سپریم کورٹ نے غداری کے دوسرے کیس میں بھی سدھارتھ وردراجن اور کرن تھاپر کو کارروائی سے تحفظ دیا

02:13 PM Aug 23, 2025 | دی وائر اسٹاف

سپریم کورٹ نے 22اگست کو دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن، کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر اور تمام ملازمین کو بی این ایس کی دفعہ 152 کے تحت گوہاٹی پولیس کی جانب  سے درج کیس میں کسی بھی تعزیری کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ تین ماہ میں آسام پولیس کی طرف سے ادارے کے خلاف سیڈیشن کے قانون کے تحت درج کیا گیا یہ دوسرا  معاملہ ہے۔

سدھارتھ وردراجن، کرن تھاپر اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما۔ (تصویریں: فائل/پی ٹی آئی)

نئی دہلی:  سپریم کورٹ نے جمعہ (22 اگست) کو دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن، کنسلٹنگ ایڈیٹر کرن تھاپر اور تمام ملازمین کوبھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس)کی دفعہ 152 کے تحت گوہاٹی کرائم برانچ کے ذریعے درج کی گئی ایف آئی آر میں کسی بھی تعزیری  کارروائی سے تحفظ فراہم کیا ۔

پچھلے تین مہینوں میں آسام پولیس کی طرف سے سیڈیشن کے قانون کے تحت دی وائر کے خلاف درج کیا گیا یہ دوسرا مقدمہ ہے۔

جسٹس سوریہ کانت اور جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے فاؤنڈیشن فار انڈیپنڈنٹ جرنلزم (غیر منافع بخش تنظیم جو دی وائر کی ملکیت ہے) کی نمائندگی کرنے والی سینئر وکیل نتیا رام کرشنن کی زیر التواء رٹ پٹیشن میں ایک درخواست کی سماعت کے بعد تحفظ کا فیصلہ جاری کیا۔

رام کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ جس دن (12 اگست 2025) اس نے ایک اور ایف آئی آر میں دی وائر کے مدیران کو تحفظ فراہم کیا تھا، اسی دن آسام پولیس نے 9 مئی 2025 کی ایک پرانی/غیر فعال ایف آئی آر کو اٹھاکر اس کے مدیران کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ دی وائر کے مدیران پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کو تیار ہیں، لیکن انہیں گرفتاری کا خدشہ ہے۔

سپریم کورٹ نے جمعہ کو حکم دیا کہ، ‘درخواست گزار نمبر 2 اور کنسلٹنگ ایڈیٹر سمیت  درخواست گزارفاؤنڈیشن کےاراکین کے خلاف ایف آئی آر نمبر 3/2025 کے تحت کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی جائے گی، جسے بھارتیہ نیائے سنہتا، 2023 کی دفعہ 152 کے تحت درج کیا گیا ہے، بشرطیکہ وہ تحقیقات میں شامل ہوں اور مکمل تعاون کریں۔’

کیس کی اگلی سماعت 15 ستمبر کو مقرر کی گئی ہے۔

جب آسام پولیس نے دوسری ایف آئی آر میں وردراجن اور تھاپر کو ‘سمن’ جاری کیا، تو انہیں ایف آئی آر کی کاپی، اس کی تاریخ، یا اس کے مندرجات کا خلاصہ بھی نہیں دیا گیا۔ رام کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ 20 اگست کو گوہاٹی میں کرائم برانچ کے سامنے پیش ہونے کے لیے طلب کیے جانے سے دو دن پہلے دی وائر ایف آئی آر کی کاپی حاصل کرنے میں کامیابی مل پائی۔

رام کرشنن کی جانب سے دی وائر کےمدیران کو ہراساں کرنے اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے سلسلہ وار ایف آئی آر  درج کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیے جانے پر بنچ نے زبانی طور پر ریمارکس دیے کہ وہ صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور امید کرتی ہے کہ تمام لوگ قانون کی پیروی کریں گے۔ ممکنہ طور پر ان کا اشارہ آسام پولیس کی جانب تھا۔

معلوم ہو کہ جموں و کشمیر اور میگھالیہ کے سابق گورنر ستیہ پال ملک بھی شامل ہیں، جن کا اس ماہ کے شروع میں انتقال ہو گیا ۔ اس کے ساتھ ہی صحافی اور پاکستان میں پنجاب کے سابق نگراں وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اور دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج بھی اس ایف آئی آر میں نامزد ہیں۔

غور طلب ہے کہ وردراجن کے خلاف موریگاؤں میں 11 جولائی 2025 کو درج کی گئی ایف آئی آر 28 جون 2025 کو دی وائر میں شائع ہونے والی ایک خبر(‘آئی اے ایف لوسٹ فائٹر جیٹز ٹو پاک بی کاز آف پالیٹکل لیڈرشپز کونسٹرینٹس’: انڈین ڈیفنس  اتاشی‘ ) پر بی جے پی کے ایک کارکن کی طرف سے درج کی گئی شکایت سے متعلق ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کرائم برانچ کی ایف آئی آر کا تعلق کس مضمون یا ویڈیو سے ہے۔

واضح ہو کہ  12 اگست، 2025 کو – جس دن سپریم کورٹ نے دی وائر کی عرضی پر نوٹس جاری کیا، جس میں سیڈیشن کے نئے قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا اور جولائی میں موریگاؤں میں درج ایک معاملے میں بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سمیت اس کے تمام صحافیوں کو آسام پولیس کی جانب سے کسی بھی ‘تعزیری کارروائی’ سے تحفظ فراہم کیا تھا۔

میڈیا اداروں، صحافیوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ان ایف آئی آر کو صحافت کو مکمل طور پر مجرمانہ بنانے کی کوششوں کی ایک مثال قرار دیا ہے – سوال پوچھنا، متنوع خیالات کی حوصلہ افزائی، قومی سلامتی سے متعلق اہم مسائل پر عوام کو آگاہ کرنا اور صحت مند بحث و مباحثے کا ماحول بنانا۔

دریں اثنا، جمعرات (21 اگست) کو آسام پولیس نے دہلی میں مقیم صحافی ابھیسار شرما کے خلاف بھی بی این ایس کی دفعہ 152 سمیت کئی دفعات کے تحت ایف آئی آر  درج کی ہے ۔

گوہاٹی کے رہنے والے آلوک بروآ نے ایک ویڈیو پر شکایت درج کروائی ہے جس میں شرما نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے جج سنجے کمار میدھی کے آسام حکومت کی طرف سے قبائلی اراضی کو ایک نجی کمپنی کو منتقل کرنے پر تنقیدی ریمارکس کا حوالہ دیا ہے اور وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ وہ فرقہ وارانہ نفرت کی سیاست کا سہارا لے رہے ہیں۔