نام نہاد بلڈوزر ’جسٹس‘ کے خلاف تبصرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی شخص قصوروار ہو تب بھی اس کی جائیداد کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس سلسلے میں ملک بھر میں یکساں رہنما خطوط وضع کرنے کی بات کہی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (2 ستمبر) کو ریاستوں کی جانب سےملزم یا ان کے اہل خانہ کے گھروں اور نجی املاک کو مسمار کرنے کو عوامی انتقام کی ممکنہ کارروائی کے قرار دیتے ہوئے سوال اٹھائے اور کہا کہ ملزم تو ملزم قانون مجرم کےگھروں کو بھی تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے نام نہاد ‘بلڈوزر جسٹس’ کے خلاف تنقیدی ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جائیداد کو صرف اس لیے نہیں توڑا جا سکتا کہ یہ اس شخص کا ہے جس پر جرم کا الزام ہے۔
سنگین جرائم کے ملزموں کے گھروں پر اکثر حکام کی طرف سے کی جانے والی بلڈوزر/توڑ پھوڑ کی کارروائی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر کوئی شخص قصوروار ہو تب بھی جائیداد کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم، سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ وہ عوامی سڑکوں میں رکاوٹ پیدا کرنے والے کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے کو تحفظ نہیں دے گا۔
سپریم کورٹ نے عہدیداروں سے کہا کہ کسی شخص کا گھر صرف اس لیے کیسے گرایا جا سکتا ہے کہ وہ ملزم ہے۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملے پر رہنما خطوط وضع کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔
جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشوناتھن کی بنچ نے بلڈوزر کارروائی کے خلاف درخواستوں پر کہا، ‘اگرچہ وہ قصوروار ہو، قانون کے ذریعے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ ہم قومی سطح پر کچھ رہنما خطوط وضع کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں تاکہ اٹھائے گئے مسائل سے متعلق خدشات کو دور کیا جا سکے۔‘
جسٹس کے وی وشواناتھن نے کہا، ‘کسی باپ کا بیٹا اس کی نافرمانی کرنے والا بھی ہو سکتا ہے، لیکن اگر اس بنیاد پر گھر گرایا جاتا ہے… تو یہ کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ ایسی کارروائی تبھی کی جا سکتی ہے جب ڈھانچہ غیر قانونی ہو۔ جسٹس وشوناتھن نے پوچھا کہ ایسے معاملات سے بچنے کے لیے ہدایات کیوں نہیں دی جا سکتیں۔ انہوں نے کہا، ‘پہلے نوٹس، جواب دینے کا وقت، قانونی چارہ جوئی کا وقت اور پھر انہدام کی کارروائی۔’
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش حکومت ، جس پر انتقامی بلڈوزر کارروائیاں کرنے کا الزام لگایا گیا ہے، کی طرف سے پیش ہوئےسالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا کہ میونسپل ایکٹ میں غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کا اہتمام ہے۔
مہتہ نے ریاستوں کی طرف سے ٹارگٹ کرتے ہوئے، فرقہ وارانہ یا انتقامی طور پر توڑپھوڑ کے الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ ریاستیں قانون پر عمل کرتی ہیں۔ توڑپھوڑ کی کارروائی قانونی طریقہ کار کے بعد عمل میں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت بھی ملزم یا ان کے اہل خانہ کے مکانات اور جائیدادوں کو منہدم کرنے کے خلاف ہے۔ قانون کے تحت اس کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم، انہوں نے عدالت سےدرخواست گزاروں کے متبادل بیانیہ پر غور کرنے پر زور دیا۔ مہتہ نے پوچھا کہ کیا ہوگا اگر کسی شخص پر جرم کا الزام ہے اور اسے میونسپل حکام نے پہلے ہی نوٹس دیا ہے کہ اس کے غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کردیا جائے گا۔
مہتہ نے کہا، ‘اگر ان کے پاس کوئی نوٹس زیر التواء ہے توانہیں بری نہیں کیا جائےگا کیونکہ اس پر کسی جرم کا الزام ہے۔ بہت سے معاملات میں موصولہ حقائق کی بنیاد پر ان افراد کو نوٹس بھیجے گئے تھے۔ بعد میں وہ اس جرم میں ملزم بن گئے۔‘
جسٹس گوئی نے تسلیم کیا کہ میونسپل ایکٹ میں غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کرنے کا اہتمام ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کے نفاذ میں ‘خلاف ورزیاں’ زیادہ ہو رہی ہیں۔
گوئی نے کہا، ‘ہم کسی بھی غیر مجاز ڈھانچے کی حفاظت نہیں کر رہے ہیں، چاہے وہ مندر ہی کیوں نہ ہو۔’ اس پر مہتہ نے مداخلت کی اور کہا، ‘کسی بھی مذہبی ڈھانچے کی۔’ جسٹس گوئی نے زور دے کر کہا کہ ‘غیر منقولہ جائیدادوں کو صرف قانون میں بتائے گئے طریقہ کار کے مطابق ہی گرایا جا سکتا ہے۔’
وہیں، جسٹس وشوناتھن نے کہا کہ سپریم کورٹ غیر مجاز ڈھانچے کی نشاندہی کرنے، متعلقہ افراد کو نوٹس جاری کرنے، ان کی منصفانہ سماعت کرنے اور اس کے بعد کارروائی کرنے کے عمل کو ہموار کرنے کے لیے کل ہند سطح پر یکساں رہنما خطوط وضع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
جسٹس وشوناتھن نے کہا، ‘اگر ہم رہنما خطوط وضع کر دیں، یہاں تک کہ اس عمل کو ڈیجیٹلائز بھی کر دیں، تو بھی نہ تو افسران اور نہ ہی متعلقہ افراد اس کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔’
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں کئی ریاستی حکومتوں نے سنگین جرائم میں ملوث لوگوں کے مکانات اور جائیدادوں کو منہدم کیا ہے، جس کے خلاف لوگوں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 17 ستمبر کو طے کی ہے۔
عرضی گزار نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں توڑ پھوڑ کے حالیہ واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔
معلوم ہو کہ حال ہی میں مدھیہ پردیش میں ایک خاندان کے آبائی گھر کو منہدم کر دیا گیا تھا۔ ادے پور میں میونسپل کارپوریشن نے مبینہ طور پر جنگل کی زمین پر ‘تجاوزات’ کے الزام میں ایک کرایہ دار کے مکان کو منہدم کردیا۔ مکان کی مسماری کرایہ دار کے 15 سالہ بیٹے کو دوسری برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم جماعت کو چھرا گھونپنے کے الزام میں گرفتار کیے جانے کے کچھ وقت بعد ہی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے شہر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی تھی۔
پچھلی بار جب عدالت نے 2022 میں معاملے کی سماعت کی تھی ،تو جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل دشینت دوے نے کہا تھا کہ عدالت کو اس مسئلے کو بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کو ‘غیر معمولی طور پرسنگین’ صورتحال کا سامنا ہے۔ بلڈوزر کےہاتھوں انصاف دیا جا رہا ہے۔ قانون کی حکمرانی ملبے میں چھپی ہوئی ہے۔
ڈیو نے دلیل دی تھی کہ طاقتور ریاستی حکومتیں اور ان کےعہدیدار میونسپل قوانین کا فائدہ اٹھاکر ‘انتقام لینے’ کے لیے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کے نجی مکانات اور عمارتوں کو مسمار کر رہے ہیں جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔
عدالت کی کارروائی پر صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کاردعمل
دریں اثنا، عدالت میں ہوئی آج کی کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے اس معاملے کے اہم فریق صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمو د اسعد مدنی نے کہا کہ بلڈوزر سے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل ہو تا ہے۔ انھوں نے کہا ں جس طرح سے بلڈوزر کی کارروائی کی جاتی ہے اس سے ایک پوری کمیونٹی کو سزا دی جاتی ہے، کسی ملزم کا گھر گرنے سے صرف اس کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آپ خواتین کے تحفظ کی بات کرتے ہیں، آ پ نے کچھ سالوں میں ڈیرھ لاکھ مکانات گرادیے، ان کا سب سے زیادہ نقصان ان خواتین، بچے اور بوڑھوں کو ہوتا ہے۔جنھوں نے کچھ نہیں کیا، ان کو در در بھٹکنا پڑتا ہے، یہ انصاف کا کون سا طریقہ آپ نے وضع کیا ہے ؟ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس پر سخت قدم اٹھائے گی۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اس سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند طبقہ پریشان ہے۔ مولانا مدنی نے کہا انصاف کے حصول کے لیے جمعیۃ علماء ہند ہرممکن جد وجہد کرے گی اور بالکل خاموش نہیں بیٹھے گی ۔