ایودھیا تنازعہ: یہ فیصلہ جارحیت کے اچھے دنوں کی نشانی ہے؟

04:35 AM Nov 18, 2019 | کرشن پرتاپ سنگھ

سپریم کورٹ نے بھی متنازعہ زمین رام للا کو دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس کافیصلہ نہ صرف 6 دسمبر، 1992 کی توڑپھوڑبلکہ 22-23 دسمبر، 1949 کی رات مسجدمیں مورتیاں رکھنے والوں کی بھی جیت ہوگی۔ ایسے میں عدالت کا ان دونوں کارناموں کوغیر-قانونی ماننے کا کیا حاصل ہے؟

علامتی تصویر/پی ٹی آئی

جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، جانکاروں کے ذریعے رام جنم بھومی- بابری مسجدتنازعہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی کئی زاویے سے وضاحت کی جا چکی ہے، پھر بھی ایک زاویہ اچھوتا رہ گیا لگتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ واحد ایسا تنازعہ نہیں ہے، جس میں متاثرہ فریق  کو انصاف کے بجائےانصاف سے اس کا فاصلہ بڑھانے والا فیصلہ ہی ہاتھ آیا ہو اور وہ ٹھگا ہواسا محسوس‌کررہا ہو۔ بےوجہ نہیں کہ اردو شاعری کی دنیا عدالتی’انصاف ‘کے ماروں کے گلے شکووں سے بھری ہوئی ہے اور پریم چند کی معروف و مشہور کہانی ‘ نمک کا داروغہ ‘ میں دولت اور مذہب کے بیچ کی کشمکش میں مضبوطی کے ساتھ مذہب کی حمایت میں کھڑے منیم ونشی دھر کوبھی کئی بار انصاف اپنی طرف سے کھنچا-کھنچا ہی لگتا تھا۔

 کہتے ہیں کہ ایک وقت ایک بڑے وکیل نے اپنے چیمبر میں موکلوں کے لئے یہ پیغام بھی لکھ چھوڑا تھا، ‘میں نہیں کہتا کہ عدالت سے انصاف دلا دوں‌گا۔ اس کےالٹ عدالت جو بھی دے دے، اسی کو انصاف سمجھنا ہوگا۔ ‘بہر حال، انصاف کی ایک بڑی کسوٹی یہ ہے کہ اس میں تھوڑی-بہت دیر ہوتی ہوتو ہو جائے، اندھیر قطعی نہ ہونے پائے۔ لیکن ملک میں انصاف کا جو بےحد لمبا، اکتادینے والا، بےمزہ اور خرچیلا نظام چلا آ رہا ہے، اس میں کس کو نہیں معلوم کہ دیربھی ہوتی ہے اور اندھیر بھی؟

فوجداری کے مقدموں میں تو اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو انھیں دائر کرتاہے، ان کا فیصلہ سننے کے لئے دنیا میں نہیں رہتا۔ اس کے ناتی-پوتوں کو بھی لمبےانتظار کے بعد ہی فیصلہ نصیب ہو پاتا ہے۔فوجداری کے معاملوں میں بھی حالت الگ نہیں ہے، ورنہ فلمسازوں کو’نو ون کلڈ جیسیکا’جیسی فلمیں بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ایسے کسی ایک معاملے کا نام کیا لیا جائے، جب پچھلے سالوں میں ہم نےقتل عام تک کے کئی مشہور معاملوں میں قصورواروں کو ‘ثبوتوں کی کمی’ یا ‘گواہوں کے پلٹ جانے ‘ کی وجہ سے اپنے کیے کی سزا سے صاف بچ نکلتے دیکھا ہے۔ دلتوں،محروم، اقلیتوں اور غریبوں کے لئے انصاف کی راہ میں رکاوٹوں  کی گنتی عام طور پرابھی بھی مشکل ہی ہے۔

جب بھی یہ رکاوٹیں کوئی گل کھلاتی ہیں، ہمارا نظام کچھ دیر کے لئے ہمارےساتھ بےچین-سا محسوس کرنے کی اداکاری کرتا اور مقدموں کے بڑھتے انبار پرتشویش  کااظہار کرتے ہوئے ایسی غلط فہمی رچنے میں لگ جاتا ہے کہ آگے حالات بدلنے کی کوشش کرے‌گا۔لیکن کچھ ہی دنوں بعد سب کچھ بھول‌کر پرانے دھرے پر چلنے لگ جاتا ہے۔ عوامی دباؤ کی کمی اس کام میں اس کا بڑا مددگار ہوتا ہے، جو ناانصافی کےایسے ہر حادثے کے کچھ ہی دنوں بعد ‘پبلک میموری از شارٹ ‘ کو صحیح ثابت کرتے ہوئےاس طرح کے کسی اور حادثے تک کمبھ کرن بنا رہتا ہے۔

 ٹھیک ہے کہ رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کوئی عام تنازعہ نہیں اور عام لوگ اس میں کسی ایسے فیصلے کی امید نہیں کر رہے تھے، عام سمجھداری بھی جس میں کئی غیرمتوقع پوائنٹ کھوج نکالے۔ لیکن اس میں تعجب کی بات صرف اتنی ہی ہے کہ اس کی سماعت کرنے والے جج اپنےفیصلے کو انصاف کے بجائے فیصلہ دینے کی عدالتی روایت کا ‘استثنیٰ’ نہیں بنا سکے۔تنازعہ سے جڑے نچلی عدالتوں کے دو دیگر مایوس کرنے والے فیصلوں پر غور کرنے سے یہ بات کہیں زیادہ صاف ہوکر سامنے آتی ہے۔

ان میں پہلے فیض آباد کے اس وقت کے ضلع جج کرشن موہن پانڈیہ کا ایک فروری،1986 کا وہ حکم ہے، جس میں انہوں نے بابری مسجد میں لگائے گئے ان تالوں کو کھول دینے کا حکم دیا تھا، جو 22-23 دسمبر، 1949 کو مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے بعد اس کو قرق کرتے ہوئے 29 دسمبر، 1949 کو بند کئے گئے تھے۔ تب انہوں نے ایک وکیل کی تالے کھولنے کی عرضی پر دوسرے فریق کو سننا تک گوارہ نہیں کیا تھا۔ البتہ، فیض آباد کے کلکٹر اور سینئر پولیس سپرنٹنڈنٹ کو بلاکراتنا بھر پوچھا تھا کہ اس سے نظم و نسق کا کوئی مسئلہ تو کھڑا نہیں ہوگا؟ مذکورہ دونوں افسروں نے ‘نہیں’میں جواب دیا تھا اور انہوں نے تالے کھولنے کا حکم دےدیا تھا۔

 جیسے کہ یہ صرف نظم و نسق کا ہی معاملہ رہا ہو۔ بعد میں انہوں نے کہا تھاکہ یہ فیصلہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر دیا، لیکن ان دنوں ان کے فیصلے کو لےکرجس طرح کی باتیں کہی گئی تھیں، وہ عدلیہ کی عزت بڑھانے والی نہیں ہی تھیں۔ اسی طرح 6 دسمبر، 1992 کو مذکورہ مسجدکے توڑپھوڑ کے بعد کارسیوکوں نے اس وقت کے اقتدار کی ملی بھگت سے اس کے ملبہ پر ‘عارضی رام مندر’کی’تعمیر’ کر ڈالی، تو ایک وکیل نے ہندوؤں کو اس میں لگائی گئی مورتیوں کی زیارت کی اجازت دینے کے لئے الٰہ آبادہائی کورٹ میں عرضی دائر کی۔

 تب جسٹس ہری ناتھ تلہری نے، عارضی مندر کے ‘تقدس ‘کے مفاد میں، ایک جنوری،1993 کو ان کی عرضی منظور کرتے ہوئےاہتمام دیا تھا کہ چونکہ آئین کی اصل کاپی میں کے خاکوں میں بھگوان رام کےبھی خاکے ہیں، اس لئے وہ آئینی شخصیت ہیں اور ہندو جہاں بھی ان کی زیارت کی اجازت مانگتے ہیں، وہ ان کو دی جانی چاہیے۔کارسیوکوں کے ‘عارضی مندر’کو جائز بنا دینے والے اس فیصلے سے پہلے انہوں نے یہ غورکرنا قطعی ضروری نہیں سمجھا کہ اس سے سپریم کورٹ کے صورت حال بنائےرکھنے کے حکم کی بے عزتی کرکے مسجد مسمار کرنے والے کارسیوکوں کی کارستانی کو انعام مل جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مذہبی اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟

اب سپریم کورٹ نے بھی متنازعہ زمین رام للا کو دیتے ہوئے اس مدعے پر نہیں ہی سوچا ہے کہ اس کا فیصلہ نہ صرف 6دسمبر، 1992 کی توڑپھوڑ بلکہ 22-23 دسمبر، 1949 کی رات اس میں مورتیاں رکھنے کے کارنامے کے نایکوں کی بھی جیت ہوگی۔ایسے میں اس کے ذریعے خود ان کارناموں کو غیر قانونی ماننے کا کیا حاصل ہے؟ اور اس نظریے کا کیا کہ انصاف پانے کا پہلا حق ان کو جاتا ہے، جو کلین ہینڈیڈیعنی پاک و صاف ہوکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے آئے ہوں۔

 یہاں تو وہ عرصے تک اس ‘عقیدہ کے تنازعہ ‘کے فیصلے کی عدالت کے حق پر ہی انگلیاں اٹھاتے رہے اور اب اپنے عقیدہ کی جیت کو لےکر مگن ہیں۔ توڑپھوڑ کی سازش کے ملزم لال کرشن اڈوانی کی تو سرعام تحسین کی جارہی ہے۔ کم سے کم اس معنی میں تو ان کی جیت ہوئی بھی ہے کہ جس ایکسکلوزو حق کے فقدان میں ایک فریق کا دعویٰ پوری طرح خارج کر دیا گیا، اس کی کمی کے باوجود ان کو سارےحق دے دئے گئے ہیں۔

اس سوال کا سامنا کئے بنا کہ کیا تباہ شدہ بابری مسجد اپنی بنیاد پر کھڑی ہوتی تو اس کو ڈھا کر یہ حق دئے جاتے؟

پھر اس سچائی کونظر انداز کرکےکہ اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ نےبابری مسجد کی مسمار ی کے فوراً بعد ملک کے نام پیغام میں وعدہ کیا تھا کہ حکومت اس کی تعمیرنو کرائے‌گی، دوسرے فریق کو مسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین بھر دی گئی ہے۔حکومت کو اتنی بھی ہدایت نہیں دی گئی  کہ وہ بھرپائی کے لئے اس پر خود مسجد بناکردے۔ یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ حکومتوں کے ذریعے دنگا فساد کے دوران بربادمذہبی مقامات کی مرمت اور تعمیرنو کی روایت رہی ہے۔

 دوسری طرف سیکولرزم کو مقدس آئینی قدر ماننے والے ملک کی حکومت اب عدالتی حکم کی بنیاد پر ایسے رام مندر کی تعمیر میں شامل  ہونے جا رہی ہے، جس کو مسمار کر کے مسجد بنانے کا فی الحال، کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن بات یہی تک محدودنہیں ہے۔اپنے عقیدہ کی  جیت سے ‘دل مست مگن’ہوئے لوگ اوروں  سے کہہ رہے ہیں کہ وہ فیصلے کو کسی کی  ہار اور کسی کی جیت کے طور پر نہ دیکھیں۔ اب تک جو کچھ بھی ہوا،اس کو بھلاکر اپنے مستقبل کی فکر کریں۔

یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ہم آہنگی بنائے رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہے-اس انداز میں کہ جیسے جن سے وہ کہہ رہے ہیں، ان کو ہم آہنگی بنائے رکھنا آتا یا بھاتاہی نہیں، جبکہ وشو ہندو پریشد کے لوگ ابھی بھی دوسرے فریق کو یہ’سجھانے ‘سے بازنہیں آ رہے کہ وہ فیصلے میں اس کو ملی پانچ ایکڑ زمین پر مسجد بنائے تو اس کا نام بابری نہ رکھے۔ دوسری طرف وہ اپنی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان کو ایودھیا کی تہذیبی سرحد میں کوئی زمین نہ دے۔

 البتہ،آرایس ایس یقین دہانی کروا رہا  ہے کہ وہ مستقبل میں متھرا اور کاشی کے معاملے نہیں اٹھائے‌گا، لیکن اس کا کیا، اس نے ملک کے پہلےوزیر داخلہ ولبھ بھائی پٹیل کو بھی یقین دہانی کرائی  تھی کہ وہ مستقبل میں ثقافتی تنظیم ہی بنا رہے‌گا۔ اس کی  اس یقین دہانی کا خاتمہ یہ ہے کہ آج وہ پورے ملک کی سیاست کو منضبط کر رہا ہے۔ کاش، ‘ہم آہنگی’کے نئے ‘پیروکار’سمجھتے کہ ہم آہنگی کوئی ایسی چیزنہیں ہے، جس کو کوشش سے قائم کی جا سکتا ہو اور وہ تبھی لمبی عمر پاتی ہے، جب اسکی بنیاد میں یکسانیت، بھائی چارہ اور انصاف جیسے مقدس جذبہ اور ان سے جڑی قدرہوں۔

 اس لحاظ سے کسی کمیونٹی کی مایوس کن خاموشی کو غلط طریقے سے اس کا اتفاق یاخود سپردگی کے طور پر پڑھنا قطعی مددگار نہیں ثابت ہونے والا۔

وہ نہیں سمجھ رہے اور فیصلے کے بعد اپنی طاقت اور حوصلہ بڑھا ہوا محسوس‌کررہے ہیں تو قاعدے سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس تنازعہ کا بوجھ اٹھانے میں بری طرح فیل ہوئی ہندوستان کی دوسری ایجنسیوں کے ساتھ عدلیہ نظام بھی اپنا تجزیہ کرتی۔ یہ محسوس کرتیں کہ اس نے ایودھیا کے اس معمولی سے تنازعہ کے ناسور بن جانےکے لمبے عرصے بعد اس کو اس کےانجام  تک پہنچایا توبھی ایک فریق کی مایوسیوں اور بےاطمینانی کا حل نہیں ہو سکا۔

اس کا یہ محسوس کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ یہ تنازعہ بڑھتے-بڑھتےصرف مندر اور مسجد کا نہیں رہ گیا تھا۔ اس کا ہو گیا تھا کہ اقلیتوں کو برابری کےدرجے سے بےدخل کرکے دوئم بنانے میں لگی اکثریت کی جارحیت کہاں جاکررکے‌گی اورہمارا ملک مستقبل میں سیکولر رہ پائے‌گا یا نہیں؟ فیصلے میں ہوئی’ عقیدہ کی جیت’کے بعد اس جارحیت کو اپنے اچھے دن آ گئےلگتے ہیں تو آئینی قدروں کی فکر کرنے والوں کو ہندی کے سینئر شاعر سبھاش رائے کی ایک نظم یاد آتی ہے؛

اس نے سویکار کیا ہے

 کہ سنویدھان ایک پوتر گرنتھ ہے

 اس کی سرکچھا بےحد ضروری ہے

اس لئے اس نے طے کیا ہے

 جہاں جہاں رکھا ہے سنویدھان

 گارڈ بٹھا دو/تالے ڈال دو۔

 کوتوال نے

فرمان جاری کیا ہے

 دیش جہاں بھی ہو

اس کو زنجیروں میں جکڑ‌کر

 لاک اپ میں ڈال دو

 زوروں سے تلاش ہے دیش کی

 اس پر انعام ہے

اور وہ فرار ہے۔

(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)