ہے کیونکہ اس کی اچھی طرح سے تعریف نہیں کی گئی ہے۔ لیکن بڑا مسئلہ عملدرآمد کا ہے۔
بنچ نے مزید کہا، پولیس فورس میں کچھ حساسیت لانی ہوگی۔ ہم اس پر مرکز اور ریاستوں کی مدد چاہیں گے۔ کچھ مسائل والے علاقے ہیں۔ آخرکار امن برقرار رکھنا ہی سب کے مفاد میں ہے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتہ مرکز کی طرف سے پیش ہوئے اوربتایا کہ 2018 میں سپریم کورٹ نے تحسین پونا والا بنام یونین آف انڈیا کیس میں تفصیلی ہدایات دی تھیں، جہاں ہیٹ اسپیچ کی وضاحت کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا،اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے، تو اس کا علاج ایف آئی آر درج کرنا ہے۔ اب توہین عدالت کی درخواست دائر کر کے سپریم کورٹ سے رجوع کرنااور کوئی جرم نہ ہو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پیشگی فیصلہ حاصل کرناعادت بن گئی ہے ۔
نوح تشدد سے متعلق عرضی پر پیش ہوئے سینئر وکیل سی یو سنگھ نے کہا، ‘یہ کوئی بے معنی عرضی نہیں ہے۔ آپ کے پاس ایسی تقریریں دستیاب ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں کے قتل عام کو صحیح ٹھہراتے ہیں۔
بنچ نے ان مسائل پر دو ہفتے بعد غور کرنے پر اتفاق کیا اور کہا، ‘اس مسئلے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہن میں کچھ ہے۔ دریں اثنا، آپ بھی مل بیٹھ کر کوئی حل نکال سکتے ہیں۔
عدالت نے گزشتہ سال اکتوبر اور بعد میں اس سال جنوری میں ان درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے کئی ہدایات جاری کی تھیں۔ عدالت نے ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا تھا جس کے ذریعے شکایت نہ ہونے کی صورت میں بھی پولیس نفرت انگیز تقاریر کرنے والے افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کر سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے احتیاطی اقدامات بھی کر سکتی ہے کہ اس طرح کے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے۔