سپریم کورٹ کے وکیلوں کے ایک گروپ کی طرف سے اتراکھنڈ کے گورنرگرمیت سنگھ کو لکھے گئے خط میں اپریل میں 12 دنوں کے اندر پیش آنے والے چار واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام واقعات ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف مسلمانوں کے خلاف انجام دیے گئے تھے۔ خط میں ایسے واقعات کے سلسلے میں اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت کی بے حسی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے وکلاء کے ایک گروپ نے اتراکھنڈ کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) گرمیت سنگھ کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں ریاست میں ہیٹ اسپیچ سے متعلق بار بار ہونے والے واقعات پر حکومت کی بے حسی کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
منگل (30 مئی) کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود نفرت انگیز تقاریر کے معاملات پر کارروائی کرنے سے انکار کر کے سپریم کورٹ کی توہین کر رہی ہے۔
خط کےآغاز میں کہا گیا ہے کہ اتراکھنڈ کی امن اور سماجی ہم آہنگی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، ہم ریاست میں حالیہ واقعات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرنے کے لیےیہ خط لکھ رہے ہیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست میں خوف اور نفرت پھیلانے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
خط میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کی چار مثالیں دی گئی ہیں جو پچھلے سال اپریل میں 12 دن کے اندر پیش آئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام واقعات ہندو قوم پرست تنظیموں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف انجام دیے گئے تھے۔
پہلے واقعہ میں 16 اپریل کو رودر سینا کے ایک رہنما نے تقریروں اور ویڈیوز کے ذریعے ون گجر برادری (جو بنیادی طور پر مسلمان ہیں) کو تشددکے بارے میں وارننگ دیتے ہوئے علاقہ چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔
دوسرے واقعہ میں بھی رودر سینا ملوث ہے۔ 20 اپریل کو ایک دوسرے علاقے میں اقلیتوں کے اقتصادی بائیکاٹ اور دنیا سے تمام ‘جہادیوں’ کے خاتمے کی وکالت کرتے ہوئے تقاریر کی گئی تھیں۔
ٹائمز آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہےکہ اس تقریب کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ اس میں ہیٹ اسپیچ نہیں کی جائیں گی، یہ دیکھتے ہوئے کہ اس وقت رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔
اگلے دو واقعات میں بجرنگ دل نے ان اسکولوں میں توڑ پھوڑ کی تھی، جنہوں نے عید سے متعلق ڈرامے پیش کیے تھے۔ 24 اپریل کو بجرنگ دل کے کارکنوں نے دہرادون کے وسنت وہار میں ایک نجی اسکول میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ کارکنان عید پر ہونے والے ایک پروگرام سے ناراض تھے۔
اس کے بعد28 اپریل کو بجرنگ دل کے کارکنوں کے ایک اور گروپ نے اسکول کے اوقات میں ایک اور اسکول کے باہر دھرنا دیا۔ تنظیم نے دعویٰ کیا تھاکہ اسکول نے عید کے لیےایک ڈرامہ اسٹیج کیا تھا۔
تاہم، اتراکھنڈ پولیس نے مذکورہ بالا کسی بھی معاملے میں کارروائی نہیں کی۔
خط میں کہا گیا ہے، عوامی طور پر دستیاب جانکاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتظامیہ سنجیدہ کارروائی نہ کرکے سپریم کورٹ آف انڈیا کے احکامات کی بھی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
اس کےساتھ ہی مذکورہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک ہی شخص اور تنظیم بار بار اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، لیکن انہیں کسی نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے۔’
خط میں کہا گیا ہے، (سپریم) کورٹ کے 21 اکتوبر 2022 کے شاہین عبداللہ بنام یونین آف انڈیا کے فیصلے کے مطابق، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور دہلی کی ریاستوں کو خاص طور پر ہدایت کی گئی تھی کہ ‘اس بات کو یقینی بنائیں کہ جیسے ہی اور جب آئی پی سی کی دفعہ 153اے، 153بی اور 295اے اور 505 کے دائرہ کار میں آنے والی کوئی تقریر کی جاتی ہے یا سرگرمی ہوتی ہے توکوئی شکایت موصول نہ ہونے پر بھی مقدمہ درج کرنے کے لیے از خود نوٹس لیا جائے گا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے، ‘اتراکھنڈ میں ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ 2021 اور 2022 میں ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ پچھلے چند ہفتوں کے واقعات کے تسلسل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس مجرمانہ اشتعال انگیزی اور پرتشدد کارروائیوں کی اجازت دے رہی ہے اور اس لیےیہ توہین عدالت ہے۔
خط میں گورنر سے اپیل کی گئی ہے، ’ہم آپ سے فوری مداخلت کی درخواست کرتے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ آئین، قانون کی حکمرانی اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے احکامات کو قائم رکھا جائے۔‘
اس رپورٹ اور مکمل خط کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔