سپریم کورٹ میں جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے دائر عرضی پر شنوائی کر رہی ہے۔ کیس کی سماعت کر رہے ججوں نے کہا کہ وہ ابھی تک نہیں بھولے ہیں کہ جب بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ ڈالے جاتے تھے تو کیا ہوتا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (16 اپریل) کو بیلٹ پیپر کے دور میں واپسی کے خیال سے اختلاف کرتے ہوئے ان عرضی گزاروں سے سوال کیا، جنہوں نے الکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے ذریعے ووٹنگ پر سوال اٹھائے تھے۔
کیس کی سماعت کر رہے ججوں نے کہا کہ وہ ابھی تک نہیں بھولے ہیں کہ جب بیلٹ پیپر کے ذریعے ووٹ ڈالے جاتےتھے ، تو کیا ہوتا تھا۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، سپریم کورٹ میں جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے دائر عرضی کی سماعت کر رہی ہے۔
جسٹس کھنہ نے اے ڈی آر کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل پرشانت بھوشن سے کہا، ‘خوش قسمتی سے اب ہم ساٹھ کی دہائی میں ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ پہلے کیا ہوتا تھا۔ کیا آپ یہ بھول گئے؟ اگر آپ یہ بھول گئے ہیں تو میں معذرت خواہ ہوں، میں نہیں بھولا ہوں۔’
عدالت نے پرشانت بھوشن سے پوچھا کہ اب آپ کیا چاہتے ہیں؟ پرشانت بھوشن نے کہا کہ وہ دو باتوں کو لے کر عدالت پہنچے ہیں۔پہلی، انتخابات کے لیے بیلٹ پیپر پر واپس جائیں اور دوسری بات یہ کہ ای وی ایم ووٹوں کا 100فیصدی ووٹر ویریفائیڈپیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی) پیپر پرچیوں سے ملان ہو۔ فی الحال، ہر اسمبلی حلقہ میں غیر منظم طور پر منتخب ای وی ایم کے ووٹوں کا ملان وی وی پی اے ٹی پرچیوں سے کیا جاتا ہے۔
جسٹس کھنہ کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پرشانت بھوشن نے کہا کہ کیا آپ بوتھ کیپچرنگ کا ذکر کر رہے ہیں؟ اس پر جسٹس کھنہ نے کہا، ‘بوتھ کیپچرنگ کے بارے میں بھول جائیں۔کیا ہوتا ہے جب بیلٹ پیپر ہوتے ہیں… ویسے بھی۔ آئیے بحث میں نہ پڑیں۔’
معلوم ہوکہ پرشانت بھوشن نے بیلٹ پیپر کا مسئلہ اس وقت اٹھایا جب بنچ کے دوسرے جسٹس دیپانکر دتہ نے ان سے پوچھا کہ ای وی ایم کے علاوہ ان کے ذہن میں کیا آپشن ہے۔
بھوشن نے اپنی دلیل میں کہا، ‘پہلے بیلٹ پیپر ہوا کرتے تھے، بیلٹ پیپر ہو سکتے ہیں۔ بیشتر یورپی ممالک بیلٹ پیپرز پر واپس چلے گئے ہیں۔ انہوں نے جرمنی کی آئینی عدالت کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا کہ کیوں ای وی ایم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور اس لیے کاغذی بیلٹ کا سہارا لیا جانا چاہیے۔’
اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس دتہ نے کہا کہ ہندوستان میں انتخابات کرانا بہت بڑا کام ہے۔ کسی بھی یورپی ملک کے لیے اسے چلانا ممکن نہیں۔ جرمنی اور دوسرے ممالک سے اس کا موازنہ نہ کریں۔
جسٹس دتہ نے کہا، ‘میری آبائی ریاست مغربی بنگال کی آبادی جرمنی سے زیادہ ہے۔ ہمیں کسی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ اس طرح سسٹم کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ ایسی مثالیں نہ دیں… یہ بہت بڑا کام ہے… اور یورپی مثالیں یہاں کام نہیں کرتیں۔’
بنچ نے ای وی ایم کے کام کرنے کے طریقے اور ان کو ذخیرہ کرنے اور ووٹوں کی گنتی کے عمل پر بھی کئی تفتیشی سوالات پوچھے۔ عدالت نے اے ڈی آر کے اس بیان پر بھی سوال اٹھایا کہ ‘زیادہ تر ووٹروں کو ای وی ایم پر بھروسہ نہیں ہے؟ آپ کو یہ ڈیٹا کیسے ملا؟’
اس پر بھوشن نے جواب دیا کہ یہ سی ایس ڈی ایس— لوک نیتی کا سروے تھا۔ اس پر جسٹس دتہ نے کہا کہ ہم نجی سروے پر یقین نہیں کرتے۔
جسٹس کھنہ نے کہا، ‘اس قسم کی دلیل قابل قبول نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سلسلے میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ ایک نجی سروے ایسا نہیں کر پائے گا… یہ ممکن ہے کہ کوئی اور سروے اس کے برعکس کرے۔ ان سب میں نہ جائیں۔’
ایک عرضی گزار نے دلیل دی کہ ای وی ایم ایک پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ کے ذریعے تیار کی جاتی ہے اور وہاں کا تکنیکی شخص جوابدہ نہیں ہے۔
اس پر جسٹس کھنہ نے کہا کہ ‘آپ پرائیویٹ سیکٹر کے مشینیں بنانے سے خوش ہوں گے؟… اگر پرائیویٹ سیکٹر مینوفیکچرنگ کر رہا ہوتا تو آپ خوش ہوتے؟’ پھر آپ یہاں آکر کہتے کہ اسے پرائیویٹ سیکٹر کو نہیں بنانا چاہیے۔’
بنچ نے کہا، ‘جہاں تک ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ای وی ایم ٹھیک سے کام کر رہے ہیں یا نہیں، ہمیں ڈیٹا کے ذریعے جانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں کہ کسی خاص سال کے لیے پولنگ ووٹوں کی کل تعداد کتنی تھی، اور کیا بعد میں گنے گئے ووٹوں کی کل تعداد سے اس کا ملان کیا ہے، کتنے معاملات میں میں تضادات تھے۔ آخر کتنے معاملوں میں امیدواروں نے پرچیوں کی گنتی کی درخواست کی، ان میں کتنے تضادات پائے گئے۔ اس سے ہمیں صحیح تصویر ملے گی کہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری ہو رہی ہے یا اس میں ہیرا پھیری کا امکان ہے یا نہیں۔ وہ یہ ڈیٹا فراہم کریں گے۔ ہم ان سے یہ ڈیٹا طلب کریں گے۔’
بھوشن نے کہا، ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری ہو رہی ہے یا کی گئی ہے۔ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ای وی ایم میں ہیرا پھیری کی جاسکتی ہے کیونکہ ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی دونوں میں ایک پروگرام کی جانے والی چپ ہوتی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دیگر تجاویز یہ ہیں کہ ووٹروں کو وی وی پی اے ٹی پرچی شخصی طور پر لینے اور اسے بیلٹ باکس میں جمع کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ ان کا ووٹ صحیح طریقے سے ریکارڈ کیا گیا ہے اور ای وی ایم پر غیر شفاف شیشے والے کانچ کو شفاف شیشے سے تبدیل کیا جانا چاہیے تاکہ کوئی بھی دیکھ سکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔
درخواست گزاروں کے مطابق، الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا تھا کہ تمام وی وی پی اے ٹی پرچیوں کی گنتی میں 12 دن لگیں گے۔
بھوشن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ وہ مینوفیکچرر کے دانشورانہ املاک کے حقوق کا حوالہ دیتے ہوئے ای وی ایم چپس کے سورس کوڈ کا اشتراک نہیں کر سکتا اور اس سے مشینوں کے بارے میں مزید شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای وی ایم کو دو پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگز – الکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ اور بھارت الیکٹرانکس کے ذریعے جمع کیا جاتا ہے، جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی عہدیدار ڈائریکٹر ہیں۔
سینئر وکیل گوپال شنکرنارائنن نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران ای وی ایم پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد اور کچھ حلقوں میں گنے گئے ووٹوں کی تعداد میں بے میل پر ای سی آئی ڈیٹا کے بارے میں ایک خبر کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے پہلے مرحلے میں جن 373 حلقوں میں ووٹنگ ہوئی وہاں ‘سنگین بے ضابطگیاں ہوئی تھیں…’
لیکن بنچ نے کہا کہ بعض اوقات کچھ تضاد ہو سکتا ہے کیونکہ بٹن فوری طور پر نہیں دبایا گیا ہو گا لیکن ایسے معاملات میں امیدواروں کے پاس ڈیٹا ہوگا اور وہ وی وی پی اے ٹی سلپس کی گنتی کے لیے کہیں گے۔
جسٹس کھنہ نے کہا، ‘اگر ایساکوئی تضاد ہے تو… ہر امیدوار کو وہ ڈیٹا دیا جائے گا… امیدواروں کو اسے فوری طور پر چیلنج کرنا ہوگا۔’
شنکرنارائنن نے کہا کہ اعداد و شمار بعد میں آیا، لیکن بنچ نے اتفاق نہیں کیا۔
حکومتی یقین دہانیوں پر کمیٹی کی جولائی 2023 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے شنکرنارائنن نے یہ بھی کہا کہ جولائی 2023 میں ‘ایک پارلیامانی پینل نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے پارلیامنٹ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2019 کے انتخابات کے دوران ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی ریلی کے درمیان ممکنہ تضادات کے بارے میں الیکشن کمیشن سے جانکاری حاصل کرے گی، لیکن گزشتہ چار سالوں سے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے۔’
بنچ نے کہا کہ وہ اس بارے میں الیکشن کمیشن سے پوچھے گی۔
شنکرنارائنن نے اس قاعدے کے بارے میں بھی خدشہ ظاہر کیا کہ وی وی پی اے ٹی پرچی مانگنے والے ووٹر کو یہ حلف نامہ دینا ہوگا کہ اگر اس کا دعویٰ جھوٹا پایا جاتا ہے تو اسے اس کے نتائج کے بارے میں پتہ ہوگا، جس میں 6 ماہ تک کی قید اور 1000 روپے تک کا جرمانہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس عمل میں دفاع کا کام کرتا ہے۔
جسٹس کھنہ نے کہا، ‘اس کے پیچھے ایک وجہ ہے۔ اس مرحلے میں ووٹر کو کاغذ کی پرچی نہیں دی جاتی ہے۔ اگر وہ کاغذی پرچی مانگے گا تو وہ اس کا حقدار ہوگا۔ لیکن پھر انتخابی عمل کو روکنا پڑے گا۔ کسی کو مشین کھول کر نکالنی ہو گی،امیدواروں کے نمائندوں کو بلانا ہو گا۔’
جسٹس کھنہ نے مزید کہا کہ اس کا عملی پہلو دیکھیں۔ فرض کریں 10 فیصد لوگ پرچیاں مانگیں تو پورا انتخابی عمل ٹھپ ہو سکتا ہے۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 18 اپریل کو ہوگی۔