گزشتہ 26 نومبر کو صدر دروپدی مرمو نے جھارکھنڈ اور ان کی آبائی ریاست اڑیسہ کے غریب آدی واسیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ضمانت کی رقم ادا کرنے کے لیےپیسے کی کمی کی وجہ سے ضمانت ملنے کے باوجود جیل میں ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے ملک بھر کے جیل حکام کو ایسے قیدیوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت دی ہے۔
(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
نئی دہلی: ضمانت ملنے کے باوجود چھوٹےموٹے جرائم میں جیلوں میں بند آدی واسیوں کی حالت زار پر گزشتہ ہفتے صدر دروپدی مرمو کی تقریر کے بعد سپریم کورٹ نے منگل کو ملک بھر کے جیل حکام کو ہدایت دی کہ وہ ایسے قیدیوں کی تفصیلات 15 دنوں کے اندر فراہم کریں، تاکہ ان کی رہائی کے لیے قومی لائحہ عمل تیار کیا جا سکے۔
صدر جمہوریہ نے 26 نومبر کو سپریم کورٹ سے اپنے پہلے یوم آئین کے خطاب میں جھارکھنڈ کے ساتھ ساتھ ان کی آبائی ریاست اڑیسہ کے غریب آدی واسیوں کی حالت زار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ضمانت کی ادائیگی کے لیے پیسےکی کمی کی وجہ سے ضمانت ملنے کے باوجود جیل میں ہیں۔
مرمو نے انگریزی میں لکھی ہوئی تقریر سے ہٹ کر ہندی میں بولتے ہوئے عدلیہ سے غریب آدی واسیوں کے لیے کچھ کرنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ سنگین جرائم کے ملزم آزاد ہو جاتے ہیں، لیکن یہ غریب قیدی جو کسی کو تھپڑ مارنے کے جرم میں جیل میں بند ہو سکتے ہیں، انہیں رہائی سے پہلے برسوں جیل میں گزارنا پڑتا ہے۔
مرمو نے برسوں سے معمولی جرائم میں جیلوں میں بندغریب لوگوں کی مدد کرکے وہاں قیدیوں کی تعداد کو کم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، ‘کہا جاتا ہے کہ جیلوں میں قیدیوں کی بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے اور مزید جیلیں بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ اور جیل بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں ان کی تعداد کم کرنے کی ضرورت ہے۔
مرمو نے کہا تھا کہ جیلوں میں بند ان غریبوں کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا تھا، ‘آپ کو ان لوگوں کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو جیل میں ہیں؟ وہ بنیادی حقوق، آئین کی تمہید یا بنیادی فرائض کو نہیں جانتے ہیں۔
مرمو نے کہا تھا، ہمارا کام لوگوں (جیل میں زیر سماعت غریب قیدیوں) کے بارے میں سوچنا ہے۔ ہم سب کو سوچنا ہوگا اور کوئی نہ کوئی راستہ نکالنا ہوگا… میں یہ سب آپ پر چھوڑ رہی ہوں۔
صدر نے انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ سے لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے تنازعات کے حل کا ایک مؤثر طریقہ کار وضع کرنے کی اپیل کی تھی کہ انصاف کے حصول کے عمل کو آسان بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
جسٹس ایس کے کول چیف جسٹس جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے ساتھ ڈائس پر بیٹھے ہوئے تھے جب صدر نے اڑیسہ میں ایم ایل اے کے طور پر اور بعد میں جھارکھنڈ کے گورنر کے طور پر اپنے دور میں کئی زیر سماعت قیدیوں سے ملاقات کا اپنا تجربہ بیان کیا۔
منگل کو جسٹس کول اور جسٹس ابھے ایس اوکا کی بنچ نے جیل حکام کو ایسے قیدیوں کی تفصیلات متعلقہ ریاستی حکومتوں کو پیش کرنے کی ہدایت دی ، جو 15 دنوں کے اندر دستاویزات کونیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (نالسا) کو بھیجیں گی۔
بنچ نے کہا کہ جیل حکام کو زیر سماعت قیدیوں کے نام، ان کے خلاف الزامات، ضمانت کے فیصلے کی تاریخ، ضمانت کی شرائط جو پوری نہیں ہوئیں اور ضمانت کے فیصلے کے بعد انہوں نے جیل میں کتنا وقت گزارا، جیسی تفصیلات فراہم کرنے ہوں گے۔
خبر رساں ایجنسی
پی ٹی آئی کے مطابق، بنچ نے اپنےفیصلے میں کہا، ‘شروع میں ہم نے ان قیدیوں/ زیر سماعت قیدیوں کا معاملہ اٹھایا جو ضمانت ملنے کے باوجود زیر حراست ہیں، لیکن ضمانت کی شرائط پوری نہیں کر سکے۔ ملک کی ہر جیل اتھارٹی کو اپنی ریاستی حکومت کو ان تفصیلات سے آگاہ کرنا ہوگا جو ایسے قیدیوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے قومی سطح کا منصوبہ تیار کرنے کے لیےنالسا کو بھیجے جائیں گے۔
امیکس کیوری کے طور پر عدالت کی مدد کر رہے ایڈوکیٹ دیونش اے موہتا نے کہا کہ دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی (ڈی ایس ایل ایس اے) کے پاس ضمانت دیے جانے کے باوجود جیل میں بند ایسے زیر سماعت قیدیوں کی مدد کرنے کا منصوبہ ہے ۔
بنچ نے کہا، اس طرح کے معاملات دہلی میں کم ہو سکتے ہیں لیکن جہاں مالی وسائل ایک چیلنج بن جاتے ہیں، وہاں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
اس نےنالسا کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل گورو اگروال سے کہا کہ وہ ایک قومی منصوبہ بنانے کے تمام امکانات تلاش کریں اور حالات سے نمٹنے اور ضمانت کے احکامات پر عمل درآمد کے طریقے تجویز کریں۔
عدالت عظمیٰ سونادھر نامی مجرم کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی، جسے عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، جو 18 سال سے زیر حراست ہے،اور قبل از وقت رہائی کی درخواست کر رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے 15 ستمبر کو کہا تھا کہ جن مجرموں نے عمر قید کی سزا کے 10 سال مکمل کر لیے ہیں اور جن کی اپیل پر مستقبل قریب میں اعلیٰ عدالتوں میں سماعت نہیں ہو رہی ہے، انہیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے جب تک کہ راحت دینے سے انکار کرنے کرنے کے کوئی ٹھوس وجوہات موجود نہ ہوں۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اسے مجرموں کے معاملے میں جیلوں کی بھیڑ کو کم کرنے کے مقصد کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے، جن کی سزا کے خلاف اپیلیں برسوں سے زیر التوا ہیں اور مستقبل قریب میں ہائی کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کی سماعت کا امکان نہیں ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ یہ کوشش دو سطحوں پر ہونی چاہیے- پہلا، جن مجرموں کو 10 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی ہے، انہیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے، جب تک کہ انہیں راحت دینے سے انکار کرنے کی ٹھوس وجوہات نہ ہوں۔
دوسرا، ایسے مقدمات کی نشاندہی جہاں مجرموں نے 14 سال کی حراست مکمل کر لی ہے، اس صورت میں ان کی اپیلوں کے زیر التوا ہونے کے باوجود، ایک مخصوص مدت کے اندر قبل از وقت رہائی پر غور کے لیے کیس کو حکومت کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ اگر کوئی قیدی قتل کے مقدمے میں پہلے ہی 14 سال کی سزا بھگت چکا ہے، تو ہر ریاست میں قبل از وقت رہائی کے لیے ایسے معاملات کی جانچ کے لیے قوانین موجود ہیں۔
بنچ نے کہا،تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ 14 سال گزر جانے کے بعد ایسا کرنے کے لیے قانونی مدد بہت سے معاملات میں حاصل نہیں کی گئی ہے، جس میں موجودہ کیس (درخواست گزار سونادھر کا)بھی شامل ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جواب دہندہ ریاست اور اس معاملے کے لیے دیگر ریاستوں کو اس پہلو کے حوالے سے اپنا موقف درست کرنا چاہیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)