سینئر صحافی کرن تھاپر کو دیےایک انٹرویو میں سپریم کورٹ کےسینئر وکیل دشینت دوے نے کہا ہے کہ کالجیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں مقررکیے گئے کئی ججوں نے اپنے پورے کیریئر میں ایک بھی اچھا فیصلہ نہیں لکھا ہے۔
نئی دہلی: عدلیہ، سپریم کورٹ اور کالجیم نظام پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے کہا ہے کہ ‘ہمارے پاس بڑی تعداد میں ایسے جج ہیں، جو انتہائی مشکوک ہیں۔ ان میں یا تو مہارت کی کمی ہے یا پھر علم کی اور سب سے بڑھ کر عزم کا فقدان ہے۔
ہندوستان کے سب سے نامور وکیلوں میں سے ایک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدردوے کہتے ہیں،سپریم کورٹ ایگزیکٹو چیف کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی،جنہیں وہ اندرا گاندھی جیسا ‘طاقتور حکمراں ‘بتاتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ عدلیہ ان سے سوال کرے، ان باتوں کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہوئے دوےکہتے ہیں،جب تک ہمارے پاس کوئی ایسی عدلیہ نہیں ہوگی جو سوال کرنے کے لیے تیار ہو، یہ ملک، آئین اور انصاف کے تصور کو ناکام کر دیں گے۔
دی وائر کے لیےسینئر صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں دوے نے کالجیم سسٹم پر بھی کڑی تنقید کی۔ کالجیم کے قیام کے 1993 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہترین دستیاب افراد کو منتخب کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا۔’ کیا انہوں نے ایسا کیا ہے؟ میری نظر میں تو نہیں۔ میں نے اپنے کچھ ساتھیوں کو بار میں دیکھا ہے۔ پچھلے 10-15 سالوں میں ججوں کی تقرری ہوئی ہے، ، خاص طور پر پچھلے 7-8 سالوں میں،جن کو کبھی جج بنانے پرغور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ جیسی آج ان کی کارکردگی ہے، جیسے فیصلے وہ آج دیتے ہیں۔ عدالت میں وہ جس طرح کے تبصرے کرتے ہیں،یہ مجھے پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کالجیم سسٹم اس پر غور کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے؟
اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ایس مرلی دھر کے بارے میں خصوصی طور پر بولتے ہوئے دوے نے کہا کہ ان کی رائے ہے کہ انہیں سپریم کورٹ میں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘ایک جج کوکیسا ہونا چاہیے، وہ ہر لحاظ سے بہترین ججوں میں سے ایک ہیں۔ لیکن انہیں ایک اچھی ہائی کورٹ بھی نہیں ملی اور کالجیم خاموش ہے۔
غورطلب ہے کہ جسٹس مرلی دھر کو کالجیم کے ذریعے مدراس ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیاتھا، لیکن حکومت نے اس پر روک لگا دی تھی۔ دوے نے دعویٰ کیا کہ کالجیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں مقرر کیے گئے کئی ججوں نے اپنے پورے کیریئر میں ایک بھی اچھا فیصلہ نہیں لکھا ہے۔
دشینت دوے نے سپریم کورٹ پر بھی سخت نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1993 کے بعد سے ایک بار بھی توہین عدالت کے اختیار کا استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ ایگزیکٹو کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہے۔
دوے نے تین مخصوص مثالوں پر بھی بات کی۔ سب سے پہلے، سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت دینے میں بار بار ناکامی، خواہ وہ کامیڈین کی ہو یا اپوزیشن لیڈروں کی۔
دوسرا، سپریم کورٹ کا مسلمانوں اور بالخصوص شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کے ساتھ سلوک۔ اس معاملے میں دوے کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو اس مجسٹریٹ کے خلاف فوری ایکشن لینا چاہیے تھا یا انہیں معطل کرنا چاہیے تھا جس نے شروعات میں آرین خان کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
تیسری مثال سپریم کورٹ کے اس ردعمل سے متعلق ہے، جس میں بی جے پی اپوزیشن کی حکومتوں کو گرانے کے لیے ایم ایل اے کو استعمال کرتی ہے۔
مہاراشٹر کی مثال دیتے ہوئےدوےنے کہا کہ براہ راست فلور ٹیسٹ کا حکم دینے کے بجائے، جس کے بارے میں عدالت کو معلوم تھا کہ وہ ناکام ہو جائے گا، سپریم کورٹ کو یا تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ آسام جانے والے ایم ایل اے کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی یا پھر انہیں جلد از جلد دوبارہ انتخابات کا سامنا کرنا چاہیے۔ اور تب ہی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘کوئی بھی بولنا نہیں چاہتا۔ بار خاموش ہے اور کالجیم اپنا کام ایسے جاری رکھے ہوئے ہے جیسے سب کچھ ٹھیک ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔