نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس نے رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کی تعمیل نہ کرنے والے سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے کی سفارش کی تھی، جس کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (21 اکتوبر) کو نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی طرف سے جاری کردہ سفارشات پر فی الحال روک لگا دی ہے،جن میں رائٹ ٹو ایجوکیشن(آر ٹی ای) ایکٹ کی تعمیل نہ کرنے والے سرکاری امداد یافتہ مدارس کو بند کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں مرکزی، اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کی آئندہ ہدایات پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، یہ احکامات ملتوی رہیں گے۔
معلوم ہو کہ یہ عبوری حکم چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیا ہے۔
دی ہندو کے مطابق ، اس سلسلے میں ایک اور درخواست عدالت میں زیر التوا ہے، جس میں الہ آباد ہائی کورٹ کے 22 مارچ کو مدرسہ ایکٹ 2004 کو رد کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے۔
سوموار کو ہوئی سماعت میں عدالت نے اتر پردیش اور تریپورہ حکومتوں کے ان احکامات پر بھی روک لگا دی ہے ، جس میں غیر تسلیم شدہ مدارس کے طلباء کو سرکاری اسکولوں میں منتقل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
درخواست میں استدلال کیا گیا ہے کہ اس سال 7 جون اور 25 جون کو جاری کردہ این سی پی سی آر کی سفارشات آرٹیکل 30 کے تحت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کو متاثر کرتی ہیں۔
واضح ہو کہ آئین کا آرٹیکل 30 اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا چلانے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
جمعیۃ نے عدالت کو بتایا کہ اس سلسلے میں وسیع پیمانے پرریاست کی کارروائی سے ایسے مدارس چلانے والے اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، کیونکہ نہ تو ریاست اور نہ ہی مرکز کے پاس قانون میں اتنی بڑی مشق کرنے کا کوئی حق ہے اور این سی پی سی آر کے پاس تو بالکل بھی نہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے، ‘ملک میں این سی پی سی آر کے ذریعے مدارس کونشانہ بنانے،رائٹ ٹو ایجوکیشن (آر ٹی ای) ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات، جس کو مرکزی وزارت تعلیم کی حمایت حاصل ہے، اس عدالت کے ذریعے برقرار رکھے گئے آئینی تحفظات کی مکمل خلاف ورزی ہے اور یہ مدارس کی انتظامیہ میں بےجامداخلت کی کوشش ہے۔
آر ٹی ای ایکٹ کی دفعہ1(5) میں کہا گیا ہے، ‘اس ایکٹ میں شامل کوئی بھی بات مدارس، ویدک پاٹھ شالاؤں اور بنیادی طور پر مذہبی تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں پر لاگو نہیں ہوگی۔’
واضح ہو کہ 7 جون 2024 کو لکھے گئے اپنے خط میں این سی پی سی آر نے یوپی حکومت سے کہا تھا کہ وہ ریاست کے تمام سرکاری امداد یافتہ/ تسلیم شدہ مدارس کی تفصیلی جانچ کرے جو غیر مسلم بچوں کو داخلہ دیتے ہیں تاکہ ایسے بچوں کو باقاعدہ تعلیم کے لیے ا سکولوں میں داخلہ دیا جا سکے۔
کمیٹی کے 25 جون کو لکھے گئے خط میں مرکزی وزارت تعلیم کے محکمہ تعلیم اور خواندگی کے سکریٹری اور تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو موجودہ مدارس کا معائنہ کرنے اور آر ٹی ای ایکٹ کی تعمیل نہ کرنے والوں کی منظوری واپس لینے کی ہدایت دینے کو کہا گیا ہے۔
اس کے بعد 26 جون کو یوپی کے چیف سکریٹری نے ضلع مجسٹریٹوں سے کہا تھا کہ وہ این سی پی سی آر کے 7 جون کے خط میں دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ تریپورہ حکومت نے بھی 28 اگست 2024 کو ایسی ہی ہدایات جاری کی تھیں۔ وہیں، مرکز نے 10 جولائی 2024 کو ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ این سی پی سی آر کی سفارشات کے مطابق مناسب کارروائی کریں۔
بنچ، جس میں جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا بھی شامل تھے، نے عرضی میں تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو فریق بنانے کے لیے جمعیۃ کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگھ کی درخواست کو قبول کر لیا۔
غور طلب ہے کہ صرف یوپی میں 16513 تسلیم شدہ مدارس ہیں، جو تقریباً 27 لاکھ طلباء کو تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے 558 کو مکمل طور پر ریاست کی طرف سے مالی امداد دی جاتی ہے اور باقی سرکاری امداد یافتہ نجی مدارس ہیں۔