جوانوں کے انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے عرضی، سپریم کورٹ نے مرکز کو نوٹس جاری کیا

فوجی افسروں کی بیٹیوں کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سیلف ڈیفنس کے لئے کی گئی کارروائی پر بھی معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔اس طرح کے واقعات کو لے کر وہ پریشان ہیں۔

فوجی افسروں کی بیٹیوں کی طرف سے داخل عرضی میں کہا گیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سیلف ڈیفنس  کے لئے کی گئی کارروائی پر بھی معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔اس طرح کے واقعات کو لے کر وہ پریشان ہیں۔

سپریم کورٹ / فوٹو: پی ٹی آئی

سپریم کورٹ / فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: سپریم کورٹ ڈیوٹی کے دوران بھیڑ کے حملوں کے شکار ہونے والے سکیورٹی  فورسز کے جوانوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے دائر عرضی پر سماعت کے لئے سوموار کو تیار ہو گیا۔چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس سنجیو کھنہ کی بنچ نے 19 سالہ پریتی کیدار گوکھلے اور 20 سالہ کاجل مشرا کی عرضی پر مرکزی حکومت، وزارت دفاع، جموں و کشمیر اور نیشنل ہیومن رائٹس  کمیشن کو نوٹس جاری کیا۔

درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں فوجیوں اور فوج کے قافلوں پر مشتعل اور خوفناک بھیڑ کے حملوں کے واقعات سے کافی بےچین ہیں۔ دونوں درخواست گزار فوجی افسروں کی بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے ایک فوجی افسر ابھی نوکری میں ہیں جبکہ دوسرے سبکدوش ہو چکے ہیں۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ کام کے دوران مشتعل بھیڑ کے حملوں کے شکار ہونے والے سکیورٹی فورسز  کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر روک  لگانے کے لئے ایک پالیسی تیار کی جائے۔

درخواست گزاروں کے مطابق، سکیورٹی فورسز کے انسان حقوق کی خلاف ورزی کے کئی کارناموں پر اثردار قدم اٹھانے میں مدعا علیہ کے ناکام رہنے کا نتیجہ ہے کہ ان کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں رکاوٹ آ رہی ہے اور تعیناتی کے مقامات پر سکیورٹی فورسزکی حفاظت کو بھی خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسی لئے انہوں نے سیدھے سپریم کورٹ  میں اپنی عرضی دائر کی ہے۔

عرضی میں ہندوستانی فوجی دستہ پر مشتعل بھیڑ کے پتھراؤ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تعیناتی  کے مقام پر امن اور حفاظت بنائے رکھنے کی ذمہ داری نبھا رہے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ اس طرح کے واقعات کو لےکر وہ کافی پریشان ہیں۔عرضی میں فوجی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کئے جانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف سیلف ڈیفنس  کے لئے کی گئی کارروائی پر بھی معاملے درج کئے جا رہے ہیں۔

عرضی کے مطابق، فوجی دستہ کے کسی بھی اہلکار کے خلاف اس کے کسی مجرمانہ کارنامہ کے لئے ایف آئی آر درج کئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ان کی شکایت تشدد کو بڑھاوا دینے والوں کے خلاف اسی طرح کی کارروائی نہیں کئے جانے کو لےکر ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ کا اسمبلی میں یہ اعلان حیران کرنے والا ہے کہ پتھراؤ کرنے والوں کے خلاف درج 9760 ایف آئی آر صرف اس لئے واپس لی جائیں‌گی کیونکہ یہ ان کا پہلا جرم تھا۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ حکومت کوڈ آف کریمنل پروسیجر،انبیر پینل کوڈ میں پیش کردہ قانونی پروسیس  پر عمل کئے بغیر کسی بھی آدمی کے خلاف کوئی بھی  ایف آئی آر واپس نہیں لے سکتی۔اسی طرح ایسے جرم کے لئے شکایت گزار یا متاثر بھی جرم کرنے والے فرد کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق دار ہے۔