سپریم کورٹ نے ہیٹ اسپیچ کے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے میں ریاستوں کی عدم فعالیت سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ریاستی حکومتوں کی کارروائی مذہب سے قطع نظر کی جانی چاہیے۔ کارروائی میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو ہیٹ اسپیچ (نفرت انگیز نقریر) کو ایک سنگین جرم قرار دیا جو ملک کے سیکولر تانے بانے کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ریاستوں کو ہدایت دی کہ وہ ایسے جرائم میں بھلے ہی شکایت درج نہ ہو، پھر بھی معاملہ درج کریں۔
یہ ریمارکس عدالت عظمیٰ نے نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کے خلاف کارروائی کرنے میں ریاستوں کی عدم فعالیت سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، عدالت نے کہا کہ ایسے مقدمات کے اندراج میں تاخیر کو توہین عدالت تصور کیا جائے گا۔
واضح ہو کہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگ رتنا کی بنچ نے کہا تھا کہ نفرت انگیز تقاریر (ہیٹ اسپیچ) اس لیے کی جا رہی ہیں کیونکہ حکومت کمزور اور بے اختیار ہے۔ یہ وقت پر کارروائی نہیں کرتی اوریہ اس وقت بند ہوجائے گی جب سیاست اور مذہب الگ کر دیے جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے جمعہ کے ریمارکس نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کے درمیان آئے ہیں، جو خاص طور پر اقلیتوں میں تشویش اور خوف کا باعث بن رہے ہیں۔
لائیو لاء کے مطابق، سپریم کورٹ نے جمعہ کو اپنے اکتوبر 2022 کے فیصلے(جس میں دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ پولیس کو نفرت انگیز تقاریر کے معاملات کے خلاف از خود کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی تھی) کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک بڑھا دیا ہے۔
اس لیے، اب تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو کسی رسمی شکایت کا انتظار کیے بغیر نفرت انگیز تقاریر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے از خود کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 21 اکتوبر 2022 کو دیا گیا فیصلہ صرف قومی دارالحکومت دہلی، اتراکھنڈ، اتر پردیش کی حکومتوں پر لاگو تھا۔
عدالت نے متنبہ کیا کہ مذہب سے قطع نظر کارروائی کی جانی چاہیے۔ کارروائی میں کسی طرح کی ہچکچاہٹ کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘مدعا علیہان اس بات کو یقینی بنائیں گےکہ جب بھی کوئی ایسی تقریر یا ایسا واقعہ ہو جو آئی پی سی کی دفعہ 153اے، 153بی، 295اے اور 506 وغیرہ جیسے جرائم کے تحت ہو، تو شکایت درج کرائے جانے کے بغیرہی معاملے کو درج کرنے اور قانون کے مطابق مجرموں کے خلاف کارروائی از خود نوٹس لے کر کی جائے گی۔
یہ فیصلہ ایڈوکیٹ نظام پاشا (درخواست گزار شاہین عبداللہ کے لیے) کی طرف سے دائر کی گئی ایک پٹیشن پر دیا گیاتھا، جس میں نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے ہدایات مانگی گئی تھیں۔ ان کی عرضی میں یہ ہدایت دینے کا مشورہ دیا گیا تھا کہ ہر ریاست میں ایک نوڈل افسر مقرر کیا جائے، جو نفرت انگیز تقریر پر کارروائی کرنے کے لیے ذمہ دار ہو۔
گزشتہ 29 مارچ کو عدالت نے توہین عدالت کے ایک معاملے میں مہاراشٹر حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ ریاستی حکام ریلیوں کے دوران کی گئی نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔
معلوم ہو کہ اکتوبر 2022 میں عدالت عظمیٰ نے دہلی، اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے پولیس سربراہوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کے مرتکب افراد کے خلاف رسمی شکایتوں کا انتظار کیے بغیر فوجداری مقدمات درج کرکے ‘فوراً’ اور از خود کارروائی کریں۔
اس کے علاوہ، سپریم کورٹ نے تینوں ریاستوں کی حکومتوں کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں ہونے والی نفرت انگیز تقاریر سے متعلق جرائم پر کی گئی کارروائی کے بارے میں عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کریں۔
بنچ نے کہا تھا کہ ملک کے سیکولر تانے بانے کو برقرار رکھنے کے لیے نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔
بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ‘ہندوستان کا آئین اسے ایک سیکولرملک اور بھائی چارے کے طور پر تصور کرتا ہے، جس میں فرد کے وقار کو یقینی بنایا جاتا ہے اور ملک کی یکجہتی اور سالمیت تمہید میں درج رہنما اصول ہیں۔ جب تک مختلف مذاہب یا ذاتوں کی کمیونٹی کے افراد ہم آہنگی سے نہیں رہ سکتے، بھائی چارہ نہیں ہو سکتا۔’