سپریم کورٹ جموں و کشمیر میں نابالغوں کو حراست میں لینے، ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانے جیسے کئی معاملوں پر دائر عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں پابندی کو چیلنج دینے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ اور کتنے دن پابندی لگی رہےگی، آپ کو واضح جواب دینا ہوگا۔ کورٹ نے معاملے کی سماعت پانچ نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔ اس معاملے کی شنوائی کے لئے بنائی گئی بنچ کی قیادت کر رہے جسٹس این وی رمن نےسالیسٹر جنرل توشار مہتہ سے زبانی طور پر پوچھا کہ ریاست میں اور کتنے دن تک پابندی رہےگی۔
جسٹس رمن نے مہتہ سے پوچھا، ‘ کتنے دن تک پابندی لگی رہے گی؟ آپ کو واضح جواب دینا ہوگا۔ ‘ وہیں جسٹس ریڈی نے کہا کہ وقت وقت پر پابندیوں کا تجزیہ بھی ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں مہتہ نے کہا، ‘ پابندیوں کا روزانہ تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ تقریباً 99 فیصد علاقوں میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ ‘
لائیو لاء کے مطابق، سالیسٹر جنرل کے اس بیان کا درخواست گزاروں کے وکیل ورندا گروور نے مخالفت کی اور کہا کہ ریاست میں ابھی بھی انٹرنیٹ پر پابندی ہے۔ اس پر مہتہ نے کہا کہ درخواست گزاروں نے اس وقت کوئی سوال نہیں اٹھایا تھا جب 2016 میں اسی طرح کی انٹرنیٹ پابندی لگائی گئی تھی۔
تشار مہتہ نے دعویٰ کیا کہ بارڈر کی دوسری طرف سے پڑنے والے اثرات کو دیکھتے ہوئے انٹرنیٹ بند کرنا ضروری تھا۔ سپریم کورٹ نابالغوں کی حراست کے بارے میں ایناکشی گانگولی،ذرائع ابلاغ کی پابندی پر انورادھا بھسین اور کانگریس راجیہ سبھا رکن پارلیامان غلام نبی آزاد کی عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔
پچھلی بار 16 اکتوبر کو سماعت کے دوران جب کورٹ نے کہا کہ
پابندیوں کے بارے میں دستاویز پیش کئے جائیں، اس پر سالیسٹر جنرل نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کا خصوصی اختیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ دستاویز کورٹ کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد بنچ نے حکم دیا کہ اگر کسی وجہ سے سالیسٹر جنرل پابندی کے احکامات کی کاپی درخواست گزاروں کو نہیں دینا چاہتے ہیں تو وہ حلف نامہ دائر کرکے بتائیں کہ وہ کیوں ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے 16 ستمبر کوچیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت والی بنچ نے مرکز سے گزارش کی تھی کہ وہ جموں و کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو رد کرنے لے بعد ریاست میں یہ پابندیاں لگائی گئی تھیں۔